مئی 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فقہیہ قارون ہے لغت ہائے حجازی کا||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے لیے سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ میں جب بھی عمران خان کی ذہنیت کو آشکار کرنے کے لیے کسی مشہور شعری مصرعہ کا خیال دل میں لاتا ہوں تو اُس مصرعہ میں کوئی ایسا اسم صفت استعمال ہورہا ہوتا جس کے لائق بھی عمران خان نہیں ہوتا، اقبال نے دربار سے وابستہ ماہر علوم اسلامیہ کو فقیہ کے اسم صفت سے یاد کیا – عمران خان فقیہ کی تعریف میں تو قطعاً داخل نہیں ہوتے لیکن وہ "لغت ہائے حجازی” کے قارون ضرور بنے ہوئے ہیں:
سادھو کی کے مقام پر لانگ مارچ کے شُرکا سے تقریر کرتے ہوئے انھوں نے مذھبی تاریخ میں نامور پیغمبروں کی مثال دی – موسیٰ علیہ السلام کی فرعون اور اُس کے حواریوں سے اپنی مظلوم قوم کی نجات کی جدوجہد، ابراہیم علیہ السلام کی نمرود کی ظلم و جبر کی حکومت کے خلاف جدوجہد، عیسٰی علیہ السلام کی اشراف اور ظالم یہودی طبقات کے خلاف عدم تشدد پر مبنی جدوجہد اور محمد علیہ السلام کی مکہ کی قریشی اشراف جنھیں قرآن ملاء الارض کے مرکب الفاظ سے یاد کرتا ہے کے خلاف جدوجہد کا حوالہ دیا اور یہاں تک کہا کہ کفار مکہ کے خلاف اُن کی لڑائی آزادی اظہار پر پابندی کے خلاف لڑائی تھی –
انہوں نے کہا کہ وہ بھی حق کے قیام، انصاف کے نفاذ اور باطل کو مٹانے کے لیے نکلے ہیں – انھوں پاکستان کے موجودہ نظام کو جانوروں کا نظام قرار دیا –
عمران خان کے لانگ مارچ کا سب سے بنیادی مطالبہ موجودہ حکومت سے اسی سال الیکشن کے اعلان کا ہے – جو ظاہر سی بات ہے اسی نظام کے اندر رہ کر منعقد ہوں گے جس کی بنیاد 1973ء کا آئین ہے –
وہ 2018ء میں اُن کے بقول آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے انعقاد سے سب سے زیادہ پارلیمانی اکثریت رکھنے والی پارٹی بنکر ابھرے تھے اور انہوں نے مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور آزاد اراکین کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دی – مارچ 2021 تک انھوں نے حکومت کی – یہی نظام تھا جس کے تحت وہ حکومت کرتے رہے اور اسی نظام کے اندر رہ کر وہ پاکستانی ریاست کو ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ کرتے رہے – انھوں نے اپنی حکومت کے آخری دن تک یہ دعویٰ کیا کہ وہ اس ملک کے طاقتور، بااختیار انتظامی سربراہ ہیں اور ان کے ماتحت کسی ادارے کے سربراہ میں اتنی جرات نہیں ہے کہ اُن کو ڈکٹیشن دے سکے – تحریک عدم اعتماد کے پیش ہونے کے وقت انھوں نے امریکہ کو اُن کی حکومت کو بدلنے کی سازش کا سرغنہ قرار دیا اور پاکستان کی اپوزیشن کو امریکہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کا الزام دیا- لیکن اس دوران اُن کا ایک بھی آن دا ریکارڈ بیان موجود نہیں ہے جس کے مطابق اُس سازش میں چیف آف آرمی اسٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو شریک قرار دیا گیا ہو –
لیکن جب وہ اقتدار سے باہر کردیے گئے تو انھوں نے اس سازش کے اہم ترین کرداروں میں چیف آف آرمی اسٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو بھی اُس وقت اعلانیہ شامل کیا جب وہ رات کی تاریکی میں اسٹبلشمنٹ کے ان دو طاقتور کرداروں سے ملے تھے اور اُن سے موجودہ حکومت کے خاتمے اور اگلے انتخابات میں اپنی جیت کی ضمانت طلب کی تھی- جو انھیں نہیں ملی تو وہ باوجوہ کو میر جعفر اور ندیم انجم کو میر صادق قرار دینے لگ گئے –
وہ فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہوں کو تحریک عدم اعتماد پیش ہوئے کے بعد اپوزیشن کو غدار قرار دے کر جیلوں میں ڈالنے پر زور دیتے رہے –
اپوزیشن میں آکر بھی فوج اور آئی ایس آئی موجودہ حکومت کے خاتمے میں مدد دینے کی درخواست کرتے پائے گئے اور جب درخواست نامنظور ہوگئی تو انہوں نے حکومت میں آکر اپنے منشور میں کیے گئے وعدوں کی تکمیل نہ ہونے کا سارا الزام فوج اور آئی ایس آئی پر دھر دیا – وہ ایک دم سے بطور وزیراعظم دیے گئے بیانات سے منحرف ہوگئے اور کہنے لگے کہ وہ بے اختیار وزیراعظم تھے اصل فیصلے تو فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہ کررہے تھے –
ایک طرف عمران خان اپنی سیاست کو انبیائے کرام کی جدوجہد کی پیروی قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف وہ جنھیں فرعون، نمردو، اشراف یہودی اور کفار مکہ سے تشبیہ دیتے ہیں اُن سے اپنے آپ کو اقتدار میں واپس لانے کی درخواستیں کرتے ہیں –
جس نظام کو وہ جانوروں کا نظام کہتے ہیں اُس نظام میں غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کے طاقتور عہدے داروں سے اقتدار کی بھیک مانگتے ہیں –
وہ اپنی سیاست کا جو بیانیہ اب تک بناتے آئے ہیں اُن کے فیصلے اور پالیسیاں اُس بیانیہ کی کھلی نفی کرتی ہیں –
وہ مذھب کی جس پولیٹکل /سیاسی تعبیر کو اپنا نصب العین بتاتے ہیں وہ جمہوریت کی نفی کرتا ہے اور اقتدار و طاقت کا سرچشمہ فرد واحد کو قرار دیتا ہے –
وہ صرف ایسے اشراف کے خلاف ہیں جو اُن کی پارٹی میں نہیں ہیں یا اُن کے اتحادی نہیں ہیں –
جتنی سطحی سیاسی تعبیر وہ مذھب کی کرتے ہیں اُتنی سطحی تعبیر تو اُن کے ممدوح آمر ایوب خان نے بھی نہیں کی تھی کیونکہ اُس کے پاس ڈاکٹر فضل الرحمان اور غلام احمد پرویز جیسے مذھبی درباری تھے اور سی اے قادر جیسا فلسفی درباری ماہر قانون تھا- عمران خان کے پاس مولوی طارق جمیل جیسے نرے واعظ، قصہ گو اور مبلغ ہیں –
اسی لیے ہمیں عمران خان کے اکثر کارکن بھی سطحی شعور کے حامل نظر آتے ہیں جو اپنے جاہل قائد کو امت مسلمہ کا قائد قرار دیتے ہیں –
عمران خان کی اسلام کی سیاسی تعبیر میں اُتنی بھی گہرائی نہیں ہے جتنی مولانا مودودی، سید قطب کی اسلام کی سیاسی تعبیر میں تھی –
ہمیں سیاست کے میدان میں ایک مہا دروغ گو کا سامنا ہے جس کا حافظہ بدترین نسیان کا شکار ہے اور وہ اپنے ہر نئے بیان کو حق، سچ قرار دے ڈالتا ہے –

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: