نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا واقعی پاکستان میں جمہوری تحریک اسٹبلشمنٹ کے آگے مکمل طور پر سرنڈر ہوگئی ہے؟||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پی ٹی ایم کے کنوینئر منظور پشتین نے عاصمہ جہانگیر انٹرنیشنل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پارلیمنٹ، عدلیہ، سویلین انتظامیہ، بار، میڈیا کے بارے میں یہ کہا کہ وہ سب کے سب کے جرنیلوں کی مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں کرسکتے – انہوں نے شکوہ کیا کہ مذکورہ بالا سب کے سب پشتونوں کے حقوق کا تحفظ کرنے سے قاصر ہیں – اُن کی تقریر کا ماحصل یہ تھا کہ پاکستان میں سیاست دان، جج، وکیل، صحافی سب کے سب اسٹبلشمنٹ کے سامنے سرنگوں ہوچکے ہیں –
کیا واقعی پاکستان میں جمہوری تحریک اسٹبلشمنٹ کے آگے مکمل طور پر سرنڈر ہوگئی ہے؟
کیا واقعی تاریکی نے مکمل طور پر غلبہ پالیا ہے اور ملک میں سرے سے ایسی کو مزاحمت موجود نہیں ہے جو اس تاریکی کے خاتمے کے لیے سرگرم عمل ہو؟
میرے خیال میں یہ بہت ہی مایوس کُن اور حد سے زیادہ مبالغہ آرائی پر مبنی رائے ہے جو منطور پشتین نے پیش کی ہے –
اگر ہم مشرف کے دور سے لیکر اب تک کی سیاسی میدان میں پلیش رفت دیکھیں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ پاکستان میں جمہوری قوتوں نے اپنی تمام تر کمزریوں کے باوجود رجعت پسند طاقتوں کے مقابلے میں کافی حد تک مزاحمت دکھائی ہے –
پاکستان میں جمہوریت کی سب سے بڑی علمبردار سیاسی قوت پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی ہیں – ان دونوں جماعتوں نے جمہوری اصولوں کو سربلند رکھنے کی سب سے بڑی قیمت چُکائی ہے –
افغانستان میں امریکی حملے سے پیدا شدہ صورت حال میں پاکسان کے اندر تحریک طالبان پاکستان اور اس کے اتحادی جُملہ عسکریت پسند گروپوں کے خلاف جن سیاسی قوتوں نے اپنا موقف پوری شدت اور طاقت سے پیش کیا تو وہ پی پی پی اور اے این پی تھیں – ان دونوں جماعتوں کی صف اول کی قیادت سے لیکر گراس روٹ لیول پر موجود سیاسی کارکنوں نے تحریک طالبان پاکستان اور اس طرح کے دیگر مذھبی عسکریت پسندوں کے خلاف اپنے سیاسی موقف کی پاداش میں سب سے زیادہ قربانیاں دیں –
پی پی پی کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان میں بارود کے بل بوتے پر اپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش کرنے والی طاقتوں کے خلاف عدم تشدد پر مبنی وفاقی پارلیمانی جمہوری جدوجہد کرتے ہوئے اپنی جان کی قربانی دی –
پاکستان پیپلزپارٹی نے جنرل مشرف کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دعوے کو جھوٹا اور منافقانہ موقف قرار دیا – اُس نے دنیا بھر میں جمہوری طاقتوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ جنرل مشرف کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا اتحادی سمجھ کر وہ بہت بڑی غلطی کے مرتکب ہورہے ہیں- یہ بے نظیر بھٹو تھیں جنھوں نے جنرل مشرف کی نام نہاد ترقی پسندی، روشن خیالی اور لبرل ہونے کے دعوے کو کھوکھلا اور تضاد سے بھرپور قرار دیا اور اُسے عالمی سطح پر تنہا کرنے کی انتھک جدوجہد کی –
پیپلزپارٹی مشرف کے زمانے میں وہ واحد سیاسی جماعت تھی جس نے مشرف رجیم کی ملک میں عسکریت پسند قوتوں کے ساتھ درپردہ گٹھ جوڑ کو بے نقاب کیا اور اے آر ڈی کی اصل جمہوری طاقت بھی اپنے آپ کو ثابت کیا-
یہ وہ دور تھا جب اے آر ڈی میں شامل پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ نے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور جنرل مشرف کے اقتدار کے خاتمے کی جدوجہد میں برابر کی شریک ہونے کی بجائے میاں محمد نواز شریف اور اُن کے خاندان کے دیگر افراد کی رہائی کے لیے جنرل مشرف سے ڈیل کی اور اس ڈیل میں اُس نے سعودی عرب اور لبنان کے حکمران خاندانوں کی ضمانت شامل کی اور یوں "بحالی جمہوریت” کی تحریک کو پس پشت ڈال کر اپنی جماعت کے سربراہ کو ذاتی مفادات کے لیے دس سال تک سعودی عرب میں جلاوطنی کاٹنے اور سیاست میں حصہ نہ لینے کی شرائط پر جنرل مشرف سے ڈیل کرلی –
یہ پیپلزپارٹی تھی جس نے ایسا کوئی بھی سمجھوتہ کرنے سے انکار کیا –
اُس زمانے میں پاکستان کے مین سٹریم میڈیا اور سول سوسائٹی کے اشراف سیکشن کا ایک بڑا حصہ مشرف رجیم کو ایک لبرل رجیم بناکر پیش کرنے میں مصروف تھا-
آپ ان دنوں میں جنگ میڈیا گروپ اور ڈان میڈیا گروپ کے اخبارات اور بعد ازاں ان گروپوں کے الیکٹرانک چینلز کی مجموعی پالیسی کو دیکھ لیں –
ان میں کام کرنے والے لبرل تجزیہ نگار، کالم نگار دونوں کے دونوں مشرف رجیم کو پاکستان میں رجعت پسند سیاسی و مذھبی قوتوں کے خلاف امید پرستانہ نظر سے دیکھ ریے تھے اور پاکستان کی فوجی حکومت کے امریکہ اور یورپ کی حکومتوں کے ساتھ اتحاد کو نیک فال قرار دے رہے تھے –
وہ مشرف رجیم کے دہشت گردی کے خلاف بیانیے کی مکمل حمایت کررہے تھے –
مشرف رجیم نے اے آر ڈی کی تحریک کے خلاف کرپشن، لوٹ مار کا جو بیانیہ ترتیب دیا تھا میڈیا اور سول سوسائٹی کا لبرل سیکشن اُس کو فروغ دے رہا تھا – یہ وہی بیانیہ تھا جو 12 اکتوبر 1999ء سے پہلے میاں نواز شریف اور اسٹبلشمنٹ یک جان ہوکر پیپلزپارٹی کی قیادت کے خلاف اپنائے ہوئے تھے اور میڈیا و سول سوسائٹی اُس بیانیہ کی مکمل حمایت کررہا تھا – کل اور آج میں فرق صرف اتنا تھا کہ پہلے یہ صرف پیپلزپارٹی کی قیادت کا ٹرائل تھا اب اس میں مسلم لیگ نواز کی قیادت کو بھی شامل کرلیا گیا تھا – احتساب کے کہٹرے میں صرف پی پی پی کے سیاست دان ہی کھڑے کیے گئے تھے بلکہ اس میں نواز شریف اور ان کے دیگر سیاست دانوں کو بھی شامل کرلیا گیا تھا –
شریف خاندان مشرف سے ڈیل کرکے اس احتساب سے اپنے آپ کو بچا لے گیا تھا – جبکہ اُس کی پارٹی کے نامور سیاست دان جیلوں میں پڑے ہوئے تھے –
بے نظیر بھٹو 2002 کے انتخابات میں پرامید تھیں کہ وہ اے آر ڈی کے پلیٹ فارم سے مشرف رجیم کو اپنی مرضی کی حکومت بنانے سے روک دیں گی – اس راستے میں سب سے پہلی روکاوٹ شریف خانندان کی مشرف سے ڈیل بنی، دوسری روکاوٹ مشرف رجیم کی پشت بنائی سے قائم ہونے والی متحدہ مجلس عمل بنی – اس کے باوجود 2002 کے انتخابات میں پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کی نشستیں مجموعی طور پر مشرف کی بنائی گئی کنگ پارٹی مسلم لیگ ق، جی ڈی اے، تحریک انصاف، پاکستان عوامی تحریک، ملت اسلامیہ پاکستان /سپاہ صحابہ پاکستان سے بڑھ کر تھیں- مسلم لیگ نواز اور ایم ایم اے نے اس موقعہ پر جب اپنے اپنے امیدوار وزرات عظمیٰ کے لیے لانے کا فیصلہ کیا تب بھی پی پی پی وزیراعظم کا انتخاب جیتنے کے لیے پرامید تھی –
جنرل مشرف نے پی پی پی کو مشرف کے حمایت یافتہ سیاسی اتحاد سے مل کر حکومت بنانے کی پیشکش کی شرط باوردی مشرف کی حمایت تھی جس سے بے نظیر بھٹو نے انکار کردیا تو پی پی پی میں نقب لگاکر دس اراکین قومی اسمبلی پر مشتمل پی پی پی پٹریاٹ بنائی گئی – بے نظیر بھٹو کو یقین تھا کہ اس کے باوجود پی پی پی مسلم لیگ نواز اور ایم ایم اے سے مل کر اپنا وزیر اعظم منتخب کراسکتی ہے لیکن اس موقعہ پر دس سال تک سیاست نہ کرنے کا مشرف سے معاہدہ کرنے والے نواز شریف نے بجائے اے آر ڈی میں شامل اپنی جماعت کا الگ امیدوار کھڑا کیا اور ایم ایم اے نے اپنا امیدوار مولانا فضل الرحمان کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیا جو کے پی کے اور بلوچستان میں جنرل مشرف کی پشت پناہی سے جیت کر آیا تھا –
یوں مسلم لیگ نواز اور ایم ایم اے نے مل کر بے نظیر بھٹو کی جانب سے مشرف سے 2002 میں ہی نجات کے منصوبے کو ناکام بنادیا گیا-
اگلا مرحلہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے انتخاب کا تھا- اس موقعہ پر قومی اسمبلی میں پی پی پی کی اکثریت کو سبوتاژ کرنے کے لیے نواز لیگ نے اپنے ووٹ مولانا فضل الرحمان کے پلڑے میں ڈالے قائد حزب اختلاف انھیں بنوایا –
جس وقت جنرل مشرف نے افغانستان پر حملے کے بعد امریکہ کے اتحادی کے طور پر خود کو شامل کرنا چاہا تو جنرل مشرف کو اَس کے حمایتی سیاسی اتحاد کے ساتھ ساتھ عمران خان، فضل الرحمان، قاضی حسین احمد و دیگر نے اُس سے ملاقات کرکے اُسے حمایت دی تب بھی یہ پیپلزپارٹی ہی تھی جس نے مشرف رجیم کی پالیسی کو منافقانہ قرار دیا کیونکہ مشرف رجیم اندرون خانہ افغان طالبان کو بچارہا تھا اور اس سے ایم ایم اے کو کوئی اختلاف نہیں تھا اور نہ ہی مسلم لیگ نواز کو کوئی اختلاف تھا – ایم ایم اے اور مسلم لیگ نواز کی پاکستان میں قیادت بظاہر تو مشرف کی امریکہ کی حمایت کو "یو ٹرن” سے تعبیر کررہی تھی لیکن وہ اندرون خانہ جانتی تھی کہ پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ سٹریٹجک ڈیپتھ کی پالیسی کو کیموفلاج کرکے چلارہی تھی اور وہ اندرون خانہ افغان طالبان اور القاعدہ کی مرکزی قیادت کو پناہ فراہم کررہی تھی –
یہ پاکستان پیپلزپارٹی اور اے این پی کی قیادت تھی جو مشرف رجیم کے افغان طالبان اور القاعدہ کی قیادت سے خفیہ روابط اور ان کی سرپرستی کو بے نقاب کررہی تھی اور مشرف رجیم کو ہٹانے کی حقیقی جدوجہد کررہی تھی – بے نظیر بھٹو نے ایم ایم اے کو بھی بے نقاب کیا تھا اور اسے "ملا ملٹری الائنس” کا نام دیا تھا – ایم ایم اے اُس وقت مشرف کی بی ٹیم کے طور پر بے نقاب ہوئی جب مولانا فضل الرحمان نے مشرف کے ایل ایف او کو قومی اسمبلی سے پاس کروایا اور اُسے ایک بار پھر باوردی صدر رہنے کا موقعہ فراہم کردیا –
اس سارے دور میں پاکستان کا لبرل میڈیا اور لبرل سوسائٹی کا بھاری سیکشن پی پی پی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کی کردار کُشی کرتا رہا اور وہ بے نظیر بھٹو کی جانب سے عالمی سطح پر مشرف رجیم کو تنہا کرنے کی کوششوں اور مشرف کو دباؤ میں لانے کی کاوشوں کو چُھپا کر بے نظیر بھٹو کو مشرف سے ڈیل کی کوشش کرنے والی لیڈر بناکر پیش کرتا رہا –
نواز شریف ان دنوں سعودی عرب کی حمایت کے ساتھ اے آر ڈی کو غیر موثر بنانے کی کوششوں میں ایک ایسے وقت میں مصروف ہوا جب بے نظیر بھٹو امریکہ اور یورپ کی حکومتوں اور جمہوریت پسند لابیوں کی مدد سے جنرل مشرف کو دباؤ میں لانے میں کامیاب ہوچکی تھیں – بے نظیر بھٹو کی کوشش تھی کہ جنرل مشرف دوبارہ صدر منتخب نہ ہوں اور وہ چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے سے الگ ہوجائیں –
میاں محمد نواز شریف اُن دنوں پاکستان کے مین سٹریم میڈیا، اشراف سول سوسائٹی جس کی قیادت عاصمہ جہانگیر کے پاس تھی میں بے پناہ فنڈنگ کررہے تھے جس کے پاس یہ ٹاسک تھا کہ وہ بے نظیر بھٹو کی بحالی جمہوریت کی کوششوں کو جنرل مشرف سے ڈیل اور سمجھوتے کے تاثر میں تبدیل کریں جو اس نے شروع بھی کردیا تھا –
فوج کے طاقتور جرنیلوں میں مشرف کی لابی کے خلاف آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل کیانی کی قیادت میں ایک محاذ تشکیل پارہا تھا جو یہ بات بھانپ چُکا تھا کہ مشرف عالمی برادری کے دباؤ کے سامنے زیادہ دیر ٹھہر نہیں پائے گا- امریکی دباؤ کو کم کرنے کے لیے جنرل مشرف فوج کی طالبان اور القاعدہ کی مرکزی قیادت کو بچانے کی پالیسی سے بھی قدم پیچھے ہٹاکر امریکہ کو یہ تاثر دینے کی کوشش کررہا تھا کہ وہ امریکہ کی مشکلات کو کم کرسکتا تھا، اُس کی اس کوشش نے فوج میں طالبان اور القاعدہ کے سرپرست دھڑے کو کیانی کے ساتھ اور متحد کردیا – نواز شریف کے اپنے طالبان اور القاعدہ کی قیادت کے ساتھ اچھے روابط تھے اور اُسے فوج کے طالبان اور القاعدہ کے سرپرست دھڑے سے کوئی مسئلہ بھی نہیں تھا – اُسے جرنیلوں کے قدیر خان کی آڑ میں نیوکلئر سے جڑے خفیہ بزنس سے بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا – یوں کیانی اور اس کے حامی جرنیلوں سے نواز شریف کو یک گونہ اشتراک کی بنیاد مل گئی تھی – اور اسی لیے نواز شریف نے مشرف کے خلاف کیانی کی حمایت سے کھڑے ہونے والے افتخار چودھری اینڈ کمپنی کو فنڈنگ کی اور ججز کی بحالی کی تحریک کو نام نہاد عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں بدلنے کی راہ ہموار کی –
نواز شریف نے لندن میں آل پارٹیز کانفرنس کو فنڈ کیا اور یوں اے آر ڈی کی جگہ اے پی ڈی ایم کی تشکیل ہوئی جسے مشرف نے بے نظیر بھٹو کے دباؤ سے نکلنے کی خوش فہمی میں اپنے لیے بہتر سمجھا –
یہ پاکستان پیپلزپارٹی تھی جو میثاق جمہوریت کے مطابق تمام پی سی او ججز کو برطرف کرواکے جمہوریت پسند ججز اور عدالتی اصلاحات کی حامی تھی –
اور پہلے دن سے بحالی ججز تحریک کو شک کی نگاہ سے دیکھا تھا-
بے نظیر بھٹو جنرل مشرف کے خلاف دباؤ بڑھاتی چلی گئیں اور جنرل مشرف عالمی برادری سے ایک سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوگئے – وہ 2007ء میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کے بغیر انتخابات کرانے اور وردی اتارنے کی یقین دہانی پر مجبور ہوگئے – مشرف نے وردی اتار دی – انتخابات کی تاریخ دے ڈالی – اے پی ڈی ایم میں شامل اکثر جماعتوں کو یہ پتا تھا کہ اسٹبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر وہ چند نشستوں پر بھی مشکل سے کامیاب ہوں گے – ق لیگ کو بھی یہی خدشہ تھا اور نواز شریف کو اقتدار میں واپسی مشکل لگ رہی تھی – یوں اے پی ڈی ایم نے انتخابات کے بائیکاٹ کی راہ اپنائی – بے نظیر بھٹو نے نواز شریف کو بائیکاٹ کا فیصلہ لینے پر راضی کرلیا – صاف نظر آرہا تھا کہ پی پی پی آئندہ انتخابات میں 2008ء سے بھی زیادہ نشتیں لے گی اگرچہ لبرل اور رائٹ ونگ میڈیا بے نظیر بھٹو کی مشرف رجیم کے خلاف جمہوری جدوجہد پر پردہ ڈال رہی تھی اور ڈیل کا پروپیگنڈا کررہی تھی – یہ پروپیگنڈا نواز لیگ ، ق لیگ اور ایم ایم اے کے میڈیا ونگز پوری طاقت سے کررہے تھے – لیکن مشرف رجیم کی آمریت کے دن گنے جاچکے تھے – مشرف ہر قیمت میں بی بی شہید کو دباؤ میں لاکر ایوان صدر میں بیٹھا ہوا اپنی صدارت بچانے کے چکر میں تھا-
ایسے میں پہلے سانحہ کارساز ہوا اور پھر بے نظیر بھٹو کا قتل ہوا – یہ سب اقدامات بے نظیر بھٹو کو ڈرانے اور آزادانہ سیاسی کام سے روکنے کی کوشش تھے جس میں وہ کامیاب نہ ہوسکے –
جب بی بی شہید ہوگئیں تو پاکستان کا پریس اور سول سوسائٹی بشمول لبرل اور رائٹ ونگ دونوں نے وقتی طور پر ڈیل اور سمجھوتے کے پروپیگنڈے کو موخر کردیا – اب انھوں نے بی بی کی شہادت کو پی پی پی کے خلاف استعمال کرنا شروع کردیا اب ولن شہید بی بی کی جگہ آصف علی زرداری تھے "

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author