نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مادرِ جمہوریت بیگم نصرت بھٹو||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ضیاءالحق اور اس کے ساتھی جرنیلوں کا یقین تھا کہ زوالفقار علی بھٹو کو ختم کیے بغیر اُن کی حکومت چل نہیں سکے گی –
بھٹو کے سیاسی مخالفین کی سوچ بھی یہی تھی کہ بھٹو کو جب تک جسمانی طور پر ختم نہیں کیا جاتا اُس وقت تک اُن کی سیاست کے ستارے کی گردش ختم نہیں ہوگی- انھوں نے ضیاء الحق اور اس کے ساتھی جرنیلوں کو یہ بھی باور کرایا کہ اگر بھٹو زندہ رہا تو اُسے اقتدار میں آنے سے کوئی روک نہیں پائے گا اور پھر ان سب کو سزائے موت سے کوئی نہیں بچاسکے گا –
آمر جرنیل شاہی اور جمہوریت سے خوفزدہ سیاسی یتیم ایک اور نکتے پر متفق تھے کہ اگر بھٹو نہ رہا تو پی پی پی کی سیاست کا باب یا تو ختم ہوجائے گا یا پھر وہ ایک سمندر سے بے ضرر ندی میں بدل جائے گی –
اس لیے ضیاء الحق اور اس کی ساتھی جرنیلوں نے سارا زور بھٹو کے عدالتی قتل پر لگایا –
جب ضیاء الحق آمریت سارا زور بھٹو کو عدالت کے زریعے قتل کرانے پر لگارہی تھی تو اُس دوران بھٹو اپنی پارٹی کی قیادت کسی ایسے شخص کو سونپنا چاہتے تھے جو پارٹی کو بچا بھی سکے اور آمریت کے خلاف تحریک کو پروان بھی چڑھائے –
بھٹو کو اپنی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں ایسا شخص شیخ محمد رشید ہی نظر آیا – انھوں نے اُسے پارٹی کا قائم مقام چیئرمین بننے کو کہا تو اُس نے بھٹو کو تاریخ ساز مشورہ دیا – “ ہماری پارٹی میں سیاسی گدھ پارٹی کے حصے بخرے کرنے کا جواب دیکھ رہے ہیں اور پارٹی کو تقسیم ہونے سے اگر بچانا ہے تو نصرت بھٹو کو قائم مقام چیئرپرسن بنائیں "-
بھٹو نے شیخ محمد رشیدکی بات مان لی اور یوں بیگم نصرت بھٹو پارٹی کی قائم مقام چئیرپرسن بنیں –
بھٹو کی پھانسی کے بعد یہ بیگم نصرت بھٹو تھیں جنھوں نے ضیاء الحق اور اس کی باقیات کے تیقن پر ضرب لگائی اور پارٹی کا شیرازہ بکھیرنے سے بچالیا – پارٹی ساگر سے مہاساگر بننے کے سفر پر رواں دواں ہوگئی –
پاکستان کے معروف صحافی زاہد حسین کی حال ہی میں شایع ہونے والی کتاب ” بے بی سے بے نظیر بھٹو تک” کرانیکل اعتبار سے اُن کی کھینچی گئی تاریخی تصاویر اور اُن کے کیپشن ہمیں ایک اور بڑی حقیقت سے دوچار کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ بیگم نصرت بھٹو نے نہ صرف پی پی پی کو بچایا بلکہ انھوں نے بھٹو کے سیاسی نظریہ و عمل سے نوجوان بے نظیر بھٹو کو بھی لیس کیا اور اس طرح بھٹو کی جانشین کو بھی تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی –
ضیاء الحق اور اُن کے ساتھی جرنیلوں نے مابعد بھٹو پی پی پی کے سیاسی ڈسکورس کیا ہوگا کے سارے اندازے زوالفقار علی بھٹو کی اولاد نرینہ کے بارے میں انٹیلی جنس رپورٹوں سے مرتب کیے تھے- اُن کے خیال میں بھٹو کی اہلیہ اور بیٹی کا کوئی مرکزی کردار مابعد بھٹو سیاسی منظرنامے میں بنتا نظر نہیں آتا تھا- وہ زوالفقار علی بھٹو کی طرف سے بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی قیادت سونپے جانے کو اُن کا سیاسی بلنڈر خیال کررہے تھے اور انھیں یقین تھا کہ اس فیصلے کو پی پی پی کی سنٹرل کمیٹی کے قدآور قبول نہیں کریں گے اور چند بڑے قد کے مرد لیڈروں کی بغاوت/غداری پارٹی کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دے گی –
وہ سمجھتے تھے کہ بھٹو کی پھانسی اور بے پناہ ریاستی جبر پی پی پی کو مسلح تشدد کی طرف دھکیلے گا اور وہ سیاسی جماعت کی بجائے ایک گوریلا پارٹی میں بدل جائے گی اور یوں یہ باب ختم ہوجائے گا –
جنرل ضیاء الحق اور اس کے ساتھیوں کی دلی خواہش تھی کہ بھٹو کی پھانسی اور بدترین جبر مل کر پی پی پی کو سندھی قوم پرستانہ علیحدگی پسند سیاسی ڈسکورس اپنانے پر مجبور کرے گی اور اس طرح سے اُسے پنجاب، کے پی کے سے کاٹ کر رکھ دیا جائے گا-
بیگم نصرت بھٹو نے ضیاء الحق آمریت کے ان سب اندازوں کو غلط ثابت کردیا –
بیگم نصرت بھٹو نے پارٹی کی سندھ شاخ کے اندر چند افراد کی طرف سے "بھٹو کے عدالتی قتل” کو محض ایک سندھی رہنما کا قتل قرار دینے سے انکار کردیا – انھوں نے پارٹی کے مستقبل کے سیاسی ڈسکورس کو ایک بیان دے کر ہمیشہ کے لیے طے کردیا:
"بھٹو نے جان وفاق پاکستان کو قائم رکھنے کے لیے دی ناکہ اُسے توڑنے کے لیے”
انھوں نے بھٹو کے قتل کے بعد پارٹی کے اندر یہ پیغام واضح طور پر پہنچایا کہ پی پی پی کی سیاسی جدوجہد کا مرکز ملک میں مارشل لاء کا خاتمہ، جمہوریت کی بحالی اور 1973ء کے آئین کی مکمل بحالی ہی ہے – اور اس کے لیے پارٹی عدم تشدد پر مبنی سیاسی جدوجہد کا راستا اختیار کرے گی-
بہگم نصرت بھٹو نے آمر حکومت کی پوری کوشش کے باوجود پنجاب میں سیاسی جدوجہد جاری رکھنے کے ہر ایک موقعہ کو استعمال کیا – وہ لاہور، فیصل آباد اور ملتان میں تمام تر پابندیوں کے باوجود آئیں –
بیگم نصرت بھٹو کا وفاقی جمہوری سیاسی ڈسکورس ضیاء الحق کے لیے کسی ڈروانے خواب سے کم نہیں تھا – وہ عوام میں بھٹو خاندان کی عورتوں کی موجودگی سے کس قدر خوفزدہ تھا اس کا اندازہ قذافی اسٹیڈیم میں بیگم نصرت بھٹو پر ہونے والے پولیس لاٹھی چارج اور بہیمانہ تشدد سے لگایا جاسکتا ہے –
ضیاء الحق جو زوالفقار علی بھٹو کو ملک دشمن، غدار، ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والا بناکر پیش کرنے کے لیے سارا زور صرف کررہا تھا اور چاہتا تھا کہ پی پی پی اُس کے اندازوں کے مطابق علیحدگی پسند گوریلا پارٹی میں بدلے اور سندھ کی علیحدگی کا نعرہ لگائے یہ دیکھ کر سخت مایوس ہوا کہ پارٹی تو اپنا وفاق پرست آئینی جمہوری سیاسی تشخص سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھی –
اُس کی مایوسی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُس نے ایک طرف تو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ریاستی اسٹبلشمنٹ کی جانب سے غدار ٹھہرائے گئے اینٹی وفاق پرست مہا قوم پرست لیڈروں سے امداد طلب کرنا شروع کردی –
ان میں سرفہرست خان ولی خان تھے – ضیاء الحق کی منافقت بھری چال کا دوسرا شکار جی ایم سید تھے – اُس نے کالعدم نیپ کی حیدرآباد جیل میں بغاوت کے مقدمے کا سامنا کررہی بلوچ، پشتون قوم پرست بڑے قد کاٹھ کے سیاست دانوں پر اپنا جال پھینکا – اور بلوچستان میں فوجی آپریشن سمیت ہر بڑے منفی اقدام کا ملبہ بھٹو اور پی پی پی پر گرادیا – اور اس میں فوجی اور عدالتی اسٹبلشمنٹ کا جو کردار تھا اُسے ویسے ہی اس ساری کہانی سے منہا کردیا جیسے مشرقی بنگال کی علیحدگی میں اس کا کردار منہا کردیا گیا تھا –
اب اینٹی بھٹو بیانیہ میں ملک کی تقسیم سے لیکر بلوچ قوم کی نسل کُشی، پشتونوں پر مظالم، سندھی قوم کی محکومیت اور اردو اسپیکنگ مہاجر نسلی گروہ سے ہونے والی تمام تر منفی کاروائیوں پر مبنی فلم کا ایک ہی ولن تھا اور وہ تھا "ذوالفقار علی بھٹو” –
اس بیانیہ کے پروموٹر ولی خان، جی ایم سید بنے اور انھوں نے زوالفقار علی بھٹو کو اپنے قوم پرستانہ مہا بیانیوں میں "پنجابی سامراج”، "پنجابی فوج”، کا دلال قرار دے ڈالا –
جبکہ اردو اسپیکنگ مہاجر اربن چیٹرنگ کلاس کے نزدیک "بھٹو” سندھی قوم پرست شاؤنسٹ ٹھہرا-
پنجاب میں اُس نے بھٹو کو ملک توڑنے کا واحد سازشی کردار، اندرا گاندھی کا ایجنٹ، اسلام دشمن، ملکی سالمیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا –
جنرل ضیاء الحق نے لیفٹ اور لبرل اشرافیہ کے ایک بڑے پنجابی اور اردو اسپیکنگ سیکشن کو بھی ایک بیانیہ دیا- اور وہ بیانیہ یہ تھا کہ بھٹو نے ملک میں ترقی پسند تحریک کے تمام حاصلات کو ضایع کیا اور ملک میں اسلامی بنیاد پرستی اور ریاست کو تھیاکریٹک بنانے میں اُس کا مرکزی کردار تھا- اب تو تمام لبرل اشراف یک زبان ہوکر یہ مقدمہ قائم کرتے ہیں کہ بھٹو اسلامی بنیاد پرستی، افغان جہاد دونوں کا بانی تھا – جبکہ بے نظیر بھٹو کو وہ ملک میں طالبنائزیشن کی بانی قرار دیتا نہیں تھکتا – (یہ وہ لبرل-لیفٹ سیکشن ہے جو بعد ازاں ملک میں شیعہ نسل کُشی کا ملبہ نوے کی دہائی میں بے نظیر بھٹو پر اور نائن الیون کے بعد 2008ء سے 2013ء کے درمیان شیعہ نسل کُشی کا ملبہ آصف علی زرداری پر گرادیا)-
بیگم نصرت بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کے بھٹو پر اس شش جہات حملوں کے خلاف جو لڑائی لڑی اُس میں اُن کے پاس نظریہ اور عمل کے میدان میں جتنا کچھ نظری اور عملی سرمایہ تھا وہ بھٹو کا ہی دیا ہوا تھا – اُن کے مخالفین کے ساتھ مل کر ضیاء الحق نے "ولن بھٹو” پیش کیا تو بیگم نصرت بھٹو نے سارا زور ” قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو” پیش کرنے پر لگایا –
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس زمانے میں میر غوث بخش بزنجو اور شیر باز مزاری جیسے بڑے قد کاٹھ کے سیاست دان بھی تھے جنھوں نے ولی خان اور جی ایم سید کی طرح اپنی سیاسی بصیرت کو سیاسی میدان میں ہونے والی ناکامیوں اور بھٹو دور میں تعذیب /پرسیکوشن سے پیدا ہونے والی تلخی کو انتقام کی اندھی آگ میں بھسم نہ ہونے دیا اور بیگم نصرت بھٹو نے بھی پیپلزپارٹی کی سیاست کو اصل "ولن” ضیاء الحق پر سے توجہ ہٹاکر بھٹو مخالف جمہوری گروہوں کی طرف مڑنے نہ دیا اور ایم آر ڈی جیسے بڑے جمہوری اتحاد کو بھٹو کی پھانسی کے محض دو سال گزرنے کے بعد ہی ممکن کر دکھایا – بیگم نصرت بھٹو واقعی مادرِ جمہوریت ثابت ہوئیں اور اُن کا یہ کارنامہ ہی اتنا بڑا ہے کہ وہ اور کچھ نہ کرتیں تب بھی جمہوری تاریخ میں وہ ہمیشہ زندہ کردار بن کر جیتی رہتیں –

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author