مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سی ایس ایس۔ دوہرے معیار کیوں؟۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سی ایس ایس پر بات کرنے سے پہلے بتانا چاہتا ہوں کہ اے پی این ایس کے الیکشن کے سلسلے میں کراچی میں ہوں، ملک کے دیگر حصوں کی طرح کراچی میں بھی ملک کی بحرانی سیاسی صورتحال پر تشویش پائی جاتی ہے، حقیقت یہی ہے کہ ہنگاموں سے قوم پریشان ہے، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈائیلاگ اور شفاف الیکشن اس کا واحد حل نظر آتے ہیں۔ زمان پارک آپریشن سے عمران خان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا ہے، عالمی میڈیا نے بھی عمران خان کی رہائش گاہ پر پولیس کی کارروائی کو بھر پور کوریج دی ہے، پی ٹی آئی کے کارکنوںنے زمان پارک آپریشن کے خلاف مظاہرہ کیا اور ہم بھی ملینم مال کراچی کے مقام پر ٹریفک میں پھنسے رہے۔ غربت ، بیروزگاری اور مہنگائی کے باعث کراچی میں سٹریٹ کرائم بڑھ گئے ہیں اور دن دیہاڑے موبائل اور پرس چھیننے کی وارداتیں ہو رہی ہیں، غربت ، بیروزگاری کا خاتمہ کرنے کی بجائے حکومت آئے روز پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے موٹر سائیکل رکشہ اور چھوٹی گاڑیوں کیلئے پٹرول پر 50 روپے فی لیٹر تک سبسڈی کا جو اعلان کیا ہے اس سے اعشاریہ ایک فیصد تک بھی لوگ استفادہ نہیں کر سکیں گے اور اربوں روپے قومی خزانے سے چلے جائیں گے ، یہی حشر مفت آٹا سکیم کا ہے۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی قومی پالیسی وضع کی جائے جس سے حقیقی معنوں میں غربت کا خاتمہ ہو،یہ مقصد عدل و انصاف کے بغیر ممکن نہیں۔ ہم نے سی ایس ایس سے بات شروع کی تھی ، وزیر اعظم شہباز شریف نے سی ایس ایس کے امتحان میں عمر کی بالائی حد 35 سال اور چوتھے چانس کی بھی اجازت دیدی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ سندھ (دیہی شہر)، بلوچستان (دیہی) اور سابقہ قبائلی اضلاع کے کوٹے برابر رکھے گئے ہیں جبکہ سرائیکی وسیب کے زون ٹو کو بحال نہیں کیا گیا ، اسی کا نام بے انصافی ہے، ایک ہی ملک ، ایک ہی آئین اور ایک ہی وفاق ہوتے ہوئے جو حق سندھ دیہی اور بلوچستان کو حاصل ہے وہ حق پنجاب میں سرائیکی وسیب کو زون سیکنڈ کی صورت میں حاصل تھا وہ کیوں ختم کیا گیا؟۔ وسیب سے سوتیلی ماں والا امتیازی سلوک کیوں۔ سی ایس ایس کے امتحانی سسٹم کا مطالعہ کریں تویہ زیادتیوں کا لا متناہی سلسلہ اور تہہ در تہہ ظلم کی داستان ہے ‘پہلی زیادتی یہ ہے کہ حکمرانوں نے سرائیکی وسیب کو تعلیمی سہولتوں سے محروم رکھا ہے ۔تعلیمی سہولتیں برابر مہیا نہ ہوں تو مقابلہ در اصل کار اور جہاز سوار کا ہو جاتا ہے۔ روجھان،راجن پور ،بھکر ،بہاولنگر یا وہاڑی وغیرہ کے طالبعلم کا مقابلہ ایچی سن کالج کے طالبعلم سے کرانے کے نتیجہ میں اسی فیصد امیدوار تو مقابلے کی دوڑ سے پہلے ہی باہر ہوجاتے ہیں۔ دکھاوے کے طور پر چند ایک کو آنے دیا جاتا ہے۔ سی ایس ایس کے امتحان میں 100 نمبروں کا ایک آپشنل پیپر پاکستانی زبانوں جس میں سندھی ،پنجابی ،پشتون اور بلوچی وغیرہ میں شامل ہیں، مگر سرائیکی اس میں شامل نہیں حالانکہ سرائیکی زبان یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھائی جا رہی ہے ،جس امیدوار نے گورنمنٹ کے اپنے اداروں سے اپنی گریجویشن اور ماسٹر سرائیکی میں کی ہے وہ سندھی بلوچی یا پشتو میں پیپر دیکر کس طرح نمبر لے سکتا ہے ؟سی ایس ایس کے امتحان میں عظیم سرائیکی زبان کو محروم رکھنا غلط ہے کہ سرائیکی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی جا رہی ہے اور اس میں ایم فل اور پی ایچ ڈی ہو رہی ہے۔اعلیٰ تعلیمی امتحانات میں سی ایس ایس کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ کہنے کو تو چپڑاسی سے چیف سیکرٹری تک ہر سرکاری ملازم ’’نوکر ‘‘ہے مگر سی ایس ایس خصوصاً ڈی ایم جی اور پولیس افسران کیلئے یہ بات صرف کہنے کی حد تک ہے ،ان افسران کو انگلش سسٹم کے تحت ٹریننگ بھی ’’نوکر ‘‘ والی نہیں بلکہ ’’آقا ‘‘ والی دی جاتی ہے۔ایک سی ایس ایس افسر وزیرسے زیادہ اہم اس لیے ہوتا ہے کہ وزارتیں آتی جاتی رہتی ہیں مگر افسر جہاں بھی بیٹھاہو حاکم ہی ہے ۔تقسیم سے پہلے انگریز نے حق حکمرانی اپنے وفاداروں کو دیا جس کے نتیجے میں ان پڑھ سردار وڈیرے اور تمندار مجسٹریٹ،جج اور پولیٹیکل ایجنٹ مقرر ہوئے ۔ مزید یہ کہ انگریز اسٹیبلشمنٹ اور فوج میں بڑی تعداد صوبہ پنجاب اور یو پی، سی پی سے شامل ہوئی ، یہ تینوں طبقے یعنی جاگیردار، ملٹری و سول بیورو کریٹ آخر وقت تک انگریز کے وفادار رہے اور 13اگست 1947ء کے دن کی تنخواہ بھی انگریز سرکار سے وصول کی۔ آزادی کیلئے جدوجہد کرنے اور قربانیاں دینے والے آزادی کے بعد بھی پیچھے رہ گئے ، منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے کے مصداق حکمران طبقہ آج بھی قربانیاں دینے والے غریبوں کی اولادوں کو آگے نہیں آنے دے رہا۔، سینکڑوں طلبہ کو فیل کر دیا جاتا ہے، پبلک سروس کمیشن کے پاس پوزیشنیں تبدیل کرنے کا سب سے بڑا قانونی ہتھیار 300 نمبروں کا انٹرویو ہے جو کہ چیئر مین اور ممبران کے طے کردہ باہمی فارمولے کے تحت صوابدیدی اختیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ حق تلفی کا شکار ہونے والوں میں یہاں کے پنجابی ،مہاجر سب شامل ہیں۔ وسیب کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کا مطالبہ ہے کہ جب تک صوبہ نہیں بن جاتا ، سی ایس ایس کا کوٹہ الگ کیا جائے کہ اس کی پہلے سے مثال موجود ہے۔ سندھ چھوٹا صوبہ ہے ، اس کے دو زون ہیں اور پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے یہاں ایک لولہا لنگڑا زون تھا وہ بھی ختم کر دیا گیا، یہ ظلم اور ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے؟۔ یہ اقدام امتیازی ہونے کے ساتھ ساتھ غیر انسانی بھی ہے کہ وسیب کے نوجوانوں کا فیوچر ختم ہو رہا ہے اور وہ نفسیاتی مریض بن رہے ہیں ۔ سی ایس ایس کا کوٹہ سرائیکی وسیب کو آبادی کے مطابق ملنا چاہئے ۔ بیورو کریسی میں سرائیکی وسیب کا حصہ آٹے میں نمک کے برابر ہے، اس سے تو بہتر ہے کہ آئین کے مطابق پورا ملک اوپن میرٹ کر دیا جائے۔

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: