رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کسی ہرزہ سرائی سے کم نہیں کہ سیاست میں سب چلتا ہے۔ اچھی ریاست‘ اچھا معاشرہ‘ ہم آہنگی‘ انصاف اور قانون کی عملداری اچھی سیاست کے ہی ثمرات ہیں۔ دورِ جدید میں آئین جس طرزِ حکومت اور اس پر پابندیوں اور اختیارات کی حدود کا تعین کرتا ہے‘ وہ قانون کی حکمرانی کے ساتھ بنیادی انسانی حقوق کی سیاست کی روح سمجھے جاتے ہیں۔ ہم صرف ان کی بات کررہے ہیں جو سیاست کو اس کی اخلاقی صفات کے حوالے سے جانتے ہیں۔ سیاست ہو یا زندگی کا کوئی میدان‘ جو جی میں آئے کر گزریں۔ ذاتی خواہشات کی تکمیل تو ہو سکتی ہے‘ کسی نظریے یا نظریات سے وابستگی نہیں۔ آپ سیاست میں آئینی‘ قانونی اور اخلاقی پہلوئوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حصہ لیں‘ ان کا پرچار کریں اور انہیں اپنے کردار میں جگہ دیں تو جمہوری اور روادار معاشرہ پیدا ہوگا۔ اس کے برعکس‘ جو اکثر ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے مہربان اور ان کے گماشتے کرتے رہے‘ وہ صرف سماجی بگاڑ ہی پیدا کریں گے‘ جن کے اثرات ہم گزشتہ چالیس برس سے دیکھتے آئے ہیں۔ حکمران طبقات نے ہمیشہ اپنے محدود مفادات کی خاطر ملک اور قوم کے وسیع تر مقاصد کو قربان کیا۔ آج بھی وہی کچھ ہمارے سامنے ہے۔ تیرہ جماعتیں مل کر کون سی جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو مضبوط کررہی ہیں؟ عمران خان کو سیاسی میدان سے نکالنے کے لیے ایک بڑی ڈیل کی گئی۔ مخالف سیاست دانوں کو احتساب سے بچ نکلنے کا راستہ دیا گیا۔ ہفتوں میں قوانین تبدیل کرکے سب کے خلاف مقدمات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ اقتدار ان کے سپرد ہے۔ بے شک دنیا کی سب سے بڑی کابینہ بنا کر‘ سب کو اجازت ہے کہ لوٹ مار کا بازار پھر سے گرم کریں۔ پشت پناہی کرنے والوں کا جو ماضی میں کردار رہا ہے‘ وہ اسی طرح برقرار رہے گا۔ اس کی بابت خاموشی کا تقاضا ہے۔ تمام امور میں وہ آپ کو بتائیں گے کہ کیا کرنا ہے۔ اب یہ ایک مشترکہ منصوبہ بن چکا ہے کہ کپتان جو ابھر کر سامنے کھڑا ہو گیا ہے اور اس نے عوام کو متحرک کر رکھا ہے اور چونکہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہی ہیں‘ اس لیے اسے ایسا سبق سکھانا ہے کہ کوئی اور کبھی یہ جرأت نہ کر سکے۔ اور یہ جو آزادی کا نعرہ سڑکوں‘ گلی محلوں اور دور دراز کے قریوں میں گونج رہا ہے‘ یہ اشارہ کس کی طرف ہے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان آزادی پسندوں کے ساتھ وہ سلوک کرے کہ وہ صرف حکومتی کاموں پر خوشی سے نعرے لگائیں۔ ذہن نشین کر لیں کہ تیرہ جماعتی اتحاد کو مکمل اعتماد حاصل ہے۔ ان کے بارے میں تاثر قائم ہے کہ یہ گستاخوں کے ساتھ نمٹنے کا فقید المثال تجربہ رکھتی ہیں۔ ایسے ہی ان جماعتوں کا انتخاب نہیں ہوا۔ شفقت کے گہرے سایے ان کی حفاظت کر رہے ہیں۔ موجودہ بارگین تاریخ کی ساتویں یا آٹھویں سودے بازی ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ جہاں سیاسی نہیں‘ صرف اور صرف پیشہ ورانہ سوچ کی ضرورت تھی‘ وہاں سیاسی سوچ غالب رہی اور جہاں صرف سیاسی سوچ لازم تھی‘ وہاں فدائی سوچ پیدا ہوئی۔ اس لیے پاکستان کے نظام سیاست میں طاقت کا مرکز پارلیمان‘ انتخابات اور عوامی نمائندگی نہ رہے۔ وہ کسی اور کے حلقۂ اختیار میں آگئے۔ سوچیں‘ پاکستان کے کتنے سیاسی گھرانے تھے جنہوں نے اسکندر مرزا اور ایوب خان کے نمائشی گھوڑے بننے سے انکار کیا تھا؟ یحییٰ خان نے اکثریتی جماعت کو اقتدار منتقل کرنے سے انکار کیا تھا تو کون ان کا ساتھ دے رہا تھا اور مشرقی پاکستان میں آپریشن کے سیاسی ذمہ دار بھی کوئی تھے یا نہیں۔ آگے چلیں‘ ذوالفقار علی بھٹو نے انتخابات میں تاریخی دھاندلی کی تھی۔ ہم اس کے چشم دید گواہ ہیں۔ نوجماعتیں ان کے خلاف تحریک چلا رہی تھیں اور مطالبہ یہ تھا کہ نئے انتخابات کرائے جائیں۔ اس شرط کے ساتھ کہ اس دوران بھٹو صاحب وزیراعظم نہ ہوں گے۔ اس پر دو آرا ہیں۔ ایک یہ کہ معاملات طے ہو چکے تھے اور دوسری یہ کہ جمود کا شکار ہو چکے تھے۔ کئی شہروں میں خود بھٹو صاحب نے ایمرجنسی لگا رکھی تھی۔ سینکڑوں سیاسی کارکن جمہوریت کی آرزو میں مارے گئے تھے۔ ضیا الحق صاحب نے نوے دن میں انتخابات کے وعدے پہ اقتدار سنبھالا۔ وہ نوے دن کا سفر تیرہ سال میں اس وقت طے ہوا جب وہ ایک حادثے میں چل بسے۔ یہاں بھی سیاسی سوچ کے حوالے سے وہی سوال ہے۔ وہ کون سے سیاسی لوگ تھے جنہوں نے ان کی حکومت کو سہارا دیا تھا۔ سوائے بھٹو خاندان اور ان کے کچھ جانثاروں کے‘ سب ضیا الحق صاحب کے کل پرزے تھے۔ انہوں نے سندھ اور پنجاب میں ان کے مقابلے میں لسانی اور نئے سیاسی گھرانے تشکیل دیے۔ ان کے ذمے کام وہی تھا جس کے لیے آج تیرہ جماعتیں تحریک انصاف کے سیاسی مستقبل کو ختم کرنے لیے میدان میں اتری ہیں۔
ضیا الحق صاحب کے دور کا جب خاتمہ ہوا تو امید کا نیا سویرا طلوع ہوا کہ جمہوریت کا پودا پھر سے ہرا بھرا ہوگا۔ جمہوریت کا پودا تو ہرا نہ ہو سکا لیکن وہ جو اقتدار میں آئے‘ وہ ایسے ہرے بھرے ہوئے کہ ایمازون کا جنگل بھی رشک کرتا ہے مگر یہ زر و دولت کے مصنوعی جنگلات جو سیاسی ماہرین نے ہمارے ملک میں لگائے ہیں‘ انہیں مسلسل اقتدار کے پانیوں کی فراوانی درکار ہے۔ اس کے بغیر تو قانون اور آئین ان کی جڑیں کاٹ کر خشک کردے گا۔ اس لیے تو جہاں کچھ نمی کے اثرات نظر آتے ہیں‘ یہ تازگی حاصل کرنے اس طرف کا رخ کرتے ہیں۔ شجر پیوستگی کی فیوض و برکات ہر زمانے میں جب نمائشی نمونوں کی صورت اختتام پذیر ہو چکیں تو نئے سیاسی دھڑے وجود میں آنا شروع ہوگئے۔ سب کی نظریں مہربانوں کی طرف تھیں۔ پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کو صرف اس لیے چلتا کیا کہ اُنہوں نے انہیں عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ میرے نزدیک میاں نواز شریف کا فیصلہ درست تھا۔ ان کے پاس پارلیمان میں دو تہائی اکثریت تھی۔ ملک کے اس وقت مقبول ترین لیڈر تھے جو ان کے ساتھ سلوک ہوا‘ وہ بھی پاکستان کی تاریخ کا ایک بدنما داغ ہے۔ پرویز مشرف کے خلاف بہت کم لوگوں نے مزاحمت کی۔ مزاحمت کرنے والوں میں محترمہ کلثوم نواز کا نام سرفہرست ہوگا۔ ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت اور کچھ نام نہاد سوشل لبرل مین ہرگز نظریاتی نہیں تھے۔ سیاسی میدانوں سے لے کر ذرائع ابلاغ تک سبھی پرویز مشرف کے ساتھ تھے۔ ان کوکمزور صرف عدلیہ کی بحالی کی تحریک نے کیا۔ سماجی تنظیموں اور وکلا کی انجمنوں نے پرویز مشرف کے قدم اکھاڑ دیے۔ جب پرویز مشرف صاحب نے ماورائے آئین اقدام کیا تو اس کے اگلے روز ہماری جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ نے پہلا جلوس نکالا تھا اور پھر یہ سلسلہ جاری رہا جب تک عدلیہ بحال نہ ہوگئی۔ ہم سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخر وہ سیاسی سوچ اس دھرتی میں کیوں پیدا نہ ہوئی کہ ریاستوں کا انتظام دورِ حاضر میں آئین اور جمہوریت کے سوا کسی اور طرز پر ممکن نہیں اور یہ کہ طاقت کے مرکز عوام میں نہ ہوں تو پھر انتظام بے بنیاد‘ کھوکھلا اور جابرانہ ہوگا‘ جو اس وقت ہے۔
پاکستان کے سیاسی بحرانوں کی ایک وجہ سب کو معلوم ہے مگر ہر بار ہمارے سیاسی گھرانے اپنی کمزوریوں کی وجہ سے اسی گڑھے میں گرتے ہیں۔ ہم تو ہمیشہ سے انہیں وہاں سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ ہمیں یہیں رہنے دیں‘ ہم خوش ہیں۔ ہمیں سب کچھ تو مل رہا ہے۔ آپ یہ خیالی باتیں اپنے پاس رکھیں۔ قحط الرجال ہے کہ سیاسی صفوں میں ایسے قائدین نہ ہونے کے برابر ہیں جو اس کا رخ اس کے فطری مرکز کی طرف موڑ سکیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ