آفتاب احمد گورائیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلا سارا ہفتہ ریاست پاکستان پر بہت بھاری گزرا ہے۔ ریاست کو جو شدید قسم کے کچوکے لگائے گئے ہیں ان کی شدت بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے ریاست شدید زخمی حالت میں پڑی کراہ رہی ہے۔ ایک نام نہاد سیاسی جماعت کی جانب سے ریاست کی رٹ کو جس طرح چیلنج کیا گیا ماضی میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ دہشت گرد گروہ تو ریاستی رٹ کو چیلنج کرتے آئے ہیں اور ریاست ان کے خلاف مناسب ایکشن بھی لیتی آئی ہے لیکن ایک جماعت جو سیاسی ہونے کا دعوی بھی کرتی ہے اور جس کا سربراہ ملک کا وزیراعظم بھی رہ چکا ہے، ایسی کسی سیاسی جماعت کی جانب سے ریاستی رٹ کو دہشت گردوں کی طرح چیلنج کرنے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ دو ہزار چودہ کے دھرنے کے دوران بھی اسی جماعت کی جانب سے پی ٹی وی کی عمارت پر قبضہ کیا گیا، پارلیمنٹ ہاؤس کے جنگلے توڑے گئے، پولیس اہلکاروں پر حملہ کرکے انہیں شدید زخمی کیا گیا لیکن اس وقت بھی کسی عدالت کی جانب سے ان شرپسندوں کو نہ کوئی سزا مل سکی نہ ان سرکوبی کی گئی بلکہ اس کے بعد اس جماعت کو پلیٹ میں رکھ کر اقتدار بھی پیش کر دیا گیا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ اس دہشت گرد نما سیاسی جماعت کے حوصلے اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ اس جماعت کے سربراہ سابق وزیراعظم عمران خان نے سیشن کورٹ میں دائر ایک مقدمے میں پیش ہونے سے مکمل انکار کردیا۔ سیشن کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے عدالت میں حاضری کا بار بار موقع دئیے جانے کے باوجود بجائے عدالت میں پیش ہونے کے اپنے اردگرد جتھے جمع کرکے ریاست کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ عدالتی حکم کی تعمیل کے لئے جانے والی پولیس اور رینجرز کے مقابلے کے لئے خیبرپختونخواہ سے لوگ منگوائے گئے۔ علی امین گنڈہ پور اور یاسمین راشد کی آڈیوز بھی پکڑی گئیں جن میں وہ زمان پارک میں بندے پہنچانے کا کہہ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا اور اپنی تقاریر میں عمران خان نے خود بھی لوگوں کو زمان پارک پہنچنے کا حکم دیا غرض بزعم خود مقبول ترین اور بہادر ترین لیڈر کو گرفتاری سے بچانے کے لئے ہیومن شیلڈ بنا دی گئی۔ اس ہیومن شیلڈ میں خواتین بھی شامل تھیں جبکہ طالبان کی موجودگی کی بھی خبریں باہر آتی رہیں جو بعد میں درست ثابت ہوئیں۔ ان تربیت یافتہ دہشت گردوں نے عمران خان کو گرفتاری سے بچانے کے لئے شدید مزاحمت کی۔ اس مزاحمت میں ڈنڈوں، پتھروں، اینٹوں، غلیل اور پٹرول بموں کا آزادانہ استعمال کیا گیا۔ گرفتاری کے لئے جانے والی پولیس کو غیر مسلح رکھا گیا تاکہ ماڈل ٹاون جیسا واقعہ رونما نہ ہو سکے لیکن واٹر کینن اور ڈنڈوں سے مسلح پولیس پر پٹرول بموں سے حملے کئے گئے جس کے نتیجے میں ڈی آئی جی اسلام آباد سمیت ساٹھ سےزیادہ پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
ایک طرف ریاست کی رٹ کو کھلم کھلا چیلنج کیا گیا دوسری طرف عمران خان کے وکلا لاہور ہائیکورٹ جا پہنچے اور پولیس آپریشن روکنے کے لئے پیٹیشن دائر کر دی گئی۔ لاہور ہائیکورٹ نے حیرت انگیز اور تیز رفتار انصاف مہیا کرتے ہوئے پولیس کو زمان پارک آپریشن سے روک دیا جبکہ دوسری طرف جتھہ بندی مسلسل جاری تھی لیکن پولیس کو بہرحال عمران خان کی گرفتاری کے لئے کئے جانے والے آپریشن سے روک دیا گیا۔ پولیس اور رینجرز پر حملوں، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور پولیس اہلکاروں کو زخمی کرنے پر عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف دہشت گردی کے پرچے درج کیے گئے لیکن ایک بار پھر لاہور ہائیکورٹ سے بیک جنبش قلم سارے مقدمات میں عمران خان کو ایک ہی بار میں ضمانت مہیا کرکے تیز ترین انصاف کا ایک اور ریکارڈ قائم کر دیا گیا۔ دوسرے لفظوں میں پولیس اور رینجرز پر عمرانی جتھے کے حملوں کو جائز قرار دے دیا گیا۔ ریاست کو لگنے والے جھٹکوں میں عدلیہ کی جانب سے لگنے والا یہ جھٹکا سب سے شدید تھا جس کے ذریعے ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والے دہشت گرد گروہ کو نہایت آسانی سے ریلیف فراہم کرکے عدالتی چھتری فراہم کر دی گئی۔
ایک طرف تیز رفتار انصاف کا یہ عالم ہے کہ ایک دہشت گرد گروہ جو ہر طرح کی دہشت گردی کرے، ریاست کی رٹ کو پوری طرح چیلنج کرے، عدالت کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دے لیکن عدلیہ کی جانب سے سارا کچھ نظرانداز کرکے ایک لاڈلے کو مسلسل اور حسب منشا ریلیف دیا جائے، اعلی عدلیہ کے جج عدالتوں میں بیٹھ کر اس لاڈلے عمران خان کا انتظار کریں اور یہ انتظار عدالت کا وقت ختم ہونے کے بعد بھی لاڈلے کی اپنی سہولت کے مطابق آمد تک جاری رہے، اس لاڈلے کے سارے کیس چند مخصوص ججوں کے بینچ میں ہی سماعت کے لئے مقرر کئے جائیں۔ لاڈلے کی درخواستیں تمام ضابطوں کو بالائے طاق رکھ کر قبول کی جائیں اور اسی دن کیس سماعت کے لئے مقرر کیا جائے اور سارے کیسوں میں لاڈلے کو ضمانت مل بھی جائے جبکہ دوسری طرف سست ترین انصاف کاعالم یہ ہے کہ سابق وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا کیس بارہ سال سے شنوائی کا منتظر ہے ایک اور سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے کیس کے سارے ملزم بری کر دئیے گئے اور چھ سال سے اپیل نہیں سنی جا رہی، لیکن لاڈلے کے نو کیس لاہورہائیکورٹ میں ایک دن دائر ہوتے ہیں، ان کیسوں کی سماعت اسی دن ہوتی ہے اور اس کو ریلیف بھی مل جاتا ہے۔ فیصلہ بھی وہ آتا ہے جو بچے بچے کو پہلے سے معلوم ہوتا ہے۔ یہی حال اسلام آباد ہائیکورٹ کا ہے جو ایک دن پہلے جس کیس کا فیصلہ دے دیتی ہے اگلے دن اسی کیس کی پھر سماعت ہوتی ہے اور لاڈلے کو حسب منشا ریلیف دے دیا جاتا ہے۔ اس طرح کی کھلم کھلا جانبداری سے کیا پیغام دیا جا رہا ہے۔ کیا ایسا نہیں لگتا کہ یہ سب ایک بڑی گہری پلاننگ کے تحت کیا جا رہا ہے تاکہ ریاست کی کمزوری اور بےبسی کو عیاں کر کے اپنے مذموم مقاصد حاصل کئے جا سکیں۔
حالیہ واقعات کے بعد چھوٹے صوبوں کی محرومی مزید ابھر کر سامنے آئی ہے کہ لاڑکانہ کے وزیراعظم کے لئے قانون اور ہے جبکہ لاہور کے لاڈلے وزیراعظم کے لئے قانون اور ہے، ڈیرہ بگتی کے لئے قانون اور جبکہ زمان پارک کے لئے قانون اور ہے، نائین زیرو سے ایک نعرہ لگے تو نائین زیرو والوں کی جماعت پر پابندی بھی لگ جاتی ہے ان کی آواز بھی بند کر دی جاتی ہے بلکہ نائین زیرو کو جلا کر راکھ کر دیا جاتا ہے جبکہ زمان پارک سے پولیس اور رینجرز پر پٹرول بموں سے حملے کئے جاتے ہیں لیکن ان کو پورے پروٹوکول سےعدالت میں بلا کر ریلیف دے دیا جاتا ہے، علی وزیر ایک تقریر کرتا ہے اور اسے دو سال تک جیل کی کال کوٹھری میں پھینک دیا جاتا ہے کوئی عدالت اس کی ضمانت لینے کو تیار نہیں ہوتی لیکن ریاست کی رٹ کو جوتے کی نوک پر رکھنے والے عمران خان کے لئے جج عدالتوں میں بیٹھ کر انتظار کرتے ہیں کہ کب ظل الہی قدم رنجہ فرمائیں اور ان کو ان کی پسند کے مطابق انصاف مہیا کیا جائے۔
جس طرح ریاست ڈنڈہ بردار گروہ کے سامنے بے بس نظر آئی ہے اس سے یہ اندازہ تو بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں ریاست کی رٹ کو قائم رکھنا کتنا مشکل ہو گا کیونکہ اگر ڈنڈوں کے ذریعے ہی ریاست کا مقابلہ کرنا ہے تو پھر یاد رکھیں فضل الرحمن کے پاس عمران خان سے بڑی ڈنڈہ فورس ہے، لبیک والوں کے پاس عمران خان سے زیادہ بڑے مجاہد ہیں ان کے پاس تو نعرہ بھی بہت بڑا ہے۔ اب بھول جائیں کہ مستقبل میں جب یہ لوگ ریاست کے خلاف نکلیں گے تو آپ انہیں روک سکیں گے۔ ریاست کا زور اب صرف کمزور پر ہی چلے گا۔ ڈنڈے والے اور دہشت گرد اپنا راستہ بھی خود بنائیں گے اور قانون بھی اپنا ہی چلائیں گے کیونکہ کسی کے لاڈ پیار میں یہ روایت قائم کر دی گئی ہے۔ ریاست کو جو دھچکہ عمران خان اور عدلیہ نے مل کر لگایا ہے ریاست کا اس دھچکے سےسنبھلنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
ریاست کو ایک طرف سے اگر عمران خان کے بغاوت نما چیلنج کا سامنا ہے تو دوسری طرف آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے پاکستان کی دفاعی صلاحیت اور میزائلوں کی رینج پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ عمران خان کے دور میں آئی ایم ایف کے ساتھ کئے جانے والے اس معاہدے کی شرائط پورا کرتے کرتے نہ صرف عوام کی حالت پتلی ہو چکی ہے بلکہ ریاست کو بچاتے بچاتےموجودہ حکومت اپنی سیاست بھی داؤ پر لگا چکی ہے لیکن نہ تو آئی ایم ایف ریاست پاکستان کو کوئی سہولت دینے کو تیار ہے اوراندرونی طور پر اگر دیکھیں تو نہ عمران خان ملک کے حالات کو معمول پر آنے دے رہے ہیں تاکہ حکومت ملکی معیشت کو بہتر نہ بنا سکے اور عمران خان اس بدحال ملکی معیشت پر سیاست کر سکیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ معیشت کو اس حال تک پہنچانے میں سب سے بڑا کردار عمران خان کی پونے چار سالہ نااہل اور کرپٹ حکومت کا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ریاست پاکستان پر مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے ڈالا جانے والا یہ اندرونی اور بیرونی دباو کہیں کسی بڑی سازش اور گریٹر گیم کا حصہ تو نہیں کہ پہلے عمران حکومت کے ذریعے ریاست پاکستان کی معیشت کو تباہ و برباد کیا گیا، آئی ایم ایف کے ساتھ سخت ترین اور تقریباً ناقابل عمل شرائط پر مبنی معاہدہ کیا گیا اور اس کے بعد پچھلے سال حکومت سے نکلنے کے بعد سے عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف نے ملک میں ایک فتنہ فساد کا ماحول پیدا کر رکھا ہے جس سے ہر طرح کی کاروباری سرگرمی تعطل کا شکار ہو چکی ہے اور ملکی معیشت سنبھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ ایسے میں آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے میزائل سسٹم پر اٹھائے جانے والے سوالات کہیں کسی بڑی اور گہری سازش کا شاخسانہ تو نہیں ہیں کہ جس کےذریعے پاکستان کی کمزور معیشت کو بنیاد بنا کر ریاست پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو محدود کرنے کے پرانے ایجنڈے کو تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہیں خود ساختہ مقبول ترین لیڈر عمران خان اس سازش میں ایک مہرے کا کردار تو ادا نہیں کر رہے؟ جس طرح عمران خان کو ہر طرح سے قانون ہاتھ میں لینے اور ریاست کی رٹ کو کھلم کھلا چیلنج کرنے کے باوجود قانون کےدائرے میں لانا ریاست کے لئے مشکل ہو چکا ہے اس سے بلاشبہ اس شک کو تقویت ضرور ملتی ہے کہ اس بیرونی سازش کے تانے بانےریاست کے اندر بھی موجود ہیں۔ ذرا سوچیئے۔
۰
Twitter: @GorayaAftab
یہ بھی پڑھیے:
پی ڈی ایم کا ملتان جلسہ ۔۔۔آفتاب احمد گورائیہ
تحریک کا فیصلہ کُن مرحلہ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ
چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ