عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(میں یہ پوسٹ لکھ رہا تھا تب میرے بھائی عامر رضوی نے کسی پی ٹی آئی کے حامیوں کی صدیق جان کی گرفتاری پر ردعمل میں کہی گئی باتوں پر کہنہ مشق لکھاری فہیم رضا جو خود بھی بہت شاندار صحافی رہے ہیں کی ایک طنزیہ مگر بالکل ٹھیک پوسٹ کی طرف توجہ کرائی جس میں انھوں نے جو لکھا اس کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ پی ٹی آئی کے حامی کہہ رہے ہیں صحافی صدیق جان بنی گالہ کی چھت سے پولیس پر آنسو گیس شیل پھینک رہا تھا اور اُن کا یہ کہنا صدیق جان کو ایسے اقدامات کا مرتکب قرار دے رہا ہے جو جرم اور قابل دست اندازی پولیس اقدام بنتا ہے (یاد رہے بعض اوقات ریاست ایسے قوانین بھی بنادیتی ہے جو انسانی حقوق کے منافی ہوتے ہیں اور وہ ظالمانہ و جابرانہ ہوتے ہیں جن کی خلاف ورزی جرم نہیں ہوتی اور ان کے خلاف آواز اٹھانا فرض بن جاتا ہے لیکن صاحب پوسٹ صدیق جان کو جن افعال کا مرتکب بتارہا ہے وہ اس زمرے میں نہیں آتے بلکہ واقعی "جرم” بن جاتے ہیں – جیسے کوئی صحافی کسی نسل پرست/فرقہ پرست تنظیم کے جلوس کی کوریج کررہا ہو اور ساتھ ہی خود بھی اس تنظیم کے ساتھ نسل پرستانہ یا فرقہ پرستانہ نعرے مارنے لگ جائے اور اُس تنظیم کے شرکاء جلوس سمیت اُس پر بھی مقامی تھانے میں 198 اے کے تحت مقدمہ درج ہوجائے اور اسے گرفتار کرلیا جائے تو اُس صورت میں اُس کی گرفتاری کی مذمت کرنا جائز نہیں ہوگا اور نہ ہی اُس کی گرفتاری کو آزادی صحافت پر حملہ کہا جائے گا لیکن محض کوریج کرنے پر اُسے پکڑ لیا جائے تو اس کی مذمت کی جائے گی)
جب بھٹو صاحب نے جسارت کے اشتہارات بند کیے، تکبیر اور آؤٹ لُک پر پابندی لگائی اور کئی ایک ایسے صحافی جو کھلم کھلا جھوٹ سچ جماعت اسلامی کی حمایت کررہے تھے اور بھٹو اور حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کررہے تھے پر پولیس مقدمات درج ہوئے تو اُس پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ نے اس اقدام کے خلاف بھرپور احتجاج کیا، اشتہار کی بحالی اور منسوخ ڈکلییریشن کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا- یہ وہ وقت تھا جب حنیف رامے کا نصرت، اور پی پی پی کا ترجمان مساوات ان اقدامات کی حمایت کررہا تھا –
جب جنرل ضیاءالحق کا مارشل لاء لگا، اور مساوات پر پابندی لگی تو پھر منھاج برنا کی قیادت میں پی ایف یو جے نے ہڑتال کی، احتجاجی تحریک چلائی جس میں اپینک بھی شامل تھے اُس وقت جنگ کے میر خلیل الرحمان، زندگی کے مجیب شامی، تکبیر کے صلاح الدین اور جماعت اسلامی کے دیگر جرائد و اخبارات سے وابستہ آج کے کئی نامور صحافی جنرل ضیاء کے نہ صرف اقدامات کی مکمل حمایت کررہے تھے بلکہ وہ پی ایف یو جے کی قیادت اور اراکین کو ملک دشمن، قومی سلامتی کے لیے خطرہ، اسلام دشمن قرار دے کر زندہ درگور کرنے کا مطالبہ کررہے تھے لیکن آزادی صحافت اور اظہار رائے کے حق کی آزادی کے علمبرداروں نے مساوات لاہور، پھر کراچی پر پابندی ہٹا کر ہی دم لیا-
اس لیے منھاج برنا، نثار عثمانی، عبدالحمید چھاپرا، وھاب صدیقی، ارشاد راؤ و دیگر کی روایت تو یہی ہے کہ ہم نظریاتی وابستگی سے بالاتر ہوکر آزادی اظہار اور آزادی صحافت کے حقوق کا دفاع کریں
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر