دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’دیوالیہ پاکستان‘‘ ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجاہد حسین تحقیقاتی صحافت کا معتبر نام ہے۔ لگ بھگ 27برس قبل جب اس نے ’’فاتح جلال آباد‘‘ جنرل (ر) حمید گل کی ملازمت کے ابتدائی برسوں کی داستانِ شکر گڑھ ضلع نارووال لکھی تو بھونچال سے آگیا۔ ’’فاتح‘‘ کا بت ٹوٹ گیا۔ معاملہ عدالت تک گیا لیکن پھر جنرل حمید گل نے دعویٰ واپس لے لیا۔

ستم البتہ یہ ہے کہ جن مظلوموں کی اراضی پر حمید گل نے قبضہ کیا تھا وہ آج بھی دربدر ہیں۔

مجاہد حسین کی ایک کتاب ’’پنجابی طالبان‘‘ ہاتھوں ہاتھ لی گئی۔ جس وقت یہ کتاب شائع ہوئی تب ملک میں شریف خاندان کا طوطی بولتا تھا۔ شہباز شریف نے بہت برا منایا تھا۔ 1990ء کی دہائی میں اس کی کتاب ’’پاکستان لوٹنے والے‘‘ شائع ہوئی اس کتاب نے خوب ہنگامے اٹھوائے۔

شریف خاندان اور جنرل حمید گل سمیت بہت سارے بڑوں نے اس پر شدید دبائو ڈلوایا کہ کتاب مارکیٹ سے اٹھوالی جائے یا پھر کم از کم اس کتاب کے دو حصے شریف فیملی اور جنرل حمید گل والے حذف کردیئے جائیں۔

اس نے دونوں کام کرنے کی سعادت مندی دیکھانے کی بجائے ملک چھوڑنے کو ترجیح دی۔

’’پاکستان لوٹنے والے‘‘ نامی کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع نہ ہوسکا، کیوں؟ اس سوال کا جواب مجاہد حسین نے اپنی تازہ تصنیف ’’دیوالیہ پاکستان‘‘ میں تفصیل کے ساتھ دیا ہے۔ مجاہد حسین میرے چچازاد بھائی سید ندیم شاہ کا جگری دوست ہے اس سے ہماری صحافتی شناسائی 1990ء کی دہائی کے وسط سے ہے۔ بعد کے برسوں میں شناسائی دوستی میں تبدیل ہوئی اور یہ تعلق اب تک نبھ رہا ہے۔ ایک قلم مزدور کے طور پر مجھے اپنے قبیلے کے جو چند لوگ (قلم مزدور) پسند ہیں ان میں مجاہد حسین بھی شامل ہیں۔

’’دیوالیہ پاکستان‘‘ اس کی تازہ تصنیف ہے۔ ریاست، سیاست اور سماج کے دیوالیہ پن کی انوکھی داستان ہے۔ ایک داستان میں کئی داستانیں ہیں آپ کو ہر داستان خون کے آنسو رونے پر مجبور کردے گی۔

کتاب کی ابتدائی دونوں تحریریں ا پنی اپنی جگہ خود مکمل داستان ہیں۔ ہم اور آپ کسی بھی لکھنے والے قلم مزدور، دانشور اور ادیب سے فہم کی بنیاد پر اختلاف کرسکتے ہیں۔ اختلاف رائے زندگی کا حسن ہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ اب اختلاف رائے کی جگہ گالی نے لے لی ہے۔ سوشل میڈیا پر ’’ٹیوٹر‘‘ کو سنجیدہ لوگوں کی سوشل سائٹ کے طور پر لیا جاتا ہے لیکن اگر آپ کسی دن 20سے 25منٹ نکال کر ٹیوٹر کے مختلف اکائونٹس کی ٹیویٹس اور جوابی ارشادات پڑھ لیں تو کانوں میں سے بھی دھواں نکلنا شروع ہوجائے گا۔

میں اپنے کالموں میں جب اس صورتحال پر گرفت کرتا ہوں تو ’’اہل ایمان‘‘ کا لشکر ٹوٹ پڑتا ہے یہ لوگ یاد دلانے لگتے ہیں کہ میاں نوازشریف نے محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ کیا کیا؟ یہی لوگ اس سوال کا جواب نہیں دیتے کہ وہ آج جس ’’چاند ماری‘‘ میں جُتے ہوئے ہیں وہ کیا ہے۔

کچھ لوگ اپنی بدزبانیوں کو مکافات عمل کے ڈھکوسلے کے غلاف میں لپیٹنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ میرا سوال ہمیشہ یہ ہوتاہے کہ جرم میرا سزا میری اولاد کو، یہ کیسا مکافات عمل ہے؟

سچ پوچھیں تو نصف صدی کی صحافتی زندگی میں میں نے جتنے بدزبان تحریک انصاف کے حامی اور خصوصاً سابق جیالے خاندانوں کی اولادیں دیکھیں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ایک حالیہ معاملہ کی مختصر تفصیل لکھنا چاہتا تھا لیکن وضعداری آڑے آگئی۔

مجھے بھی دوسرے بہت سارے لوگوں کی طرح روزانہ کی بنیاد پر گالیوں اور الزامات کی چاند ماری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی خاموش رہتا ہوں کبھی بات برداشت سے باہر ہوجائے تو جواب دے دیتا ہوں۔

مجاہد حسین نے اپنی نئی تصنیف ’’دیوالیہ پاکستان‘‘ کی دو ابتدائی تحریروں میں رواج پاچکی بدزبانی سے بنے سماجی ماحول اور دہشت گردی و سہولت کاری پر خاصا تفصیل سے لکھا ہے۔

انہیں بھی یہ اعتراف کرتے بنی کہ سابق جیالے کچھ دیہاڑی دار، چند نومولود انقلابی اور شہرت کے خواہش مندوں نے سماجی اخلاقیات اور ایکتا کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔

’’دیوالیہ پاکستان‘‘ نامی کتاب میں پیش لفظ کے علاوہ کل 13 ابواب باندھے گئے ہیں۔ انہوں نے ابتداء ’’ابلاغیاتی دیوالیہ پن‘‘ کی داستان سے کی اور ’’سیاسی دیوالیہ پن کا مستقبل‘‘ پر پہنچ کر بات تمام کی۔

درمیانی ابواب میں جنرل عاصم سلیم باجوہ، جنرل قمر جاوید باجوہ، شریف خاندان، بھٹو خاندان اور آصف علی زرداری پر کرپشن کے الزامات کی داستانیں ہیں۔

دیوالیہ پن کی سیاسی و عسکری تاریخ کے ساتھ پڑھنے کو اور بہت کچھ بھی ہے۔ ’’فوجی آمروں اور سویلین حکمرانوں کا تاریخی دیوالیہ پن‘‘ والا باب اور پھر ’’اخلاقی دیوالیہ پن کا اگلا مرحلہ‘‘ والا باب خاصے کی چیز ہیں۔ سیاسی دیوالیہ پن کا مستقبل والا باب قاری کو جکڑ لیتا ہے۔

مجاہد حسین حروف برتنے کےسلیقے سے آشنا ہیں ۔ جانتے ہیں کہ محض لفاظی سے قاری کو پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا اس لئے جن بابوں میں انہوں نے کرپشن کہانیاں بیان کی ہیں وہاں انہوں نے دستیاب شواہد اور اعدادوشمار کو بھی پڑھنے والوں کے سامنے رکھنا ضروری خیال کیا۔ مجھے ان سے دو شکایات ہیں اولاً یہ کہ انہوں نے عمران خان پر لگنے والے الزامات کے معاملے کو نظرانداز کردیا۔ ثانیاً 2سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی اور راحیل شریف ان کی تحقیقاتی صحافت سے بچ رہے۔

پھر بھی انہوں نے جتنا لکھ دیا وہ غنیمت ہے ۔ اس سے غنیمت ان کا دم ہے یہ اس لئے کہ اس ملک میں ’’فرشتے‘‘ زیادہ ہیں اور ’’آدمی‘‘ کم۔

مجاہد حسین کی تحقیقاتی صحافت کے دونوں رُخوں، کرپشن کہانیوں اور شدت پسندی کے مقامی تاریخی پس منظر کے حوالے سے اس کی معلومات کا میں مداح ہوں۔ وہ لکھتے ہوئے تعلقوں کے حوالے مدنظر رکھنے کی بجائے قلم مزدوری کے اصول و ضوابط پر عمل کو ترجیح دیتا ہے۔ اپنی حالیہ تصنیف میں اس نے ریاستی، سیاسی سماجی دیوالیہ پن اور اس کے پس منظر و پیش منظر ہر دو پر مفصل انداز میں بات کی ہے ۔

یہ باتیں بے ربط ہرگز نہیں اس کا تجزیہ بھی صائب ہے۔ اپنی ایک ابتدائی تحریر میں اس نے اپنی ایک کتاب کے لئے لکھے گئے خالد احمد کے مقدمے کا طویل اقتباس بھی دیا یہ اقتباس بذات خود ایک مکمل تجزیہ ہے۔

پروف کی اِکادُکا غلطیاں ہیں صفحہ 48کے ایک حوالے پر میں نے اس سے بات کی تو اس نے سکون کے ساتھ میری بات سنی۔ جماعت الاحرار اصل میں کالعدم تحریک طالبان سے الگ ہوا گروپ تھا۔ ’’تحریک طالبان جماعت الاحرار‘‘۔ میری رائے میں اسے طالبانائزیشن کے آغاز سے اب تک کی داستان الگ سے لکھنی چاہیے۔

البتہ یہ ضروری ہے کہ اس امر کو بطور خاص مدنظر رکھا جائے کہ طالبانائزیشن کو جن تنظیموں اور حالات سے رزق ملا ان تنظیموں نے کیسے جنم لیا اس پر کھلی بات ہو۔

ہم، مجاہد حسین یا کوئی اور جب پاکستان میں انتہا پسندی اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والے عسکریت پسندی پر بات کریں تو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ افغانستان کے انقلاب ثور اور ایرانی انقلاب کو اس سے الگ کر کے نہیں رکھا دیکھا جاسکتا۔

پاکستان میں در آئی شدت پسندی کے ڈانڈے کسی نہ کسی طرح ان دو پڑوسی ملکوں میں برپا ہوئے انقلابوں سے جاملتے ہیں۔ ہماری سماجی وحدت کی شکست و ریخت میں ان دو نقلابوں کا اثر کتنا ہے اس سوال کو نظرانداز کرکے آگے نہیں بڑھا جاسکتا ۔

گو ہمارے کچھ دوست شدت پسندی سے جنم لینے والی عسکریت پسندی کو ایران سعودیہ چپقلش کی پراکسی کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن میری دانست میں یہ پراکسی سے زیادہ ہمارے اپنے کج ہیں۔ کچھ کیا زیادہ عمل دخل ہماری اسٹیلشمنٹ کا بھی رہا۔

یہ سطور لکھتے ہوئے مجھے اپنی ایک کتاب ’’گوش بر آواز‘‘ کا ایک حوالہ یاد آگیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایک شدت پسند مذہبی جماعت کے کارکنوں نے اپنے امیر کی قیادت میں ضلع لیہ میں ایک افسر کو اغواء کرلیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے فیصل آباد کے اس وقت کے کمشنر زیڈ اے کے شیردل کو انکوائری افسر مقرر کیا۔

ان کی رپورٹ ایوان صدر پہنچی تو جنرل موصوف نے لکھا

’’رپورٹ مفصل اور حوالہ جات ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق ہیں لیکن پھر بھی علمائے کرام کا خصوصی خیال رکھا جائے‘‘۔

رکھ لیجئے شدت پسندوں کا خیال اور پھر بھگتیں اس کے نتائج۔

حرف آخر یہ ہے کہ لاہور کے معروف اشاعتی ادارے ’’نگارشات‘‘ کے زیراہتمام شائع ہونے والی مجاہد حسین کی کتاب پڑھنے کی چیز ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author