دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اسٹبلشمنٹ کا کراچی میں پیدل سپاہی||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاہ رخ جتوئی کو سپریم کورٹ نے بری کردیا – لیکن پاکستان کا اردو-انگریزی میڈیا اور کراچی کی سول سوسائٹی کا ایک اشراف دھڑا اس کا الزام بھی پی پی پی کے سر ڈالے گا –
میں آپ کو اس بارے میں وہ بتاتا ہوں جو پی پی پی کو الزام دینے والے نہیں بتائیں گے :
سکندر جتوئی شاہ رخ جتوئی کا والد پی پی پی کے خلاف آمر جنرل مشرف کا گہرا دوست رہا تھا- کہا جاتا ہے کہ سکندر جتوئی سپریم کورٹ کے ججز کے تبادلوں پر بھی اثر انداز ہوتا تھا –
یہ بھی خبر دی گئی کہ ایم کیو ایم کے گورنر عشرت العباد کے زمانے میں شاہ رخ جتوئی کا قیام گورنر ہاؤس میں ہوا کرتا تھا اور ایم کیو ایم نے اس کی حمایت کی تھی –
آج پی ٹی آئی نواز اسٹبلشمنٹ جج اعجاز الحسن نے ہی شاہ رخ کو بری کیا –
شاہ رخ جتوئی کے چچا دیدار جتوئی پی ٹی آئی سندھ کے سیکرٹری جنرل بھی ہے –
شاہ رخ کا کزن منیب جتوئی نہ صرف پی ٹی آئی کا ٹکٹ ہولڈد بلکہ سندھ تنظیم میں عہدے دار بھی ہے
شاہ رخ جتوئی کے خاندان کا کوئی فرد یا افراد کبھی پی پی پی میں نہیں رہا/رہے
لیکن شاہ رخ جتوئی کی طرف سے ایک نوجوان کے قتل کا واقعہ جیسے سامنے آیا تب سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا ڈسکورس پی پی پی اور سندھ حکومت کو قصوروار ٹھہرانا رہا ہے –
شاہ رخ جتوئی کا مقدمہ جب سے سامنے آیا تب سے کراچی میں اسٹبلشمنٹ کی مدد سے سول سوسائٹی کے محاذ پر سب سے موثر آواز بناکر پیش کیے جانے والے ایک وکیل ایکٹوسٹ جبران ناصر ایڈوکیٹ نے اس قتل کی زمہ داری پی پی پی اور سندھ حکومت پر ڈالنے کی بھدی کوشش جاری رکھے ہوئے تھا –
جبران ناصر کو مشرف دور میں اسٹبلشمنٹ نے کراچی کے سول سوسائٹی کے اندر داخل کیا گیا تاکہ وہ پی پی پی کے خلاف محاذ کھول سکے –
2008-2012 کے دوران کراچی اور کوئٹہ میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کا سارا الزام وہ پی پی پی کی وفاقی، سندھ اور بلوچستان حکومت پر ڈالتا رہا –
وہ لشکر جھنگوی، طالبان، القاعدہ اور سپاہ صحابہ کو پی پی پی کے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش کرتا رہا- کتنی عجیب بات ہے کہ اُس نے ان سب تکفیری دہشت گرد دھڑوں کے پاکستانی ریاست کے سیکورٹی اداروں اور عدالتی اسٹبلشمنٹ میں تکفیری ذہنیت کی حامل لابی کے ساتھ روابط اور ان کی سرپرستی کو کبھی کھل کر بیان کیا جبکہ وہ پی پی پی کو ولن بناکر دکھاتا رہا-
اُس نے شاہ رخ جتوئی خاندان کے مشرف، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی سے تعلق داری اور روابط کو کبھی بیان ہی نہ کیا –
جب ناظم جوکھیو کا قتل کیس سامنے آیا تو ایک بار پھر اُس نے جھوٹ اور بہتان سے کام لیا اور اپنے مداحوں تک کو یہ بتانے سے گریز کیا کہ ناظم جھوکیو قتل کیس میں جھوکیو برادری کے ایک بڑے جرگے کا انعقاد ہوا جس کی صدارت سردار اختر مینگل نے کی تھی – اس جرگے نے ناظم جھوکیو کی بیوہ، بھائی اور خاندان کت دیگر افراد کی صلح قاتل گھرانے سے کرائی اور انھیں قتل کے مقدمے سے دستبردار کرایا اور دیت لینے پر راضی کیا – وہ مسلسل یہ جھوٹ بولتا رہا کہ مقتول کی بیوہ پر پی پی پی، سندھ حکومت نے صلح کے لیے دباؤ ڈالا اور انھیں مقدمے سے دستبرادری پر مجبور کیا –
جبران ناصر جو اپنے آپ کو فوجداری قوانین پر مہارت رکھنے والا شخص بتاتا ہے اپنے پڑھنے والوں کو یہ حقیقت بتانے سے قاصر رہا کہ قانون دیت تعزیرات پالستان میں جنرل ضیاء الحق کی ترمیم سے ایک متنازعہ اور مسخ شدہ قانون بن گیا تھا اور اس مسخ شدہ متنازع قانون کو آئی ایس آئی نے اُس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف کے کہنے پر ریمنڈ ڈیوس کو بری کرانے کے لیے استعمال کیا اور اُس وقت کی عدالتی اسٹبلشمنٹ نے کانے چیف جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی میں اسٹبلشمنٹ کی خوشنودی کے لیے اسے ریمنڈ ڈیوس کے حق میں اس قانون کو استعمال کیا – وہ اسٹبلشمنٹ کے پیدل سپاہی شاہ محمود قریشی کی جعلی انقلابی لفاظی بارے بھی ایک لفظ نہ بول سکا – اُس زمانے میں پاکستان تحریک انصاف کا چیئرمین عمران، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل کیانی، میاں نواز شریف اور افتخار چودھری کی اینٹی پی پی پی ٹرائیکا کے ہمنوا ہوکر سارا الزام صدر آصف علی زرداری اور پی پی پی کے سر تھونپنے میں لگا ہوا تھا-
ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب میں اپنی رہائی میں چیف آف آرمی اسٹاف، ڈی جی آئی ایس آئی اور عدالتی اسٹبلشمنٹ کے کردار اور اُن کی امریکی سی آئی اے اور امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ساتھ ملی بھگت کو کھول کر بیان کر چُکا – لیکن جبران ناصر اُن دنوں ان میں سے کسی کردار کو بے نقاب کرنے کی بجائے پی پی پی کی وفاقی حکومت اور صدر زرداری کو ہی بدنام کرتا رہا –
جبران ناصر کی قماش کے نام نہاد سول سوسائٹی ایکٹوسٹ ‘انسانی حقوق’ کے نام پر کبھی بھی مذکورہ بالا تفصیل اور اُن کے ایجنڈے کو اپنے مداحوں کے سامنے پیش نہ کرسکے –
وہ کراچی کے مسائل ہوں جن کا تعلق بلدیات سے ہو یا شہری حقوق سے ہو اس بارے میں کبھی اسٹبلشمنٹ، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم، پی ٹی آئی ، جی ڈی اے، سندھی قوم پرستوں اور ان کے اینٹی پی پی پی موقف کو بے نقاب کرنے کی جرات و ہمت سے خالی رہا –
پی پی پی کے 2008-2012 کے دور میں مسلم لیگ نواز اور عدلیہ کی ملی بھگت اور پھر 2013-2018 نواز شریف کے وفاق میں دور حکومت اور ایسے پی ٹی آئی کے 2018-2020 تک کے دور میں آئی جی سندھ، کراچی پولیس چیف، چیف سیکرٹری کی تعیناتیوں اور رینجرز کی من مانیوں جیسے ایشوز پر سندھ کے چیف منسٹر کے اختیارات کو سلب کرنے کے معاملے میں بھی قصوروار سندھ حکومت کو ٹھہراتا رہا –
اس ساری تفصیل یہ بات اچھے سے عیاں ہوجاتی ہے کہ جبران ناصر کا ایکٹوازم کن قوتوں کا مرہون منت ہے اور اُسے کیوں پاکستان کا اشراف نام نہاد لبرل پریس اُس کی تمام تر جانبداری اور تضادات کے باوجود بہت زیادہ پروجیکشن دیتا رہا ہے؟
وہ کراچی میں شیعہ مسلمانوں کی تعذیب اور نسل کُشی بارے کے خلاف سرگرم عمل سید خرم زکی کے ایکٹودازم کو ہائی جیک کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا رہا – اُس نے خرم زکی کی تکفیری فاشزم کے خلاف کوششوں کو اُس وقت سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جب اُس نے خرم زکی کے لال مسجد اور مولوی عبدالعزیز کے خلاف جدوجہد اور تحریک سے خود کو الگ کیا اور اُس کی شہادت کے بعد شیعہ پرسیکوشن/تعذیب اور نسل کُشی کو اسلامی تاریخ میں شیعہ-سُنی جھگڑے سے جوڑ کر دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کی اور اسے دو فرقوں کی جنگ کے طور پر پیش کیا –
ہم نے اُسی زمانے میں اُس کو اسٹبلشمنٹ کے ایک ایجنٹ کی حثیت سے تعارف اپنے پڑھنے والوں کے سامنے پیش کیا تھا جس پر اُس کے سادہ لوح مداحوں کو ہم پر بڑا غصہ آیا تھا لیکن وقت اور تاریخ نے ہمارے موقف کی تائید کی –

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author