حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امڑی سینڑ کے شہر پانچ دن کے لئے آیا تھا چوتھے دن رخصت ہونا پڑرہا ہے۔ روزگار سے زیادہ ایک دن پہلے چل دینے کی وجہ عزیزوں کے ایک ضروری کام کی مجبوری ہے۔ سامان باندھنے کے عمل کے دوران یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ دل کی جو حالت ہے وہ بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ دل کے معاملات کا ذکر دکھاوا نہیں ہوتا۔
اچھا دکھاوا کیا بھی جائے تو کس کے لئے۔ امڑی اور امڑی کے شہر سے محبت کا کوئی انعام تھوڑا ہی ملتا ہے جو لینے کے لئے حال دل بیان کیا جائے۔ اس بار کے قیام ملتان کی ابتدائی روداد آپ پچھلے کام میں پڑھ چکے۔
اپنے دو دوستوں مبشر علی فاروق ایڈووکیٹ اور زبیر فاروق کے ساتھ ہم نے ملتان سے بذریعہ پرہلاد بھی ایک ملاقات کی تھی۔ ملتان سے اس ملاقات کی روداد الگ سے لکھیں گے۔ اتنا تو ملتان کا مجھ ملتانی پر حق بلکہ حق فائق بنتا ہے۔
پروفیسر تنویر خان، مبشر علی فاروق اور زبیر فاروق سے حسب سابق کئی گھنٹوں کی محفل جمی زبیر فاروق کے مطابق یہ ایک نشست اصل میں تین حصوں پر مشتمل تھی۔ پہلے حصے میں تو عصری سیاست کے موضوعات تھے درمیان میں کچھ آڈیو ویڈیوز پر باتیں ہوئیں۔ تیسرے حصے میں فقیر راحموں کی باتیں تھیں اور ہم سب سننے والے۔ پہلے دو حصے خاصے دلچسپ تھے۔ پروفیسر تنویر خان کے سوالات اور ہمارے جوابوں سے چھڑنے والی بحث اور جواب میں سے کھال کھینچ کر بنائے گئے سوال پھر ان کے جواب۔
عصری سیاست کا ذکر چھڑے اور آڈیو ویڈیو لیکس کے ساتھ عمران خان زیربحث نہ آئیں یہ تو ممکن نہیں۔ پروفیسر صاحب کا خیال تھا کہ عمران خان کی مقبولیت بے پناہ ہے۔ یقیناً ہے اور ’’بے پناہ‘‘ ہی ہے لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ خان اور اس کے چند رفقا کو اب دو صوبائی اسمبلیاں توڑنے کے فیصلے پر ملال ہورہا ہے۔
ان اسمبلیوں کی موجودگی میں ایک صوبے میں ان کی قانونی اور پنجاب میں ’’جوڈیشل حکومت‘‘ جوڈیشل اس لئے کہ وہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی روشنی میں بنی تھی اور وہ فیصلہ اسی سپریم کورٹ کے ایک پچھلے فیصلے کی نفی تھا ۔
آئین و قانون کی موقع کی مناسبت سے تشریح فقط ہمارے ہاں ہی ہوتی ہے۔ بہرحال دونوں حکومتیں موجود ہوتیں تو خان اس قدر بے سہارا نہ ہوتا جیسا اب ہے۔ رہی عوامی مقبولیت وہ یقیناً ہے مگر یہ سوشل میڈیا پر بنائے گئے تین سو ڈیموں اور لگائے گئے ایک ارب درختوں جیسی ثابت نہ ہو کہیں۔
آڈیو لیکس کے معاملے میں بھی ان (عمران خان) کا موقف یہی ہے کہ کس قانون کے تحت ان کے ٹیلیفون ٹیپ ہوئے حالانکہ وہ بطور وزیراعظم کہتے رہے ہیں کہ مجھے معلوم ہے ایجنسیاں ٹیلیفون ٹیپ کرتی ہیں میرا فون بھی ٹیپ ہوتا ہے میں کون سا غلط کام کرتا ہوں کہ ڈروں۔
ان کے ہمدردوں اور محبان کے پاس آڈیوز میں ہوئی گفتگو کا جواز موجود ہے۔ ہونا بھی چاہیے سچے ہمدرد اور پیروکار وہ کسی کے بھی ہوں کا فرض یہی ہوتاہے کہ وہ اپنے لیڈر کا ہرحال میں دفاع کریں۔ ٹائیگران بنی گالہ جس دینی جذبہ سے دفاع کرتے ہیں اس کے بعد انہیں دوسروں پر پہ پھبتی نہیں کسنی چاہیے کہ ’’اوئے غلاموں تمہاری اپنی کوئی سوچ نہیں بس نسل در نسل غلام رہنے کے لئے پیدا ہوئے ہو‘‘۔
اس نشست کا تیسرا حصہ فقیر راحموں کے نام تھا بلکہ یوں کہہ لیجئے اس نے دھکے سے اپنے نام کرلیا۔ ایک تو اس فقیر راحموں کا یہ بڑا مسئلہ ہے وہ اپنی باتوں سے ہمارے دوستوں کو لبھاتا ہے اور ان پر قبضہ کرلیتا ہے اور پھر اچھے بھلے برسوں اور عشروں کے دوست کہنے لگتے ہیں یار شاہ جی فقیر راحموں کو ساتھ کیوں نہیں لائے۔ اب اسے لائو تو مسئلہ یہ ہے کہ پھر اپنی چکنی چپڑی باتوں کے سامنے ہمارا چراغ جلنے نہیں دیتا۔
ملتانی منڈلی کا فل کورٹ اجلاس نہیں ہوسکا البتہ تین بنیادی بانی ارکان یعنی ہم، عزیزی طارق شیراز اور وکیل بابو ساجد رضا تھہیم ایڈووکیٹ کے علاوہ فقیر راحموں ( خصوصی شرکت ) نے اجلاس منعقد کیا۔ ذاتی، گھریلو، دفتری اور شادیوں کی مصروفیات کی وجہ سے شرکت نہ کرسکنے والے ارکان کیلئے ساجد رضا تھہیم نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ جوں جوں ان تک اس اجلاس کی روداد قسطوں میں پہنچے گی وہ اس پر ملال کریں گے کہ کیوں نہ شریک ہوپائے ۔
ملتانی منڈلی میں ذکر یاراں کے علاوہ ملکی اور عالمی سیاست کے ساتھ ایران میں ’’دھر‘‘ لئے گئے ایک دیسی الباکستانی مذہبی رہنما پر بھی گفتگو ہوئی۔ فقیر راحموں اپنی زنبیل سے راز نکال نکال کر تفصیل کے ساتھ بتاتا اور مجمع لوٹتا رہا۔ کچھ اور قصے کہانیاں بھی اس نے سنائیں رونق لگی اور خوب لگی۔
کینٹ کے ناکے پر تعینات جوان نے ہمارے میزبان بارے اجنبیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شناختی کارڈ دیکھانے پر اصرار کیا۔ خیر یہ مرحلہ بھی خوش اسلوبی سے طے ہوگیااور مستقل عزیزی طارق شیراز کی اقامت گاہ پر منڈلی چوکڑی مار کر بیٹھ گئی۔
وہ تو شکر ہے کہ فقیر راحموں نے یاد دلایا کہ اللہ آلیو ساڑھے چار بجے دوستوں کے ایک اور گروپ کو بھی وقت دے رکھا ہے اس لئے کھایا پیا اور کھسکے والے اصول پر عمل کرو۔ یہ مشورہ ماننا پڑا۔
منڈلی نے حسب سابق ایک قرارداد میں وحدت سماج کے قیام (اس میں طعام کا ذکر نہیں تھا) پر زور دیتے ہوئے وسیب کے لوگوں سے اپیل کی کہ اپنے چار اور کے لوگوں کے دکھ درد کو ذاتی سمجھ کر شریک ہوں بے نوائوں کی دست گیری وسیب کی قدیم روایات کے مطابق کریں۔ دوسری قرارداد میں مہنگائی کے طوفان پر اور خصوصاً فقیر راحموں کے ڈن ہل سگریٹ مہنگے ہونے پر گہرے رنج اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ڈن ہل کی قیمت 2018ء کی سطح پر واپس لائی جائے۔ میں نے تجویز دی تھی کہ یا پھر حکومت کے فقیر راحموں کو ڈن ہل پینے کے لئے سبسڈی دے مگر فقیر راحموں نے یہ بات غصے سے جھٹک دی بولے، "سید ہیں مریں گے بھی تو اکڑ سے بھلے ڈن ہل مہنگا ہونے کے صدمے سے ہی کیوں نہ مریں” ۔
ملتانی منڈلی کی تیسری قرارداد میں ملحد چین کے توسط سے سعودی عرب و ایران کی صلح کے نتیجےمیں پاکستان میں بیروزگاری میں اضافے کے خطرے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے چینی قیادت کے اس صلح پروگرام کو عالم اسلام اور خصوصاً اسلام کے قلعہ پاکستان کے خلاف عظیم عالمی سازش قرار دیا گیا۔
لیجئے اس بار ملتانی سنگت کا اجلاس کے سنگت کے بانی کامریڈ دلاور عباس صدیقی کی صدارت میں ملتان ٹی ہائوس میں اتوار کی شام منعقد ہوا۔ ہمارے ڈبل امام صاحب بخار میں نیند کی گولی کھالینے کے باوجود جھومتے جھامتے، عزیزم سید سجاول عباس نقوی، مہر شاہد اور رانا عقیل کے ہمراہ کچے دھاگے سے بندھے ٹی ہائوس تشریف لائے۔ سنگت اکٹھی ہوئی اور خوب رونق لگی۔ ڈبل امام استاد منیرالحسنین المعروف قاری منیر حسین نقشبندی رونق محفل یاراں تھے۔ غیرحاضر سنگتیوں کے لئے صحت و سلامتی کی دعا کی گئی۔
یوں امڑی سینڑ کے شہر میں پانچ روز قیام کا پروگرام تمام کرکے ایک دن قبل رخصت ہونا پڑا۔ بہت سارے دوستوں خصوصاً خواجہ ضیاء سے ملاقات بلکہ ان کی جانب سے سوموار کی شام دوستوں کے اعزاز میں فقیر راحموں کی آمد پر دیئے گئے عشائیہ میں شرکت نہ ہوسکی۔ ان سے فون پر معذرت کرلی۔
میر احمد کامران مگسی کے توسط سے ارشد اقبال بھٹہ کے پیغام ملاقات اور روایتی ملتانی ناشتہ کی دعوت پر بھی معذرت کرنا پڑی۔ وجہ یہ ہے کہ یہ سطور لکھنے کے کچھ دیر بعد لاہور کے لئے نکلنا ہے۔ واپسی کا سفر شروع ہوگا۔ پانچ روزہ پروگرام ملتان یاترا ایک دن قبل سمیٹنے کی وجہ بیگم صاحبہ کا حکم ہے مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق روانگی لازم ہے۔
یوں امڑی سینڑ کے شہر میں چار دن بیتالئے پتہ ہی نہیں چلا۔ ملتان سے ملاقات کی تفصیل اگلے کالم میں عرض کروں گا ملتانیوں سے ملاقاتوں کی حسرت الگ ہے۔
امڑی سینڑ کے شہر کی خوشبودار ہوا اور محبتوں بھری فضا یہ دونوں تو ہیں ہی الگ، انہیں لفظوں میں کیسے بیان کیا جائے۔
لیجئے ملتانی ملتان سے رخصت ہوتا ہے ایک ملتان چونسٹھ برسوں سے اس کے اندر آباد کے اسی کے سہارے جیتا ہے آباد و شاد رہے ملتان اور شاداں رہیں ملتانی ہمیشہ، آمین۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر