عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کبھی ایسی الجھن سے گزرے ہیں، لائٹر ہو مگر سگریٹ کا پیکٹ خالی ہوجائے یا سگریٹ ہو مگر لائٹر جواب دے جائے؟ آپ واش روم میں کموڈ پر بیٹھے ہوں، سُلگتے سگریٹ کے ساتھ آپ موبائل فون کے ٹچ پیڈ پر متحرک انگلیوں کے درمیان تلازمہ خیال کرتے ہوں جس سے اسکرین پر الفاظ ابھر رہے ہوں؟ اب خیالات تو امنڈیں لیکن اب بنا لائٹر کے جو تلازمہ ہے وہ پورا نہ ہورہا ہو اور اسکرین خالی ہی نظر آئے تو ایسے میں آپ کی طبعیت بہت بے چین ہو یا درد زہ کی سی کیفیت کا آپ شکار ہوجاتے ہوں؟
اُس نے یہ سوال میرے سامنے اچانک رکھ دیا تھا –
ہم سدرن بائی پاس پر اقبال ٹاؤن روڈ کے چوک سے سو میٹر آگے سڑک کنارے رشید ڈرنک کارنر کے سامنے سروس لین کے ساتھ بنے فٹ پاتھ کے کنارے کرسیاں ڈالے بیٹھے تھے – اُس نے ڈَن ہل لائٹ امپورٹڈ کی ڈبی سے سفید پَنّی میں لپٹے تمباکو کی سگریٹ نکال اپنے ہاتھ میں لی ہوئی تھی اور، دوسرے ہاتھ میں لائٹر تھا اور اُسے گھمائے جارہا تھا – میں ڈن ہِل انٹرنیشنل امپورٹڈ ریڈ پیکٹ سے ایک سگریٹ کو اپنے لائٹر سے سُلگا کر کَش پہ کَش کیے جاتا تھا اور درمیان میں وقفے وقفے سے میز پر دھرے لیمونائیڈ ڈسپوزایبل پلاسٹک گلاس سے سِپ لے رہا تھا-
وہ ایک سرکاری ادارے میں ایس ڈی او کے عہدے پر تھا – ایک زیر تعمیر سرکاری بلڈنگ کی انسپکشن کرکے واپس جارہا تھا جب اُس نے اپنا موٹر سائیکل اس جگہ پر روکا اور مجھے کال کرکے بُلایا لیا تھا-
وہ اکثر ایسا کرتا تھا، سرشام یا رات گئے وہ سائٹ انسپکشن سے واپس لوٹ رہا ہوتا تو کہیں بھی سڑک کنارے کسی ڈرنک کارنر یا کسی چائے کے ڈھابے پر رُک جاتا اور مجھے کال کرتا –
میں اُس کی کال ٹائمنگ پر حیران ہوتا کیونکہ یہ وہ وقت ہوتا تھا جب میں اپنی نیوز اسائنمنٹ ایڈیٹر کے حوالے کرکے دفتر سے واپس گھر جانے کی تیاری میں ہوتا تھا- اکثر یہ اُس روز ہوتا جب میں زرا جلدی گھر پہنچنے کی تیاری میں ہوتا اور میں یہ منصوبہ بندی کررہا ہوتا کہ آج پرانے دوستوں کے ساتھ رات گئے منڈلی جماؤں گا –
میری اُس سے پہلی ملاقات بھی ایک تعمیراتی منصوبے بارے ملنے والی اسائنمنٹ کے دوران ہوئی تھی –
میں تعمیراتی بلڈنگ کی سائٹ پر ایک دوست سب انجنئیر کے ساتھ پہنچا تھا –
"پہلا جرنلسٹ دیکھا ہے جو ایک سب انجنئیر کے ساتھ سائٹ کا معائنہ کرنے آیا ہے”
اُس نے یہ جملہ بول کر مجھ سے مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے بڑھا دیا تھا –
اُس کا ہاتھ بہت نرم ملائم تھا- مخروطی انگلیاں کسی فنکار کی انگلیاں لگ رہی تھیں جن میں میں کلر بُرش دیکھنے کی خواہش کرنے لگا تھا –
سانولا رنگ، کلین شیو چہرہ، بالوں میں ایک طرف کو نکالی گئی سیدھی مانگ، چوڑی کشادہ پیشانی، پتلے ہونٹ، کمان کی طرح تنی ابرو، روشن موٹی موٹی آنکھیں، چھے فٹ سے کچھ کم مگر نکلتا ہوا قد، بائیں کلائی میں خوبصورت سیٹیزن کمپنی کی ڈائل واچ اور پیروں میں پمپی شوز پہنے وہ مجھے پہلی نظر میں ھریانہ کا راجپوت لگا تھا- بعد میں اُس نے میرے احساس کی تصدیق بھی کردی تھی –
اُس نے مجھے چائے پینے کی آفر کی اور مجھے اپنی ون ٹو فائیو ہنڈا موٹرسائیکل پر ناگ شاہ چوک پر سڑک کنارے بنے ایک چائے کے ڈھابے پر لے گیا تھا اور ہم نے لکڑی کے ایک بنچ پر بیٹھ کر تیز پتی کی کڑک چائے پی تھی –
"میں باہر سے ایک پروفیشنل انجنئیر اور اندر سے ایک ادیب ہوں – ہوں جس کے دماغ میں زمانہ طالب علمی سے سینکڑوں کہانیوں کے پلاٹ ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہیں اور ہزاروں کردار ہیں جو ایمبریو شکل میں ہیں – وہ فکشن کی شکل میں باہر نکلنے کا راستا ڈھونڈ رہے ہیں لیکن میرا دماغ اُن کے لیے قید خانہ بنا ہوا ہے اور باہر نکلنے کی سبیل ہے کہ مل کر نہیں دیتی“
یہ فقرے میرے دماغ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آواز بنکر بیٹھ گئے تھے اور جب بھی وہ مجھے ملتا تو میں اُس کے اندر گھُس کر اُس کی کہانیوں کے پلاٹ پڑھنا چاہتا اور اُس کے تحت الشعور کے قید خانے میں آزادی کے خواہاں کرداروں سے ملنے کی کوشش کرتا لیکن ہر بار مجھے "شٹ ڈاؤن” کی سی حالت کا سامنا کرنا پڑتا اور بار بار میں ایک پروفیشنل انجنئیر سے ملتا-
"تمہیں کسی یونیورسٹی میں لٹریچر کا استاد ہونا چاہیے تھا- یا پھر ایک کُل وقتی ادیب، تمہاری شایع رپورٹنگ بھی رپورتاژ سے کم نہیں ہوتی جسے پڑھنے میں ویسا ہی لطف آتا ہے جیسے کوئی کہانی پڑھنے سے آتا ہے”
یہ فقرے اُس نے اُس روز کی اشاعت میں شایع میری ایک رپورٹ کا عکس وٹس ایپ کھول کر مجھے دکھاتے ہوئے کہا تھا- اور میں یہ سُن کر مسکرانے لگا تھا-
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں نے اُسے آندرے ژید کی ایک طویل کہانی ‘ملحد کی نماز’ پڑھنے کو دے رکھی جس کا اردو قالب میرے دوست وقار خان نے تیار کیا تھا –
وہ آندرے ژید، دستوفسکی، بالزاک ،چیخوف اور موپساں کی درجنوں کہانیوں کے اردو تراجم میرے توسط سے پڑھ چُکا تھا- اور کہتا تھا "میں ان کرداروں کو روز خواب میں دیکھ رہا ہوں”
"پورٹریٹ آف ڈورین گرے” کے زریعے سے وہ آسکر وائلڈ سے واقف ہوا تھا جس کا اردو ترجمہ میں نے بہت جلدی میں کیا تھا اور مجھے شک تھا کہ وہ میں نے ٹھیک کیا ہے یا غلط –
رحمان عباس کے ناول "روحزن” اور "زندیق” پڑھ کر وہ ممبئی جانے کی شدید خواہش میں مبتلا ہوگیا تھا- اُس کا بس چلتا تو وہ اڑکر ممبئی پہنچ جاتا اور ممبا دیوی کے چرن چھوتا –
"زندیق پڑھ رہا تھا تو ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی فلم دیکھ رھا ہوں، ایک سے بڑھ کر ایک منظر”
اُس نے یہ کہا تو مجھے وہ ناقد یاد آگیا جس نے "زندیق” میں سینمائی تکنیک کے استعمال ہونے کی بات کی تھی –
کموڈ، لائٹر، سگریٹ، فکشن کے خیالات اور موبائل ٹچ پیڈ کے درمیان تلازمہ اور کسی ایک کی کمی سے تلازمہ ٹوٹ جانے کی بات مجھے پریشان کی جارہی تھی – اور میں سوچ رہا تھا کہ اُس کے سوال کا کیا جواب دیا جاسکتا ہے؟ پھر مجھے خیال آیا کہ کیا ایسے سوالات کا ضروری ہے کہ کوئی نہ کوئی جواب بھی ہو؟
میں نے اس سے پوچھا تھا،
‘کیا تم نے "لال سنگھ چڈھا” فلم دیکھی ہے؟
‘ نو’
اس نے جواب دیا –
پھر تو تمہیں یہ بھی نہیں پتا ہوگا کہ "ملیریا” پھیل جانے پر ایک ہفتے تک کمرے میں بند رہنا چاہیے – ہندوستان میں ایسا ملیریا جون کے پہلے ہفتے 1984ء میں گولڈن ٹیمپل پر آپریشن بلیو اسٹار کے وقت پھیلا تھا – دوسری بار یہ ملیریا 31 اکتوبر 1984ء کو اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی میں پھیلا تھا – اور اس ملیریا کی ڈرامائی تشکیل ایک فلم "جوگی” کی شکل میں دوبارہ کی گئی ہے- تیسری بار یہ ملیریا 6 دسمبر 1992 میں ایودھیا میں بابری مسجد کے انہدام پر پھیلا تھا – اور پھر ایک سال تین ماہ بعد مارچ 1993 میں ممبئی میں سلسلہ وار بم دھماکوں کے بعد ایک بار پھر پھیل گیا تھا – 26 نومبر 2008ء میں ممبئی میں تاج محل ہوٹل اور ریلوے اسٹیشن وغیرہ پر حملوں سے ملیریا پھر پھیل گیا تھا-
تاج سنگھ چڈھا کو امرتسر اور دلی میں ملیریا سے اُس کی ماں نے بچایا اور ممبئی میں جب ایسا ملیریا پھیلا تب وہ سات دن تک کمرے میں بند رہنے کے کارن بچ گیا –
"تم 22 مارچ 1998 میں کہاں تھے؟”
میں نے یہ ساری تفصیلات بتاتے ہوئے اُس سے پوچھا؟
"میں یہیں ملتان میں تھا”
اُس نے فوراً جواب دیا
"تمہارے نام کا آخر” علی” ہے نا؟
” ہاں، تو؟ "
” اُن دنوں تُم نماز باجماعت پڑھتے تھے یا کسی مجلس عزا میں جاتے تھے؟ "
میں نے ایک اور سوال پوچھا-
“میں تب بھی گنہگار بے نمازی تھا اور آج بھی ہوں، ان دنوں مجلس عزا میں جانا پسند نہیں کرتا تھا”
اُس نے جواب دیا –
” تبھی تو بچ گئے – ان دنوں ملیریا مساجد میں عین نماز باجماعت ادائیگی کے وقت یا مجلس عزا میں شرکت کرنے والوں کو شکار کرتا تھا”
” نوے کی دہائی میں یہ ملیریا پنجاب میں پھیلا تھا اور اس نے اکثر فجر کے وقت مساجد کو اور دوپہر میں مجالس عزا پر حملے اختیار کر رکھے تھے جس نے پنجاب میں 2 ہزار لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا”
” یہ کیسا ملیریا تھا جو مساجد اور مجالس عزا کو اپنی لپیٹ میں لیا کرتا تھا؟ میں نے نہ تب نہ اب ایسے کسی ملیریاکی وبا کے پھیلنے بارے سُنا نہ دیکھا؟ "
اُس نے حیرانی سے سوال کیا
” نہ تم لال سنگھ چڈھا جیسے ہو نہ تمہاری ماں اُس جیسی، وگرنہ تمہیں ضرور پتا ہوتا کہ نوے میں کیسا ملیریا پنجاب میں پھیلا تھا؟ ان دنوں مسجد، مجالس عزا اور ملیریا ایک تلازمہ میں جڑے تھے اور بچتا وہی تھا جو لال سنگھ چڈھا جیسا ہوتا اور اُس کی ماں اُسے ملیریا پھیل جانے کی خبر دیتی اور وہ کمرے میں بند ہوجاتا تھا”
میں نے یہ کہہ کر دوبارہ لائٹر سے سگریٹ سُلگائی اور کَش پہ کَش لگانے لگا –
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر