حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا کیا حکومت نے سال 2002ء سے مارچ 2023ء تک کے تحائف (توشہ خان کے تحائف) کا ریکارڈ پبلک کردیا۔ 446صفحات پر مشتمل تفصیلات دلچسپ بھی ہیں اور باعثِ عبرت بھی۔ دلچسپ اس لئے کہ ان تفصیلات کو لے کر مختلف جماعتوں کے ہمدردان سوشل میڈیا پر اٙت اٹھائے ہوئے ہیں ۔
باعثِ عبرت اس لئے کہ جس شخص کو چوتھائی صدی کے عرصہ میں دیوتا، سچا، امین و صادق اور نجات دہندہ بناکر پیش کیا گیا وہ نہ صرف ’’اُن جیسا‘‘ ہی نکلا جن کے خلاف دیوتا سازی کا پراجیکٹ لانچ ہوا تھا بلکہ ’’چوروں‘‘ نے تحائف خریدے اور گھر لے گئے مگر دیوتا نے تحائف خریدے اور بازار میں فروخت کردیئے۔ خریدوفروخت کے عمل میں دیوتا نے قانون کو جوتے کی نوک پر رکھا۔
رکھنا بھی چاہیے تھا کیونکہ وہ دوسروں سے مختلف جو تھا البتہ ان تمام مردو زن اور ’’دیگرز‘‘ کو داد دینا بنتی ہے جو کہہ رہے ہیں انہوں نے بھی تو لئے اس لئے اگر دیوتا نے لئے تو کون سا قیامت ٹوٹ پڑی۔
بالکل قیامت نہیں ٹوٹی۔ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر قیامتیں ٹوٹا کرتیں تو اس ’’گولے‘‘ (زمین) پر باقی کیا بچ رہتا یہ بذات خود سوال ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں بلکہ ہر جگہ نجی طور پر ایک دوسرے کو دیئے جانے والے تحائف سینت سنبھال کر رکھے جاتے ہیں بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر یہ ہوتا ہوگا کہ کسی جانب سے ملا تحفہ دوسری جانب تحفے کی صورت میں آگے بڑھادیا جائے۔ تحائف عیدالفطر کی سویاں یا قربانی کا گوشت تھوڑا ہی ہیں کہ اس ہاتھ وصول کر اور دوسرے ہاتھ آگے بڑھادے۔
ایک مرحوم دوست کے مرحوم والد بزرگوار یاد آئے وہ جب تک زندہ رہے عیدالاضحی پر دو عدد جانور قربان کرتے اور فقط 2کلو گوشت اہل خانہ کے لئے رکھ کر باقی تقسیم کردیتے تھے۔ ایک بار ان سے کہا چچا آپ ایسا کیوں کرتے ہیں بولے بیٹا اگر قربانی ایثار کا جذبہ پیدا نہیں کرتی تو یہ فقط ڈھکوسلہ ہے۔
جب کبھی ان کی یاد آتی ہے دست دعا بلند کردیتا ہوں۔ ایک نئی بات سیکھنے کو ملی ان سے۔ پریشان نہ ہوں یہ بات ہمارے آج کے موضوع سے مطابقت نہیں رکھتی۔
قربانی اور ایثار، دونوں پر پھر کسی دن بات کرلیں گے۔ فی الوقت ہم توشہ خانہ کی بائیس سالہ تفصیلات پر بات کرتے ہیں جیالے متوالے اور ٹائیگران بنی گالہ جس پر جھوم جھوم جارہے ہیں، اپنا مچ روشن رکھنے کے چکر میں دوسروں کے مچ پر ’’پانی‘‘ پھینک رہے ہیں ورنہ بات سیدھی سادھی ہے۔ توشہ خانہ سے ہر دور کے قوانین کے مطابق تحائف خریدلینا کوئی جرم نہیں غالباً ماضی میں یہ سہولت بھی تھی کہ 30ہزار روپے تک کا تحفہ وہ شخص اندراج کرواکے خود بھی رکھ سکتا تھا جسے یہ ملا ہو
دیگر تحائف 15سے 20فیصد تک کی ادائیگی پر خریدے جاسکتے تھے۔ دیوتا اقتدار میں آیا تو اس نے اس قانون میں ترمیم کراکے نیا قانون بنوایا۔ اب اصل مالیت کے 50فیصد پر تحفہ خریدا جاسکے گا لیکن خود اس نے جو تحائف خریدے اس کے لئے قانون میں گنجائش پیدا کی 10کروڑ کے تحائف 2کروڑ1لاکھ 78ہزار روپے میں خریدے۔
بات یہاں تک رہتی تو کوئی بات نہیں تھی تنازع تب برپا ہوا جب یہ تحائف بازار میں فروخت کئے گئے اور فروخت کے عمل میں جعلسازی ہوئی۔ پہلی یہ کہ تحفہ فروخت کرنے کی جعلی رسید والے دن (یعنی تاریخ) ہی وہ قیمت سرکاری خزانے میں جمع کروائی گئی جو طے کرائی گئی۔
یہ طے کس نے کی اس پر بحث کی ضرورت نہیں۔ قصہ یہ ہے کہ دیوتا کے کارندوں نے تحائف فروخت کرنے کی رسید اسلام آباد کے ایک گھڑی ساز سے بنوائی (گھڑی ساز کہتا ہے رسید جعلی ہے) اور دیوتا کی اہلیہ کی کارندی فرح گوگی نے یہ تحائف دبئی میں عمر فاروق نامی شخص کو فروخت کئے۔
اس خریدار کے پاس خریداری کی دستاویز موجود ہیں۔ یہی بنیادی نکتہ ہے۔ یہ بات محض خفت مٹانے کی بھونڈی کوشش ہے کہ تحائف جس نے خریدلئے وہ اس کی ملکیت ہیں اب وہ رکھے یا فروخت کرے۔ آپ کو یا کسی کو اس سے کیا۔ ایک طرح سے یہ بات سستا موقف ہونے کے باوجود درست ہے لیکن حقیقت میں درست نہیں۔
کیا آج کی دنیا میں ایسی کوئی دوسری مثال بھی ہے کہ کسی سربراہ حکومت کو ملنے والے تحائف قوانین کے مطابق یا قانون میں ’’ادلی بدلی‘‘ کرکے خریدے گئے ہوں اور پھر مارکیٹ میں بیچ ڈالے گئے؟
ایسا صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہوا اور یہ کام کیااس شخص نے جس کے لئے ایک منظم میڈیا مینجمنٹ کے ذریعے زمین سے آسمان تک یہ فضا بنائی گئی کہ وہ ‘‘سب‘‘ سے مختلف ہے، ایماندار ہے، محب وطن ہے، سچا ہے۔ سپریم کورٹ نے تو صادق و امین بھی لکھ دیا تھا
ستم یہ ہے کہ جن ’’چوروں‘‘ کے مقابلہ میں دیوتا سازی کی گئی دیوتا ان کے مقابلہ میں کہیں ’’بودا‘‘ ثابت ہوا۔ محض تحائف کی خریدوفروخت میں ہی نہیں زندگی کے دوسرے معاملات میں بھی۔ اس نے اپنے حوالے سے سامنے آنے والی آڈیو ویڈیوز کو کبھی جعلی قرار نہیں دیا ہمیشہ دو باتیں کہیں اولاً یہ مختلف آڈیوز کے ٹوٹے جوڑ کر بنائی گئی ہیں۔
ثانیاً یہ اس بات کی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ وزیراعظم کے ٹیلیفون کون ٹیپ کرواتا رہا۔ اس سوال پر بھی خود دیوتا کا اپنا ایک پھڑکتا ہوا موقف ویڈیو کی صورت میں موجود ہے۔
آصف زرداری نے 5کروڑ کے تحائف ایک کروڑ 61لاکھ میں خرید لئے۔ اس نے بھی قانون کے مطابق خریدے۔ اب زرداری سے ضرور پوچھا جانا چاہیے، سئیں وہ تحفے آپ کے پاس موجود ہیں یا فروخت کردیئے؟
یہ سوال ان تمام لوگوں سے بنتا ہے جو تحائف خرید کر لے گئے۔ تحائف خرید کر لے جانے والوں کی فہرست لمبی ہے مرحوم جنرل پرویز مشرف نے شروع ہوتی ہے اور فواد حسن فواد پر جاکر رکتی ہے بلکہ آگے بھی چلتی ہے۔ مریم نواز کے بارے میں فواد چوہدری نے پہلے ٹیویٹ کی کہ وہ بھی اس فہرست میں شامل ہیں پھر ٹیویٹ ڈیلیٹ کر کے بھاگ نکلے ۔
اس ساری فہرست میں واحد خاتون مریم اورنگزیب ہیں جنہوں نے خود کو ملنے والے تحفے قوانین کے مطابق خریدنے کی بجائے تحائف توشہ خانہ میں جمع کراکر رسید رکھنے کو ترجیح دی۔ ایک خاتون کے طور پر ان کا ہمیشہ احترام ارہا آج اس میں اضافہ ہوا۔
ہمارے مرحوم و مغفور دوست چودھری الطاف حسین کا بھتیجا فواد حسین چودھری کل شام سے بہت اچھل کود رہا ہے۔ ارے بھلے جہلمی، سوال یہ نہیں کہ کس نے کیا کیا اور بہتی گنگا میں ہاتھ کس نے دھوئے اور کون گنگا میں ’’اُتر‘‘ گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا توشہ خانہ سے خریدے گئے تحائف بازار میں فروخت کرنا جرم ہے یا نہیں، کوئی اخلاقی یا قانونی جرم؟ سوال یہ ے کہ 50فیصد ادائیگی والا قانون بنایا گیا پھر اس میں دلہن ایک رات کی طرح کی ترمیم کرکے 20فیصد کے پرانے قانون کے مطابق تحائف خریدے گئے اور رقم اسی دن سرکاری خزانے میں جمع کرائی گئی پھر یہ آگے فروخت کردیئے گئے۔
یہ دیوتا کے خریدوفروخت والے معاملے میں ہوا۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر دیوتا کے تحفے کسی کارندے یا کارندی نے اسلام آباد کے گھڑی ساز کے پاس فروخت کئے تھے جس کی رسید ابتداً سامنے لائی گئی تو پھر دبئی والے عمر فاروق کے پاس تحفے کون لے گیا فروخت کرنے۔
کیونکہ اس پاس دیوتا کی اہلیہ کی ایک کارندی فرح گوگی سے خریداری کی دستاویزات موجود ہیں اب تو نیب کی ایک تفتیشی ٹیم ان دستاویزات کی مصدقہ قانونی نقول حاصل کرچکی۔ کڑوا سچ یہی ہے کہ دیوتا ایک عام بودا شخص ثاثب ہوا۔
اس کی اہلیہ نے بھی توشہ خانہ کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور جی بھر کے لوٹا۔ وہ چونکہ ’’گھریلو‘‘ خاتون ہیں اس لئے انہیں زیربحث نہیں لاتے۔
دیوتا تو سیاستدان ہے مسیحا، نجات دہندہ بااصول سچا۔ اب کیا یہ خوبیاں اس میں کبھی بھی نہیں تھیں لیکن میڈیا مینجمنٹ میں یہ خوبیاں گھڑی گئیں۔ میڈیا مینجمنٹ پر وسائل برباد کرنے والے ہی ہمارے اصل مجرم ہیں۔
ہم ایسے لوگوں کو عشروں قبل معلوم تھا کہ جسے دیوتا بناکر پیش کیا جارہا ہے اس نے کیری پیکر والے معاملے میں بھی پیسے کو ملک پر ترجیح دی تھی۔ 2014ء کے دھرنے میں 3اور 4 محرم کی شب ڈی چوک میں کیا ہوا اور پھر تین دن بعد کیا یہ بھی کوئی راز نہیں لیکن اس پر بحث فضول ہوگی۔
شریعت جس معاملے میں خاموش ہو اس میں خاموش رہنا ازبس ضروری ہے ۔
اچھا ویسے شریعت جن امور میں بدلتی رہتی ہے ان امور کی شرعی نزاکتوں کو یہاں کون مدنظر رکھتا ہے۔
حاصل کالم یہ ہے کہ دیوتا گیری کا یہی نتیجہ نکلنا تھا اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ