نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملتان اور ملتانی ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزشتہ سپہر سے ملتان میں ہوں، ملتان جنم شہر ہے تعارف کا معتبر حوالہ۔ یہ میری امڑی سینڑ کا شہر بھی ہے۔ نصف صدی سے کچھ اوپر وعظ کرنے والی بی بی جی سیدہ عاشو بی بیؒ میری امڑی سینڑ ہیں۔ دو عشرے ہوچلے وہ اپنے ہی جنم شہر کی مٹی میں آسودہ خاک ہیں۔ مائوں کے دم سے گھروں اور اولاد کے دلوں میں جو رونق ہوتی ہے وہ پھر نہیں ہوتی جب مائیں دنیا سرائے سے پڑائو اٹھاکر رخصت ہوجائیں۔

میری امڑی نے ایک بار مجھ سے کہا تھا ’’میرے لعل ماوں کے بغیر اولاد کے لئے ہر شہر مدینہ ہی ہوتا ہے‘‘۔

ملتان ہم جیسے ملتانیوں کے لئے سبھی کچھ ہے۔ شاعر نے تو فرشتوں کو بھی کہہ دیا تھا کہ ذرا آہستہ قدم رکھنا۔ ایک شاعر نے اس شہر کو جنت سے اعلیٰ و ارفع قرار دیا۔ ہمزاد فقیر راحموں نے ایک بار کہا ’’دو جہاں وار دوں ملتانی مٹی کی سوندھی خوشبو پر‘‘۔

یار لوگ اس کی جان کو آگئے وہ تو شکر ہے اس نے یہ بات جب کہی تھی ان دنوں گلی محلوں میں توہین والی ’’ہٹیاں‘‘ نہیں کھلی تھیں۔ دوچار تلخ تبصروں اور صلواتوں پر کام رک گیا۔

اکثر دوست کبھی کبھی کہتے ہیں، یار اپنی امڑی سینڑ اور ملتان کا ذکر جس وارفتگی سے کرتے ہو ہمیں رشک آتا ہے لیکن کیا کیجئے اپنے تعارف کے دو ہی تو حوالے ہیں۔ وعظ والی بی بی جیؒ کا بیٹا ہونا اور ملتانی ہونا۔

پچھلی سپہر کے بعد سے چند دوستوں سے ملاقاتیں رہیں۔ ملتان کی پہلی شام برادرانِ عزیز حارث اظہر اور میر احمد کامران مگسی کے ساتھ گزری خوب گپ شپ رہی ہم نے دنیا جہان کے موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔

حارث اظہر ہمارے صاحب مطالعہ دوست ہیں یہ ہمارے استاد مکرم سید حیدر عباس گردیزی مرحوم کے بھی دوست تھے۔ ایک بار کہنے لگے میں نے شاہ جی (سیدی حیدر عباس گردیزی) سے کہا شاہ جی فلاں کالم نگار مجھے پسند ہیں۔ پھر پسندیدگی کی کچھ وجوہات بتائیں۔ شاہ جی مسکراتے ہوئے کہنے لگے، اپنڑا بال اے (اپنا برخوردار ہے) اب کبھی ملتان آیا تو اسے بلائوں گا پھر اس سے باتیں کریں گے۔

سیدی کی وفات سے قبل ایک ملاقات میں میر احمد کامران مگسی بھی تھے سیدی نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ حارث تم سے بہت متاثر ہے آج اس کی دفتری مصروفیات ہیں وہ وعدے کے باوجود نہیں آپایا آتا تو میں اس کی پسندیدگی کا امتحان لیتا۔ میں نے استاد مکرم کے گھٹنے چھوتے ہوئے کہا سیدی ہم ملتانیوں کی اس خوش قسمت نسل میں ہیں جنہیں آپ جیسے مربی و استاد ملے۔ بھرپور شفقت سے بولے ہم صرف رہنمائی کرسکتے تھے یہی ہمارا فرض ہے۔

گزشتہ شام پھر استاد مکرم کی یادوں اور باتوں سے بھر گئی حارث اظہر سے ملتان میں ملاقات نہ ہو یہ ممکن نہیں اور ملاقات میں سیدی مرحوم کا ذکر نہ ہو یہ تو بالکل بھی ممکن نہیں۔ سیدی بڑے نستعلیق صاحب مطالعہ اور وضعدار انسان تھے۔ کورونا وبا اجل بن کر جن مربیوں بزرگوں اور محبوب شخصیات کو لے اڑی سیدی حیدر عباس گردیزی بھی ان میں شامل ہیں۔ ملتانی وسوں اپنے لائق فائق فرزند کو کھو بیٹھی کورونا وبا کے موسم میں۔

اس بد موسم میں ہی ہماری وسوں کے بہت سارے نجیب لوگ زندگی کا سفر طے کر کے رخصت ہوگئے۔ حاجی ملک شفقت بھٹہ صاحب اور حکیم محمود خان ایڈووکیٹ اسی وبا کے موسم میں اپنے پیاروں اور احباب کو چھوڑ کر چل دیئے۔

حاجی ملک شفقت بھٹہ اس شہر دلدار ملتان کا روشن چہرہ تھے۔ مرنجا مرنج شخصیت۔ انسانیت پرست، کُل کی خیر کُل کا بھلا سوچنے والے۔ وہ سماجی وحدت کے علمبردار تھے۔ ایک ایسے وقت میں، جب توڑنے والے آپ کو ہر گلی کی نکڑ پر مل جاتے ہوں گے ملک شفقت بھٹہ صاحب جوڑنے والے شخص تھے۔

حکیم محمود خان ایڈووکیٹ نے سیاست کے میدان میں زمانہ طالب علمی میں قدم رکھا تھا عملی سیاست کے میدان میں آئے تو مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان کی پی ڈی پی میں شامل ہوگئے۔ کچھ عرصہ منظور آباد چوک پر واقع اپنے والد کے مطب پر بھی بیٹھے۔ حکمت ان کے خاندان میں نسل در نسل چلی آرہی تھی۔ پھر ایک دن حکیم محمود خان مطب سے نکلے لاء کالج میں داخلہ لیا اور قانون کی تعلیم مکمل کر کے وکیل ہوگئے۔

وکالت خوب چلی اور نبھی اچھے خاصے مصروف وکیلوں میں شمار ہوئے لیکن ان کا چیمبر سائلوں سے زیادہ دوستوں کا آستانہ بنا رہاہے جہاں سائلوں سے فیس میں ملنے والی رقم کا بڑا حصہ دوستوں کی تواضع پر صرف ہوتا۔ ایک دن خبر ملی کہ کورونا وبا انہیں کھاگئی۔

اس کورونا وبا نے میری امڑی سینڑ کے شہر کے کیسے کیسے نابغوں کو رزق بنایا کبھی کبھی یہ لوگ یاد آتے ہیں تو جی کرتا ہے کہ اونچی آواز میں جی بھر کے رویا جائے۔

ملتانی ملتان میں ملتان کا ذکر چھیڑے اور یادیں دستک نہ دیں یہ ممکن نہیں۔ اب دیکھئے نہ بات کہاں سے شروع ہوئی اور کدھر چلی پڑی۔ اچھا یہ حال صرف ملتانی کا ملتان میں نہیں ہوتا ملتان سے دور دو ملتانی کہیں مل جائیں سہی پھر جو ذکر یار دلنواز ملتان شروع ہوتا ہے وہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔

یقیناً دوسرے شہروں کے لوگ بھی اپنے شہروں سے اتنی ہی محبت کرتے ہوں گے جتنا وہ شہر حقدار ہوں۔ لیکن ملتان اور ملتانی دونوں وکھری قسم کی چیز ہیں دونوں ایک دوسرے کے اندر عاشق و معشوق کی طرح بستے ہیں بس پتہ نہیں چلتا کہ عاشق کون ہے اور معشوق کون۔

مطلوب کون ہے مقصود کون۔

ملتان آمد کے بعد کی اگلی صبح اویسی خاندان کے چشم و چراغ شیراز اویسی نوجوان شاعر روفی سرکار کے ہمراہ ملاقات کے لئے آئے۔ شیراز اویسی پوری یادگیری کے ساتھ اپنے ملتان میں مقیم ایک پردیسی ملتانی کو ملتان کا روایتی ناشتہ ضرور کراتے ہیں۔ اپنی روایت انہوں نے اس بار بھی قائم رکھی۔ محفل تو ناشتے کی میز پر ہی جم گئی تھی پھر دو اڑھائی گھنٹے خوب جمی رہی ۔ شیراز اویسی ان ملتانیوں میں سے ہیں جو اپنے سیاسی تعلق کو دوستی پر اثرانداز نہیں ہونے دیتے اپنے اسی وصف کی بدولت وہ دوستوں کے مختلف حلقوں کے لا ڈلے ہیں۔ ہمارے فقیر راحموں کے تو وہ جگری یار ہیں۔ فقیر راحموں کی وجہ سے ہماری بھی سن برداشت کرلیتے ہیں۔

شیراز اویسی ملاقات کے لئے آتے ہیں تو سوالات کی ایک پوٹلی باندھ کر ساتھ لانا نہیں بھولتے۔ ایک کے بعد دوسرا سوال ، حالیہ ملاقات میں بھی یہی ہوا۔ نوجوان شاعر روفی سرکار انجمن متاثرین عمران خان ہیں انہوں نے اپنی کہی اور خوب کہی۔ مطالعے نے انہیں برداشت کا حوصلہ عطا کیا ہے اسی وجہ سے انہوں نے ہمیں برداشت بھی کیا اور ہماری باتیں سنیں بھی۔ دونوں عزیزوں سے خوب محفل جمی۔

فقیر راحموں کے خلیفہ اول ملک قمر عباس اعوان آجکل جنرل منیجر ہیں اپنی کمپنی میں۔ منصب میں ’’جنرل‘‘ کا لفظ بھی شامل ہے۔ فرقان عباس حیدر ان کے ہمراہ تھے۔ ڈر ہی لگا رہتاہے کہ کسی دن فقیر راحموں کی طرح وہ بھی یہ نہ کہہ دیں ’’آئی ڈونٹ لائق پوئر لوگ اینڈ غریب پیپل‘‘۔

ان سے بھی ملاقاتیں رہیں موصوف اپنی کمپنی کی طرف سے ملتان کے آفیشل دورہ پر تھے۔ ملتان کا ذک چھڑا تو ڈھیروں باتیں ہوگئیں۔ فقیر راحموں کے ایک اور لاڈلے حسن رانا کی زیارت بھی خوب رہی۔ ابھی ملتان میں ہی ہیں ہم اور فقیر راحموں بھی امڑی سینڑ کی تربت کو بوسہ دینا ہے۔ ملتانی دوستوں کی زیارت کرنی ہے۔

ملتانی منڈلی اور ملتانی سنگت کی الگ الگ نشستوں میں شرکت مقصود و مطلوب ہے۔ کوشش تو ہے کہ اس بار کسی نہ کسی طریقے سے شہر کی خاک چھانی جائے دیکھتے ہیں کیا وسیلہ بنتا ہے۔ وسیلے کے بغیر تو مسائل ہی مسائل ہیں۔

آجکل تو چند قدم چلنے کے لئے سٹک وسیلہ ہے۔ کالم کے دامن میں گنجائش کم رہ گئی ہے ملتان اور ملتانیوں کا ذکر کئی کالموں کا متقاضی ہے۔ ملتان اور ملتانی شادوآباد رہیں ہمارا ان کے سوا اور کون ہے یہی ہمارا چہرہ اور تعارف ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author