عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگست کے مہینے کے آخر میں سرائیکی وسیب کے ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں طوفانی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا- ان طوفانی بارشوں نے سیلاب کی شکل اختیار کی – ڈیرہ غازی خان، راجن پور اضلاع کے اکثر و بیشتر علاقوں میں سیلاب نے تباہی مچانا شروع کردی – اس دوران قریب قریب 30 دن تحصیل، ضلع اور ڈویژن کی انتظامیہ، متعلقہ صوبائی ادارے، این ڈی ایم اے سب کے سب کسی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے پیشگی ہنگامی منصوبہ بندی، انتظامات سے عاری پائے گئے-
30 دن تک پاکستان کے بڑے میڈیا گروپ جن کے اخبارات ملتان سے نکلتے ہیں اور اُن کے ٹی وی چینلز کے پاس ہر ڈویژن میں بیورو آفس، ہر ضلع، تحصیل اور سٹی میں نمائندوں کا نیٹ ورک موجود ہے جبکہ اخبارات کے پاس تو یونین کونسل تک نمائندگی موجود ہے – لیکن 30 روز تک کسی میڈیا گروپ نے سرائیکی بیلٹ میں ڈیرہ غازی خان، تحصیل تونسہ اور راجن پور اس کی تحصیلوں میں ٹوٹ پڑنے والی آفت اور اس سے جڑے ایشوز پر کوئی بڑی کوریج نہ کی –
سوشل میڈیا پر پہلی بار سرائیکی وسیب کے عام آدمی نے قومی میڈیا کہلانے والے گروپوں کے کردار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا-
انھیں شدت سے یہ احساس ہوا کہ جس طرح صوبائی اور وفاقی حکومتوں میں براجمان وسیب کے اشراف سیاست دانوں کو اُن کی پرواہ نہیں ہے ایسے ہی خود کو عوامی صحافت کا علمبردار بتانے والے نام نہاد قومی میڈیا کو اُن کی پرواہ نہیں ہے –
جب تنقید بہت زیادہ بڑھی تب حکومتوں نے حرکت شروع کی اور اس دوران عالمی برادری نے سیلاب متاثرین کی فوری مدد کے لیے امدادی سامان بڑی تعداد میں بھیجا جسے این ڈی ایم اے نے ضلعی ایڈمنسٹریشن جس کا سربراہ ڈپٹی کمشنر ہے کے سپرد کردیا –
ایک بار پھر اس نام نہاد قومی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا نے فوری امداد بارے ضلعی سطح پر ایڈمنسٹریشن کی کارکردگی بارے کوئی تحقیقاتی رپورٹنگ گراس روٹ لیول پر نہیں کی اور نہ ہی پرنٹ میڈیا نے فرنٹ اور بیک پیج پر اس حوالے سے مستقل عنوان دیکر عام آدمی کو صورت حال سے آگاہ کرنے کا سامان فراہم کیا-
الیکٹرانک میڈیا نے پرائم ٹائم بلیٹن میں انفارمیشن آفس کے سرکاری مراسلوں سے ہٹ کر ضلعی سطح کی انتظامیہ بارے تحقیقاتی رپورٹس کو جگہ دی –
اس وقت سیلاب متاثرین کے نقصان کا تخمینہ لگانے کے لیے سروے کیا جارہا ہے –
متاثرین سیلاب کے نقصانات کا اندازہ لگانے کے لیے محکمہ مال کا فیلڈ اسٹاف سرگرم عمل ہے – سیلاب سے متاثر عام گھرانوں کی کیا مشکلات ہیں؟
سروے پر مامور فیلڈ ریونیو اسٹاف اُن کے ساتھ کیا سلوک کررہا ہے اس بارے ملتان سے شایع ہونے والے روزناموں کے نمائندوں اور الیکٹرانک میڈیا کے بیورو دفاتر نے روزانہ کی بنیاد پر کتنی رپورٹ تیار کیں اور وہ کتنی ہر گھنٹے میں چلنے والے نیوز بلیٹن کی اولین ہیڈلائن کا حصہ بنیں؟
اس سوال کا جواب پھر نہایت مایوس کُن صورت حال ظاہر کرتا ہے –
ان دنوں سب سے تازہ ایشو متاثرین سیلاب میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت فی گھرانہ 25 ہزار روپے کی امدادی رقم کی تقسیم کا ہے –
ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے ہر ضلعی صدر مقام، تحصیل صدر مقام اور بڑے مواضعات میں جن بینکوں کے زریعے سے اس رقم کی تقسیم کے لیے احساس کفالت سنٹرز اور عام ریٹیلرز کا جو نظام وضع کیا گیا ہے اُس بارے ایک شکایت عام دیکھنے کو مل رہی ہے کہ بینک حکام رشوت لیکر ایسے لوگوں کو ریٹلر بنارہے ہیں جہاں متاثرین سیلاب کے گھرانوں کی مستحق عورتوں کے لیے نہ تو سائے کا انتظام ہے، نہ بیٹھنے کی جگہ ہے اور نہ ہی پینے کا پانی میسر ہے- دوسرا احساس کفالت سنٹرز بہت کم ہیں اور ریٹیلرز بھی انتہائی کم ہیں – اس صورت حال میں ایک طرف متاثرین سیلاب سے فی کس ایک ہزار روپے کی ناجائز کٹوتی ریٹلر کررہے ہیں – دوسری طرف جعل ساز متاثرین سیلاب کو جلد رقم کی وصولی کے نام پر اُن کے انگوٹھے کے نشان لیکر سلیکان انگوٹھوں کے زریعے سے انھیں رقوم سے بھی محروم کررہے ہیں-
مراکز اور ریٹیلرز کم ہونے کے سبب متاثرین سیلاب کی لمبی لمبی قطاریں بلکہ بے ہنگم کٹھ کہیں ہوجاتا ہے جن کو ڈسپلن میں رکھنے کے نام پر پولیس کے نوجوان تعینات کیے جاتے ہیں جن کے ہاتھوں سیلاب متاثرین کو روز نئی زلت، تحقیر اور تشدد تک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے –
ملتان سے شایع ہونے والے نام نہاد قومی اخبارات، اور اُن کے ٹی وی چینلز اتنے بڑے ایشو اور اس ایشو کے ساتھ پیدا ہونے والے انسانی المیوں کو مرکزی اہمیت دینے پر زرا توجہ نہیں کررہے – وہ کمشنر، ڈپٹی کمشنرز، اسٹنٹ کمشنرز ،تحصیل دار، پٹواری اور جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ میں بیٹھے متعلقہ سیکرٹری صاحبان کی اپنی زمہ داریوں سے غفلت بلکہ ہنگامی این ڈی ایم اے کی طرف سے بھیجی گئی امداد کا بڑا حصہ خرد برد کرنے جیسے اسکینڈلز کو رپورٹنگ میں مرکزی توجہ کا درجہ دینے میں جیسے ناکام ہوئے ویسے ہی وہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت متاثرین سیلاب میں امدادی رقوم کی ترسیل کے میکنزم سے جڑے مسائل کو تحقیقاتی رپورٹنگ کے زریعے سے سامنے لانے میں ناکام ہوئے ہیں –
ملتان، ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور تین ڈویژنوں کی عوام کے جو بنیادی مسائل ہیں اور ان کے حل میں ناکامی کے جو زمہ دار ادارے ہیں اُن کے متعلق تحقیقاتی رپورٹنگ ملتان مرکز سے شایع ہونے والے اخبارات اور اُن کے ٹی وی چینلز پر پرائم بلیٹنز میں مرکزی توجہ پانے سے محروم رہتی ہے – اندرونی صفحات میں سنگل اور دو کالمی خبریں جن میں تحقیقاتی رپورٹنگ کی بجائے حقائق، معروضی صورت حال، اعداد و شمار کا فقدان ہوتا ہے – اکثر اضلاع میں ڈی پی او، ڈی سی او، سی ای او ہیلتھ ، سی او میٹروکارپوریشن، میونسپل کمیٹی، ایم این ایز، ایم پی ایز، سیکرٹری یا وزراء کے حوالے سے سرکاری مراسلوں کو من و عن شایع کردیا جاتا ہے جبکہ عوامی ایشوز کو سنگل کالمی جگہ ملتی ہے-
فرنٹ اور بیک اکثر اشراف کے بیانات کا نام نہاد جرنلزم گھیرے ہوتا ہے-
یہ وہ نام نہاد قومی اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا ہے جو سندھ میں سندھی زبان میں روزنامے اور سندھی زبان کے ٹی وی چینلز کے اجراء پر خود کو مجبور پاتا ہے اور وہاں فرنٹ، بیک پیجز پر اور پرائم بلیٹن میں علاقائی ایشوز کو سرفہردت رکھتا ہے کیونکہ وہاں سندھی زبان کے علاقائی میڈیا گروپ طاقتور شکل میں موجود ہیں –
لاہور اور کراچی کے طاقتور میڈیا گروپس سرائیکی وسیب کے سرکاری علاقائی اخبارات اور چینلز کے لیے مختص اشتہاری فنڈز کا نناوے فیصد ہڑپ کرجاتے ہیں جبکہ انھوں نے ملتان میں اپنے دفاتر کے اسٹاف کے 75 فیصد ملازم صحافیوں کو فارغ کردیا ہے-
روزنامہ ایکسپریس، روزنامہ دنیا نیوز، روزنامہ 92 نیوز ، روزنامہ پاکستان اپنے سسٹم کو سنٹرلائز کرچکے جبکہ یہاں ریذیڈنٹ ایڈیٹر اور ایڈیٹر کے عہدے ٹھیکے پر اٹھادیے ہیں – روزنامہ خبریں ملتان جو ایک وقت میں سب سے بڑا ملازم صحافیوں کا اسٹاف رکھتا تھا اُس نے ابھی ایک ہفتہ پہلے ریذیڈنٹ ایڈیٹر سمیت 30 سینئرز صحافیوں کو نکال باہر کیا-
روزنامہ نوائے وقت کی مالک رمیزہ نظامی نے خبریں گروپ کے اسٹائل میں ملتان میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر شپ اور انچارج نمائندگان و شعبہ مارکیٹنگ کو سالانہ ٹھیکے پر دے دیا اور باقی معاملات لاہور ہیڈ آفس سے چلائے جارہے ہیں-اخبار میں پہلے اور آخری صفحے پر کیا چھپے گا اس کا تعین بھی لاہور ہیڈ آفس کرتا ہے –
ان میڈیا گروپوں کا جو انگریزی اخبارات کا پرانا سیٹ اپ ملتان میں تھا اُس کی بساط بھی بتدریج لیپٹی جارہی ہے –
ڈان میڈیا گروپ نے اپنے انگریزی اخبار کے لیے قائم بہاول پور، ملتان میں بیورو آفس ختم کردیے – اکثر اضلاع میں نمائندگی ختم کردی- جبکہ دی نیشن کا ملتان بیورو اسٹیشن کافی عرصے سے بند پڑا ہوا ہے – دی نیوز انٹرنیشنل جنگ میڈیا گروپ کا ملتان میں بیورو آفس ختم ہوچکا، ایک نمائندے سے کام چلایا جارہا ہے –
جبکہ جنوبی پنجاب کے 11 اضلاع میں اکبراسٹیشن دو عشروں سے خالی پڑے ہیں –
کسی میڈیا گروپ نے یہاں سے آج تک سرائیکی روزنامہ کا اجراء نہیں کیا –
ملتان جیسے بگ سٹی میں ان میڈیا گروپوں نے اپنے اسٹاف رپورٹر کو ایک سے زائد بیٹ دے رکھی ہیں –
یہ نام نہاد میڈیا گروپ ملتان اور بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان میں ڈویژنل صدر مقام پر ٹاپ بیوروکریٹ، مافیا کی شکل اختیار کرانے والے ایگریکلچر اور پی سٹی سائیڈ بزنس، فوڈ اینڈ بیوریجز مینوفیکچررز کی عام شہری صارف اور کسانوں سے کی جانے والی لوٹ مار اور سرکاری ٹیکسز کی چوری اور ماحولیات کی تباہی سے متعلق کوئی تحقیقاتی رپورٹ شایع یا نشر نہیں ہونے دیتے –
روزنامہ بیٹھک نیوز ملتان کی اشاعت اور اس کے ایچ ڈی نیوز یو ٹیوب چینل کا اجراء علاقائی مسائل پر تحقیقاتی رپورٹنگ کو نظر انداز کیے جانے، بیوروکریسی کو ناخدا بنائے جانے اورقدس گائے کا درجہ دیے جانے کے غالب رجحان کو توڑنے کے لیے کیا گیا ہے –
ہم اس راستے کی مشکلات سے بخوبی واقف ہیں – بلکہ یوں کہیں کہ اس راستے کے نتائج و عواقب سے بھی بخوبی واقف ہیں – یہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے –
ہمارے پاس اس وقت مختلف بیٹ کا کم از کم 25 سال کا تجربہ رکھنے والے ایسے بہترین اسٹاف رپورٹرز کی ٹیم ہے جنھوں نے ملتان سے شایع ہونے والے بڑے اخبارات میں کام کیا اور اس دوران انھوں نے اپنے آپ کو کمپرڈور مڈل کلاس ک حصہ نہ بننے پر راضی کیا اور 25 سال میں وہ سیکنڈ ہینڈ موٹر سائیکل سے لگژری گاڑی کے سفر کو طے نہ کرسکے جبکہ ان 25 سالوں میں جنوبی پنجاب کے مضافات سے ہجرت کرکے روزگار کی تلاش میں ملتان آکر کرائے کے گھر سے وہ اپنے زاتی مکان بھی نہیں بنا پائے جبکہ ان میں سے کچھ تو پریس کلب کی ممبر شپ بھی نہیں لے سکے – اور جنھیں صحافتی کالونی میں پلاٹ ملا، اُس پر مکان بنانے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے اور گھرانے کے کسی فرد پر پڑنے والی مصیبت میں وہ پلاٹ بھی اونے پونے داموں بیچ کر ملتان میں ذاتی گھر ہونے کے خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے سے بھی محروم ہوگئے –
نام نہاد قومی میڈیا گروپوں کی کنٹریکٹ ملازمت کے دوران جب گھٹن اور دباؤ شدید ہوا تو روزنامہ بیٹھک نیوز کو تازہ ہوا کا جھونکا سمجھ کر اس سے وابستہ ہوئے اگرچہ یہاں تنخواہ بس گزارے لائق ہی ملنی تھی –
ہمارا چیف رپورٹر ملک اعظم ایسا ہی صحافی ہے جو ملتان کرائے کے گھر کی استطاعت بھی نہیں رکھتا روزانہ مظفر گڑھ سے چل کر وہ ملتان آفس موٹر سائیکل پر آتا ہے اور رات گئے واپس ہوتا ہے – اُسے کرپٹ بیوروکریسی جو عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھتی ہے کی نقاب کُشائی جس کی اجازت طاقتور میڈیا گروپ ہرگز نہیں دیتے سزا ایک عورت کے اغواء کے جھوٹے مقدمے میں ملوث کیے جانے کی صورت میں دی گئی تھی اور مقصد یہ تھا کہ روزنامہ بیٹھک نیوز ملتان سے اُسے الگ کیا جاسکے – اُسے علیحدگی کی صورت میں کسی بھی من پسند میڈیا گروپ میں بھاری تنخواہ اور ساتھ ماہانہ رشوت کی پیشکش بھی کی گئی تھی لیکن اُس نے آزادانہ صحافت کو ترجیح دی- وہ ملتان کے کسی ایک بڑے اشراف سیاسی خانوادے کا ترجمان صحافی یا کسی ایک بڑے بزنس گروپ کے میڈیائی مفادات کا محافظ بلکہ دلال کہیں بنکر پرآسائش زندگی گزار سکتا تھا لیکن اُس نے ایسا کچھ بھی کرنے سے انکار کیا – جھوٹے مقدمے میں گرفتاری کے بعد وہ رہائی پاگیا مگر اپنی روش پر قائم ہے –
ہم سرائیکی وسیب کے حقیقی مسائل اور اُن کے حل میں ناکامی کے مبینہ زمہ داروں بارے تحقیقاتی رپورٹنگ پر مبنی صحافت کے فروغ کی پالیسی پر کاربند ہیں – سرائیکی وسیب کے سرکاری اور غیر سرکاری اجارہ دار اس پالیسی کو ‘رجحان’ بننے اور روایت بنتے دیکھنے سے خوفزدہ ہیں – کیونکہ یہ رجحان کامیاب ہوا اور روزنامہ بیٹھک نیوز جو اس وقت 40 ہزار کی تعداد کو کراس کرنے کی پوزیشن میں آچکا ہے اور اس کی ڈیجیٹل رسائی ایک لاکھ کا ہدف عبور کر کی ہے تو یقینی بات ہے کہ اس رجحان کے علمبردار بن کر کئی اور میڈیا گروپ اس میدان میں اتریں گے- اگلا دور پرنٹ میڈیا میں ریجنل اور میٹروپولیٹن اخبارات کا ہے جن کے ڈیجیٹل ایڈیشن تک لاکھوں افراد کی رسائی ہوگی اور یہ رسائی کارپوریٹ سیکٹر سے اشتہارات کے سیلاب کو دعوت دے گی اور اس سے ایسے ریجنل اخبارات معاشی استحکام پکڑیں گے – ہماری تحقیقاتی اسٹڈیز کے مطابق صرف ملتان کی اربن آبادی سے ہی ایک اچھے تحقیقاتی رپورٹنگ سے آراستہ اخبار کو ایک لاکھ ریڈرشپ اور اس کے یوٹیوب ایچ ڈی نیوز چینل کو 20 لاکھ ویورز میسر آسکتے ہیں – جو نام نہاد قومی روزناموں کی فرضی ریڈرشپ اسسمنٹ سے کہیں زیادہ ہے – سرائیکی وسیب کو الگ صوبہ بنانے کے لیے رائے عامہ میں بیداری کی کنجی بھی علاقائی صحافت کے فروغ میں چھپی ہوئی ہے – یہ اشراف پرست سیاست کو عوامی ایشوز کے گرد گھومنے والی سیاست کے فروغ میں بدلنے کی اہلیت بھی رکھتی ہے – شرط یہ ہے کہ اجتماعی مفاد پر زاتی مفاد اور زاتی ترقی کو مقدم نہ رکھا جائے-
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر