مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک ادھیڑ عمر شخص ہے جو اپنی خیالی دنیا میں رہتا ہے۔ وہ سورما بننا چاہتا ہے لیکن اصل میں احمق ہے۔ وہ کئی نامعلوم دشمنوں سے لڑتا ہے اور مصنوعی مہمات سر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بظاہر اس کا مقصد نیک ہے کیونکہ وہ اپنا نظام بدلنا چاہتا ہے اور غریبوں کی اپنے تئیں مدد کا خواہش مند ہے۔ وہ اپنے ساتھی سے وعدہ کرتا ہے کہ جب وہ کامیاب ہوجائے گا تو اسے گورنر بنادے گا۔ مسئلہ سارا یہ ہے کہ نہ کوئی ملک کا دشمن ہے، نہ معاشرے میں کوئی تبدیلی ہے بلکہ قریبی ساتھی بھی موقع پرست ہے۔
یقین کریں، میں کسی پاکستانی سیاست دان کا خاکہ نہیں لکھ رہا، ایک ناول کے مرکزی کردار کی بات کررہا ہوں۔
اس ناول کا نام ڈان کی ہوٹے ہے جو مذہبی اور نظریاتی کتابوں کو چھوڑ کر دنیا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ہے۔ میگوئل ڈی سروینٹس کے اس ناول کی 50 کروڑ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ یہ 400 سال پہلے ہسپانوی زبان میں لکھا گیا اور اب تک 140 زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔
ڈان کی ہوٹے کا پہلا حصہ 1605 اور دوسرا 1615 میں شائع ہوا۔ اسے جدید ادب کا پہلا ناول اور عظیم ترین تخلیقات میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ بعد کے متعدد ادیبوں نے اس سے متاثر ہوکر ناول لکھے۔ ان میں الیگزینڈر ڈوما کا دا تھری مسکیٹیئرز، مارک ٹوئن کا ایڈونچرز آف ہکلبری فن، ایڈمنڈ رسٹینڈ کا سائیرینو ڈی برجرک اور حال میں سلمان رشدی کا کی شوٹ شامل ہیں۔ ناول کی مقبولیت کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ کی ہوٹک ایک اصطلاح بن گئی جس کا مطلب ہوا، خیالی پلاو پکانا۔
پرسوں میں نے اپنی وال پر چند ایسی کتابوں کا ذکر کیا تھا جو اردو میں ترجمہ نہیں ہوئیں۔ ان میں اس ناول کا نام بھی لکھ دیا۔ پھر محترم صبغت وائیں نے تصحیح کی کہ اس ناول کا اردو ترجمہ ہوچکا ہے۔ فسانہ آزاد لکھنے والے اور الف لیلہ کا ترجمہ کرنے والے رتن ناتھ سرشار نے ڈان کی ہوٹے کا ترجمہ بھی کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ آزاد ترجمہ تھا اور انھوں نے اس میں بے شمار اشعار شامل کیے تھے۔
میں نے گوگل ڈرائیو کے ایک فولڈر میں ڈان کی ہوٹے کے 1605 اور 1615 کے اولین ہسپانوی ایڈیشن، دو حصوں میں انگریزی میں چھپنے والا ایڈیشن اور رتن ناتھ سرشار کا ترجمہ جمع کردیا ہے۔ اس کا لنک کتب خانے والے فولڈر میں شئیر کردیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر