عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کُوفہ سے امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شہادت اور امام حسن علیہ السلام کی دستبرداری کے بعد بڑے پیمانے پر شیعان علی علیہ السلام کی ہجرتوں، بے دخلی کا مرکز رہا –
ہمیں کتب تواریخ سے اس حوالے سے بڑی ہجرت کا سُراغ مغیرہ بن شعبہ کے بعد گورنر بننے والے زیاد اور اُس کے ڈپٹی گورنر سمرۃ بن جندب کے دور میں ملتا ہے – اُس زمانے میں شیعان علی ابن ابی طالب کی بہت بڑی تعداد جزیرہ(موجودہ بحرین) میں جاکر آباد ہوتی نظر آتی ہے جہاں صحابی رسول حذیفہ الیمان کے بیٹے کی حکومت تھی – زیاد اور سمرۃ بن جندب کے زمانے میں کوفہ اور اس کے گرد و نواح میں ایک لاکھ لوگ امارت بنوامیہ کے باغی قرار دے کر مار ڈالے گئے تھے – طبری نے یہ تعداد لکھی ہے –
زیاد نے ہی امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے شیعوں کے سردار حجر بن عدی، حمق وغیرہ کو قیدی بناکر دمشق بھیجا تھا جہاں اُن سب کو ذبح کردیا گیا تھا-
معاویہ ابن ابی سفیان کے لگائے پہلے گورنر مغیرہ بن شعبہ نے تو کوفہ و بصرہ میں شیعان علی ابن ابی طالب کے وظائف بند کیے تھے اور اہل السواد یعنی عراقی سوادی زمینیں جو خراجی زمینیں تھیں رکھنے والے شیعان علی سے اُن کی زمینیں چھین لی تھیں – ایک طرح سے شیعان علی ابن ابی طالب سے اُن کا رزق چھین لیا گیا تھا کیونکہ وہ امام علی علیہ السلام اور اُن کی اولاد سے برآت کا اظہار کرنے سے انکاری تھے جبکہ وہ امارت بنوامیہ کی طرف سے خانوادہ اہل بیت بشمول امام علی کے خلاف جگر سوختہ پروپیگنڈا برداشت نہیں کراتے تھے –
زیاد جس دن بطور گورنر کوفہ بن کر کوفہ کی جامع مسجد پہنچا اور اُس نے خطبہ میں سب وشتم کیا تو شیعان علی جو وہاں موجود تھے انھوں نے کنکریوں اور پتھروں سے زیاد کا سواگت کیا تھا- طبری نے صحابی رسول حجر بن عدی الکندی کی اس موقعہ پر تقریر بھی درج کی ہے جس میں انھوں نے شیعان علی کے وظائف کی بندش اور زمینوں کی ضبطی کا بطور خاص زکر کیا ہے – اور ساتھ ساتھ شیعان علی کو قید و بند میں ڈالنے اور غیر مسلح کیا جانے کا زکر بھی کیا ہے –
طبری اس دور میں زیاد اور سمرہ بن جندب کے حکم پر ایسے شیعان علی کی فہرست کے جاری ہونے کا زکر بھی کرتا ہے جن کے باقاعدہ گرفتاری اور مار دیے جانے کا حکم نامہ بھی جاری کیا گیا –
زیاد کے سپاہی ایسے ہی ایک ممتاز شیعہ عبداللہ خلیفہ الطائی کا پیچھا کرتے طبری میں دکھائے گئے جو بھاگ کر قبیلہ طئے کے محلے میں جاتا ہے اور زیاد کے سپاہی وہاں پہنچ کر اُسے گھیر کر مارنا چاہتے ہیں لیکن قبیلہ طئے کی عورتیں گھروں سے نکل کر عبداللہ الطائی کو بچا کر نکال لے جاتی ہیں اور عبداللہ الطائی کوفہ سے یمن میں پہاڑوں میں پوشیدہ اپنے قبیلے کے لوگوں میں جاکر چھپ جاتا ہے –
طبری، بلازری ،یعقوبی ابن اثیر سے ہمیں زیاد کی گورنری کے زمانے میں قبیلہ طئے اور بنو ہمدان سے تعلق رکھنے والے شیعان علی ابن ابی طالب کی ایک بڑی تعداد کو یمن کے پہاڑوں میں جلاوطن ہوجانے کا بھی بتاتی ہے اگرچہ تفصیل سے آگاہ نہیں کرتی – عبداللہ الطائی معروف صحابی شیعہ علی عدی بن حاتم الطائی کے سگے بھائی تھے –
دوسری بڑی ہجرت کا سراغ ہمیں زیاد کے بیٹے عبیداللہ ابن زیاد کے گورنر کوفہ بن جانے اور سانحہ کربلا کے واقعے کے ابتدائی دو سالوں میں ملتا ہے – ہوسکتا ہے یہ گروہ در گروہ ہجرتیں ہوں – شیعان علی ابن ابی طالب مابعد سانحہ کربلا ایک بار پھر بڑی تعداد میں الجزیرہ (بحرین) اور یمن میں نقل مکانی کرتے نظر آتے ہیں – یہ وہ دور ہے جب سلیمان بن صرد الخزاعی، مختار ثقفی سمیت کئی سرکردہ ممتاز شیعہ ہزاروں کی تعداد میں کوفہ و بصرہ کی جیلوں میں بند تھے – ایک روایت کے مطابق معرکہ کربلا کے وقت کوفہ کی جیلوں اور گھروں میں نظر بند قیدی شیعان علی کی تعداد 60 ہزار تھی اور مابعد کربلا صرف 6 ہزار شیعہ قیدیوں کا تعلق بنو ہمدان سے تھا –
مغیرہ بن شعبہ، زیاد، سمرہ بن جندب اور عبیداللہ ابن زیاد کے دور میں شیعان علی کی ایک منظم تعذیب /پرسیکوشن جاری تھی –
حُب علی و حُب اہل بیت کا سرعام اظہار جُرم اور خانوادہ اہل بیت پر اعلانیہ سب و شتم فرض قرار دے دیا گیا تھا –
ایک شیعہ تاریخ جسے کثیر بن عامر الکوفی کے نام سے یاد کرتی ہے جس نے تقیہ اختیار کررکھا تھا اور وہ بنوامیہ کے حامیوں جن میں نیزے پر امام حسین علیہ السلام کا سر چڑھانے والا شقی بھی شامل تھا کے بیٹوں کو قرآن پڑھانے پر مامور کررکھا تھا – عبیداللہ ابن زیاد کے خفیہ سپاہی اُس کی نگرانی پر مامور تھے کیونکہ انھیں شک تھا کہ یہ شخص کیموفلاج ہے – اُس کو شدید بخارتھا اور دوران تدریس غشی کے عالم میں اُس کے منہ سے نکل گیا کہ اللہ کی لعنت ہو قاتلان امام حسین علیہ السلام پر اور درود ہو محمد و آل محمد پر….. سنان کے بیٹے نے یہ بات اپنے باپ کو بتائی تو اُسے جیل میں ڈال دیا گیا جہاں کثیر کی ملاقات جیل میں زنجیروں میں جکڑے مختار ثقفی سے ہوئی تھی- بعد ازاں جیل میں ہی مختار ثقفی نے کثیر کو رہا ہونے کے بعد مدینہ جاکر اہل بیت سے دعوت انتقام خون حسین علیہ السلام کی اجازت لانے کو کہا تھا-
اس تفصیل سے ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنے میں مدد ملتی ہے کہ جب کوفہ پر دمشق کا کنٹرول ہوگیا تو تب سے کوفہ کے شیعان علی علیہ السلام کی تعذیب /پرسیکوشن، مزید نسل کُشی /جنیوسائیڈ کا اور زیادہ شدید سلسلہ شروع ہوا-
کیونکہ شیعان علی علیہ السلام کی نسل کُشی کا سلسلہ تو 39 ھجری میں ہی بڑے پیمانے پر لوٹ مار اور قتل و غارت گری کی شکل میں شروع ہوگیا تھا اور اس ضمن میں سات بڑے حملے ہوئے تھے جنھیں غارات کہا جاتا ہے اور اس کا زکر میں نے اپنی کتاب کوفہ: فوجی چھاؤنی سے مسلم سماجی سیاسی تحریکوں کا مرکز بننے تک کے دوسرے زیر طبع ایڈیشن میں تفصیل کے ساتھ کیا ہے –
کوفہ کے دمشق کے زیر کنٹرول آنے کے بعد دمشق کے مقرر کردہ گورنروں نے کوفہ اور اس کے گردو نواح میں شیعان علی ابن ابی طالب کی تعذیب /پرسیکوشن اور نسل کُشی /جنیوسائیڈ کی ایک منظم مہم شروع کی – لاکھوں شیعان علی جبر و ستم کا نشانہ بنے، لاکھوں نے ہجرت کی اور ہزاروں قید میں ڈالے گئے –
اتنے بڑے پیمانے پر تعذیب و نسل کُشی کے باوجود شیعان علی علیہ السلام نے نہ تو مزاحمت ترک کی، نہ ہی تحریکوں کو چلانا بند کیا-
40 ھجری سے 61 ھجری اور پھر 61 ھجری سے آگے عبیداللہ ابن زیاد کی گورنری تک اور پھر حجاج کے 15 سال تک کوفہ شیعان علی کی پرسیکوشن اور نسل کشی کا مرکز بنارہا – شیعان علی کی مزاحمت کو ختم نہ کرپانے پر بنوامیہ کے کہنے پر حجاج نے کوفہ کی فوجی اور کاسموپولیٹن حثیت ختم کرنے کے لیے نئی چھاؤنی اور عراق کا نیا دارالخلافہ فسطاط کے نام سے تعمیر کیا –
یہ وہ چند حقائق ہیں جن پر پردہ ڈال کر کوفہ کے شیعان علی کی مزاحمت، تحریکوں کو گمنامی کی طرف دھکیلا گیا اور ان کی کردار کُشی کی جاتی رہی اور کوفہ میں اہل بیت کے ممتاز پیروکاروں اور عوام میں حامیوں پر ہی دھوکے بازی، غداری، عہد شکنی کی تہمت لگائی گئی – امام علی علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام، شریکۃ الحسین زینب سلام اللہ علیھا، امام علی بن حسین علیہ السلام، امام باقر علیہ السلام کے وہ اقوال جو کوفہ کے اشراف القبائل اور دیگر حامیان بنوامیہ اور خوارج اور دیگر غداری کرنے والے جیسے اشعث، زیاد و دیگر کے بارے میں تھے اُن کا بددیانتی سے اطلاق شیعان علی ابن ابی طالب پر کردیا گیا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے #
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر