نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عمران کی سیاست||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمران خان مفاہمت یا لڑائی کے دوراہے پر کھڑے ہیں – عمران خان اپریل 2022 میں اقتدار سے محروم ہوئے تب سے لیکر اب تک وہ ایک کے بعد ایک جلسہ کررہے ہیں – پہلے پہل وہ پی ڈی ایم کے ساتھ ساتھ اسٹبلشمنٹ کے خلاف بھی بھرپور باغیانہ اسٹائل اپنائے نظر آئے – ان کے احتجاجی جلسوں میں کافی بڑا عوام کا کٹھ بھی دیکھنے کو ملا- ایسا عوامی ہجوم جو ایک پاپولسٹ بیانیہ کے گرد اکٹھا تھا جس کا خیال تھا کہ پاکستان کی ریاست کے ہر ایک ادارے کی اسٹبلشمنٹ نے عمران خان کی حکومت کو گرانے کا عزم کرلیا ہے اور یہ پی ڈی ایم کے ساتھ مل گئے ہیں – عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کو ایک سازش کہا اور اس سازش کا مرکزی کردار امریکہ کو بتایا-سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ امپورٹڈ حکومت مقبول ترین ہوتا گیا- عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے سے کچھ ہفتے پہلے بڑے عوامی جلسوں سے خطاب میں امریکہ بہادر کو للکارا "ہم کوئی آپ کے غلام ہیں…..” یہ فقرہ عمران خان کے ہر حمایتی کی زبان پر دیکھنے کو ملا- ہیش ٹیگ غدار، ہیش ٹیگ میر جعفر میر صادق کے ساتھ سوشل میڈیا پر ایسا مواد دیکھنے کو ملا جس سے یہ تاثر ابھرا جیسے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر پرویز باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی جارہی ہو – پنجاب میں ضمنی انتخابات کے دوران ملتان میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے مسٹر ایکس، مسٹر وائے کو انتخابات میں مداخلت سے باز رہنے کو کہا تو ایک بار پھر قیاس آرائیاں عروج پر پہنچیں کہا گیا کہ اس سے مراد آئی ایس آئی کے کرنل راشد اور کرنل فہیم تھے – لیکن حالیہ دنوں میں عمران خان کی جانب سے ایسے بیانات دیے گئے جس سے یہ تاثر ملا کہ انھوں نے اپنے گزشتہ موقف میں نرمی برتی ہے – کہتے ہیں کہ عمران خان نے سختی اور غیرلچکدار موقف میں نرمی اَس وقت اختیار کی جب وہ خطرے کی سُرخ لیکر کو عبور کرنے کے قریب تھے جس سے ہر اُس ادارے کے ساتھ اُن کا تصادم میں آنا لازم تھا جو اُن کو نکالنے کے لیے پی ڈی ایم کے ساتھ مل گیے تھے – لیکن ایک خاص پوائنت پر آکر انھوں نے ایسے اشارے دیے جیسے کہ وہ اسٹبلشمنٹ سے بات کرنے پر آمادہ ہیں –
عمران کی اقتدار کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اقتدار سے باہر آنے بعد پر طرف حملہ شروع کیا – اسٹبلشمنٹ، الیکشن کمشنر اور عدلیہ تک کو نہ چھوڑا گیا – اس پالیسی نے جب اس پالیسی کے خطرناک نتائج نکلنے کا امکان نظر تو عمران خان نے تھوڑی لچک دکھائی اور آسانی سے یو ٹرن لینے میں دیر نہ کی – عمران خان کا یہ لچکدار رویہ کیا ان ہونا ہے؟ کیا ماضی میں انھوں نے ڈنڈے سے گاجروں اور گاجروں سے ڈنڈے کی طرف پیش رفت نہیں کی تھی؟
ایک وقت تھا جب وہ لوٹے ازم، موقعہ پرستی اور روائتی سیاست دانوں کو للکار رہے تھے پھر ایک وقت آیا جب انھوں نے پی پی پی، مسلم لیگ نواز سمیت اپنی حریف جماعتوں میں شامل بھاری بھرکم سیاست دانوں کو اپنے ساتھ ملانا شروع کیا- وہ اپنی جماعت میں شامل ہونے والے ہر ایک بااثر سیاست دان کی شمولیت کو مخالف جماعتوں کی وکٹ اڑانے سے تعبیر کررہے تھے – 2018ء کے عام انتخابات میں انھوں نے اپنے ساتھ عرصہ دراز سے شامل ورکروں پر بھاری بھر ہیوی ویٹ سیاست دانوں کو ٹکٹ کا اجرا کیا- اقتدار میں آنے کے بعد اُن کی ” اصول پرست سیاست اور میرٹ’ کا حشر نشر ہوگیا – آج عمران خان’ آگے سمندر پیچھے کھائی’ جیسی صورت حال کا شکار- عمران خان کی سیاسی حکمت عملی کا بنیادی محور جلسے جلوس ہیں جو انتظامی اور قانونی مشکلات سے نمٹنے کے لیے دباؤ بڑھانے کا حربہ لگتی ہے – لیکن اس دوران عمران خان بہت سے تنازعات میں بھی گھرے نظر آتے ہیں –
وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت عمران خان اور اُس کے ساتھیوں کو اسلام آباد پولیس، ایف آئی اے کے زریعے سے گھیر کر جارحانہ پوزیشن سے دفاعی پوزیشن میں لانا چاہتی ہے – 25 مارچ سے لیکر اب تک عمران خان کے خلاف متعدد تعزیری دفعات کے تحت 15 ایف آئی آر کا اندراج ہوچکا ہے لیکن عمران خان کا بظاہر مقبول عام بیانیہ اور بطور ایک پاپولسٹ لیڈر کے اُن کی گرفتاری کے خلاف ایک حفاظتی حصار کا کردار ادا کررہا ہے – پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت عمران خان پر براہ راست ہاتھ ڈالنے سے گریزاں ہے –
مسلم لیگ نواز کا حامی میڈیا اور سوشل میڈیا جہاں یہ خبریں اور افواہیں پھیلارہا ہے کہ صدر مملکت عارف علوی نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر پرویز باجوہ کی عمران خان اور چیف منسٹر پنجاب چوہدری پرویز اللہی سے ملاقات کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے – مسلم لیگ نواز کا میڈیا سیل یہ تاثر پیدا کررہا ہے کہ عمران خان ایک طرف تو عوامی جلسوں میں انتہائی سخت موقف کا اظہار کرتے ہیں جبکہ پردے کے پیچھے وہ واپسی کا محفوظ راستا اسٹبلشمنٹ سے مانگ رہے ہیں –
اس وقت دیکھا جائے تو عمران خان کے حریف سیاست دان اور سیاسی جماعتیں سب کے سب ردعمل اور جوابی بیانیے کی سیاست کررہے ہیں جو عمران خان قومی سطح پر بیانیہ سیٹ کرتا ہے حکمران اتحاد بس اُس کا ردعمل دیتا نظر آتا ہے –
عمران خان کو قومی سیاسی افق پر چھائی دھند فائدہ پہنچارہی ہے – کوئی واضح صورت حال نہیں ہے – آیا ملک معاشی ڈیفالٹ سے نکلے گا یا نہیں؟ عام انتخابات کا انعقاد کب ہوگا؟ کیا وفاقی حکومت کچھ بہتر کرپائے گی یا نہیں؟ اور نیا آرمی چیف آئے گا یا باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع دی جائے گی؟ عوامی حلقوں میں ان جیسے سوالات گردش کررہے ہیں اور عمران خان کی سیاست ان سوالوں کے گرد پیدا ہونے والی کنفیوژن اور بے یقینی کو بڑھانے میں اپنا کردار ادا کررہی ہے –
عمران خان نے اپریل سے لیکر اب تک جس احتجاجی تحرک کو قائم رکھا ہے کیا وہ اُسے آئندہ آنے والے مہینوں میں بھی برقرار رکھ پائیں گے؟ کیا وہ اس احتجاجی رنگ کو انتخابات تک برقرار رکھنے میں کامیاب ہوں گے؟ کیا عمران خان اس احتجاجی رنگ کو کسی بڑی سیاسی تحریک میں بدل پائیں گے؟
عمران خان نے اپنے باغیانہ انداز سیاست میں ایک چیز کو کم از کم پیچھے دھکیل دیا ہے اور وہ ہے فوج اور عدلیہ سے براہ راست ٹکراؤ اور محاذ آرائی کی پالیسی – وہ اب پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن پر تابڑ توڑ حملے کررہے ہیں – وفاقی حکومت معشیت کے محاذ پر پریشان کُن صورت حال سے دوچار ہے – نواز لیگ نے اپنا فنانس منسٹر بدلا ہے – ڈار کو وہ جادوگر بناکر پیش کررہی ہے – لیکن اس دوران ایوان وزیراعظم سے ابھرنے والے آڈیولیکس اسکینڈل نے اتحادی حکومت کو ایک بار پھر عمران خان کے عمل کا ردعمل دینے پر مجبور کردیا ہے – عمران خان کی آڈیو اور ویڈیو لیک کرنے کی افواہیں گردش کررہی ہیں –
عمران خان کی احتجاجی سیاست نے پاکستان کے اربن سٹرز میں متوسط طبقے کے برے سیکشن میں اپنی مقبولیت کو کیش کرواکر ان کے زریعے مزاحمتی تحریک بنانے کی سرتوڑ کوشش کی ہے – ضمنی الیکشن کا دوسرا مرحلے کے نتائج اگر عمران خان کے حق میں نکلے تو اس کے بعد عمران خان کا رویہ وفاقی حکومت کی طرف اور زیادہ سخت ہوتا چلا جائے گا – اگر احتجاجی موڈ کو تحریک میں بدلنے کے لیے عوام کے بڑے حصے کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنے میں عمران خان کی سیاست کی بقا ہے تو ساتھ ہی عوام کو معاشی ریلیف دینا پی ڈی ایم کی حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے – حکومت کی کوشش ہے کہ کسی طرح عمران خان پارلیمنٹ میں واپس آئے اور عمران خان کی کوشش ہے کہ وہ حکومت کو جلد گھیر کر عام انتخابات کرانے پر مجبور کردے –

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author