مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الیگزی پیشکوف کے بارے میں پڑھتے ہوئے مجھے دو افراد کا خیال آیا۔ ایک باچہ خان، دوسرے علی شریعتی۔ مختار مسعود نے اپنی کتاب لوح ایام میں شریعتی کا ذکر کیا ہے۔ انقلاب ایران سے پہلے ان کی تقریروں اور تحریروں نے عوام کو بیدار کیا، ان میں جذبہ جگایا۔ مختار مسعود جس شخص سے بھی پوچھتے تھے کہ انقلاب کا مفکر اور فلسفی کون ہے تو جواب ملتا تھا، شریعتی۔ لیکن جب انقلاب آیا تو ان کا نام لینا ممنوع ہوگیا۔ ان کی برسی پر لوگ جمع ہوئے تو پولیس نے تشدد کرکے انھیں منتشر کیا۔ زخمی ہونے والوں میں شریعتی کے والد بھی شامل تھے۔
مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی کراچی لٹریچر فیسٹول میں شریک ہوئے تو کسی نے پوچھا، آپ نے بادشاہ خان کی سوانح کیوں لکھی؟ انھوں نے کہا، جو شخص انگریز کے دور میں بارہ سال اور پاکستان بننے کے بعد پندرہ سال جیل میں رہا، اس میں کوئی بات تو ہوگی۔ میں اپنے آپ کو ان کی سوانح لکھنے سے نہیں روک پایا۔
کچھ ملتی جلتی صورت پیشکوف کے ساتھ پیش آئی۔ وہ انقلاب روس کے معماروں میں سے ایک تھا۔ اس کی تحریروں نے عوام میں مزاحمت کا بیج بویا۔ اس نے زار کے دور میں قید بھگتی اور جلا وطن رہا۔ لیکن انقلاب آیا تو وہ لینن اور دوسرے رہنماوں کا ساتھی ہونے کے باوجود ناپسندیدہ شخص تھا۔ اسے وطن سے دور رہنا پڑا اور واپس آکر نظربندی کا سامنا بھی کیا بلکہ اسی عالم میں انتقال ہوا۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ اسے نظربند کرنے والا اسٹالن عیادت کو آیا اور آخری رسومات میں بھی شریک ہوا۔
پیشکوف کے والدین کا اس کے بچپن میں انتقال ہوگیا تھا۔ اس نے بچپن سڑک پر گزارا۔ روٹی کی تلاش میں موچی، نانبائی، دربان، قلی، بہت کچھ بننا پڑا۔ پھر آوارہ گردی کا پیشہ اختیار کیا اور کئی سال روس کے طول و عرض کی خاک چھانتا رہا۔ اخبار میں بھی کام کیا۔ تب اس نے کہانیاں لکھنا شروع کیں اور شہرت کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے بادشاہوں، امیرزادوں اور جاگیرداروں کے روایتی قصے لکھے جاتے تھے۔ پیشکوف نے عام لوگوں کے افسانے لکھے۔ اس نے زندگی کو جس طرح پایا تھا، جو مصائب برداشت کیے تھے، معاشرے کے مختلف کرداروں کو جتنے قریب سے دیکھا تھا، وہ سب لکھا تو دھوم مچ گئی۔
اختر حسین رائے پوری نے لکھا ہے کہ ٹالسٹائی اس وقت زندہ تھا اور چیخوف اپنے عروج پر تھا، اس کے باوجود اس نوجوان کا لباس فیشن بن گیا، اس کے نام سے مصنوعات بازار میں آگئیں، حد یہ کہ بھکاری اور چندہ مانگنے والے اس کے نام پر پیسے مانگنے لگے۔ اس کی کہانیوں کے جملے انقلاب پسندوں کے مکالمے بن گئے۔ ہم سب نے ترقی پسند ادب کا بہت ذکر سنا ہے۔ اس عوامی اور مقصدی ادب کا بانی اسی کو کہا جاسکتا ہے۔
دنیا اسے میکسم گورکی کے نام سے جانتی ہے۔ گورکی اس کا قلمی نام تھا جس کا اردو میں ترجمہ ہے تلخ۔ اس کے لہجے میں، تقریر میں، تحریر میں تلخی تھی۔ اس تلخ گو نے عوام کے دل جیت لیے۔
گورکی کو روسی ہونے کے باوجود پانچ بار نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا گیا۔ اس کا ناول ماں پوری دنیا میں چھپتا ہے۔ لیکن گورکی خود اسے اپنی سب سے بڑی ناکام تصنیف سمجھتا تھا۔ نقادوں کا خیال ہے کہ ناول دا لائف آف کلیم سیمگن اس کا اصل شاہکار ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اس کی آپ بیتی لوگوں کو پسند آتی ہے۔ اس کی وجہ ٹالسٹائی نے ایک بار بیان کی تھی۔ شاید آپ نے بھی کہیں اس کا وہ جملہ پڑھا ہو، "گورکی ہر وقت ادھر ادھر دیکھتا رہتا ہے، جیسے اس نے جاکر خدا کو ساری تفصیل سنانی ہو۔”
گورکی کی آوارہ گردی، مختلف پیشوں کا تجربہ اور "ادھر ادھر دیکھنے کی عادت” نے اسے لفظوں سے مصوری کرنے والا باکمال فنکار بنادیا۔ اس کی آپ بیتی کا اردو میں ترجمہ کرنے والے اختر حسین رائے پوری کہتے ہیں کہ ٹالسٹائی کی تحریروں میں رئیسانہ انداز ہے، دوستووسکی میں مریضانہ چڑچڑاپن، چیخوف میں مفکرانہ تنہاپسندی لیکن گورکی میں اپنائیت ہے۔ اس کی آپ بیتی کے کردار آپ کو اپنے آس پاس مل جائیں گے۔ یہ آپ کی آپ بیتی بن جائے گی۔
گورکی کے افسانے اور ناول کسی اور دن پڑھیں گے، آج میں نے گوگل ڈرائیو کے ایک فولڈر میں اس کی آپ بیتی کے تینوں حصے ڈال کر لنک کتب خانے والے گروپ میں شئیر کردیا ہے۔ سو سال پرانی اس کتاب میں آپ سو سال پرانی شراب کا لطف پائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ