رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے حالات اب وہ نہیں رہے جو بھلے وقتوں میں تھے۔ خرابیاں تو کئی عشروں سے شروع ہو چکی تھیں۔ آبادی بڑھتی گئی‘ وسائل سکڑتے گئے‘ معیشت کو قومی تحویل میں لے لیا گیا تو اس کی بنیادیں ایسے ہل کر رہ گئیں جیسے زلزلے کے بعد پہاڑوں سے بھاری پتھر سرک جاتے ہیں اور دوبارہ کبھی اپنی جگہ پر واپس نہیں جاتے۔ یہ زیادہ تر وہ مسائل ہیں جو ایک بہت بڑے مسئلے سے پیدا ہوئے تھے اور وہ تھا حکمرانوں کا سماجی پس منظر‘ ان کا زاویۂ نگاہ اور ذاتی و طبقاتی مفادات۔ جیسے حالات آج کل آپ دیکھ رہے ہیں‘ ماضی میں بھی حالات ایسے ہی خراب ہونا شروع ہوئے تھے۔ کوئی آسانی سے نہ کرسی چھوڑنے کے لیے تیار تھا‘ نہ مخالفین کوئی آئینی راستہ فراہم کرنے پر آمادہ تھے۔ پارلیمان کے اندر اور باہر ایسے کرتب دکھائے گئے کہ دنیا بھر کے سیاسی مداری پاکستان کی طرف دیکھتے تھے کہ کھیل تماشا کس کا کامیاب جا رہا ہے۔ ہم نے ایسی بھیڑ میں گھس کر مداریوں کو ڈگڈگی بجاتے‘ بندروں کو نچاتے‘ کامیاب مجمع لگاتے اور اقتدار کی کرسیوں پر نہ جانے کتنی مرتبہ براجمان ہوتے دیکھا ہے۔ پوری فہرست تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے‘ قارئین بھی جانتے ہیں یا تاریخ میں جھانک کر دیکھ سکتے ہیں۔ اپنی دانش کے مطابق ہم نے یہ فہرست اپنے ذہن میں بھی بنا رکھی ہے۔ ایسے بڑے ہماری قسمت میں لکھ دیے گئے تھے۔ پانچ تو حسرتیں لے کر جہان سے رخصت ہو چکے اور جو ابھی چار بقیدِ حیات ہیں‘ ہم ان کے لیے مزید یہ تماشا جاری رکھنے کے لیے دعا گو ہیں۔ ان کا سایہ ان کے چاہنے والوں‘ ہر کاروں‘ گماشتوں پر قائم رہے۔ نام لینے کی کیا ضرورت ہے؟ اور ویسے بھی یہ کوئی راز تھوڑی ہے؟ سب جانتے‘ پہچانتے ہیں۔ جو پکڑ دھکڑ اور خصوصاً بزرگوں کے ساتھ سلوک ہو رہا ہے‘ اس سے ہماری دیرینہ بزدلی میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔
گزشتہ ہفتہ اپنے آبائی گائوں میں گزارا۔ زیادہ لوگوں سے تو نہیں مل سکا اور نہ اب ملنے کو جی چاہتا ہے مگر جو دیکھا‘ سنا اور جو کچھ اپنے ساتھ ہوا تو لامحالہ دھیان مداریوں کی طرف چلا گیا۔ ابھی ہم سوچ کے ان دائروں میں قلابازیاں کھا رہے تھے کہ اٹلی کے قریب سمندر میں غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی الٹنے اور اُن میں اپنے ہم وطنوں کے سمندر کے گہرے پانیوں میں ڈوبنے کی اندوہناک خبر پڑھی۔ ان میں خواتین قومی ہاکی ٹیم کی کھلاڑی شاہدہ رضا بھی شامل تھیں۔ ہر روز ایسے واقعات سمندروں‘ دریائو ں اور ریگستانوں کو عبور کرتے ہوئے دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں برسوں سے پیش آرہے ہیں۔ تارکین وطن کا رخ آخر مغربی ممالک کی طرف کیوں ہوتا ہے؟ لوگ یہ جانتے ہوئے بھی اپنی زندگیوں کو دائو پر لگا رہے ہیں کہ راستہ انتہائی پُرخطر ہے۔ اگر پکڑے گئے تو قید میں بھی ڈالے جا سکتے ہیں۔ کوئی حادثہ موت کے منہ میں بھی لے جا سکتا ہے۔ ان میں اکثریت نوجوانوں کی ہے‘ جو ان ممالک سے تعلق رکھتے ہیں جہاں سیاسی‘ سماجی اور معاشی حالات مداریوں نے بگاڑ رکھے ہیں‘ ان میں کچھ لاطینی‘ افریقی‘ ایشیائی ممالک خصوصاً پاکستان‘ افغانستان اور ایران شامل ہیں۔ ایک عرصہ اور تواتر سے یہ انسانی المیے واقع ہورہے ہیں مگر آج تک ہمارے ادارے انسانی سمگلروں کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ عمومی تاثر ہے کہ ملی بھگت سے ہی اتنی بڑی تعداد میں لو گ سرحدیں عبور کرتے ہوں گے۔
اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ نئی نسل کا ملک کی سیاست اور معیشت سے اعتماد اُٹھ چکا ہے۔ اچھے روزگار کے مواقع کم ہو چکے ہیں۔ سرکاری اداروں میں جہاں بھی کسی کو کوئی کام پڑتا ہے‘ پیسہ بٹورنے کے لیے ذلیل و خوار کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ سرکاری ملازمتوں سے ریٹائر ہونے والوں کے بھی مہینوں تک پنشن کے کاغذات مکمل نہیں ہو پاتے تا وقتیکہ وہ بھی کسی کی مٹھی گرم کریں۔ لاقانونیت‘ افراتفری اور ریاستی زوال اور کیا ہوتا ہے؟ جن گہرائیوں تک ہمارے مہربانوں نے مداریوں کے تماشے لگا کر پہنچا دیا ہے‘ نوجوانوں کی اکثریت کے اب مستقبل کے خواب اپنے ملک سے وابستہ نہیں رہے۔ قابل اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادی قوت پہلا موقع ملتے ہی بیرونِ ملک بھاگ رہی ہے۔ اگرچہ یہ سلسلہ کئی عشروں سے جاری ہے‘ مگر جب سے جمہوریت نے انتقام لینا شروع کیا ہے‘ یہ سلسلہ تیز بھی ہو چکا ہے اور دراز بھی۔ یہ درویش تو ابھی تک اس نوجوان طبقے کے درمیان رہتا ہے اور روزانہ درس و تدریس میں مصروف ہے۔ کئی وہ طالب علم بھی ملنے کے لیے آتے ہیں جو وطن چھوڑ چکے اور وہ بھی جو برسوں سے یہاں نوکریاں کررہے ہیں مگر اب وہ بھی باہر جانے کی تیاری میں ہیں۔ حال ہی میں انگلستان کی ایک یونیورسٹی کے لیے ایک طالب علم ریفرنس لیٹر لینے آیا تو ویسے ہی پوچھ لیا کہ تمہاری تقریباً چھ سات سو کی کلاس تھی‘ اس میں سے کتنے ساتھی ملک کو خیرباد کہہ چکے ہیں؟ جواب یہ تھا کہ ایک بڑی تعداد اور جو باقی رہ گئے ہیں‘ صرف وہ ہیں جن کی آبائی زمینیں‘ خاندانی کاروبار یا کچھ مجبوریاں ہیں۔ نوجوان انتہائی مایوسی کا شکار اور بے تاب ہیں۔ وہ اس وقت سیاسی حالات دیکھ رہے ہیں اور ہم ایک عرصے سے دیکھتے آئے ہیں۔ اور پھر اربوں کھربوں کی کرپشن ایک جادو کی چھڑی گھما کر اس طرح رفع دفع کی جاتی ہے جیسے کسی جن کا سایہ اترجائے۔ پھر نوجوان کیا خواب دیکھ سکے گا؟ مداریوں اور ان کے سرپرستوں نے سوائے اپنے اور اپنے خاندانوں کے‘ ان کے لیے کیا چھوڑا ہے؟
ہم نے ساری زندگی اپنے پیشے میں نوجوانوں کو امید قائم اور حوصلہ بلند رکھنا سکھایا ہے‘ وطن اور دھرتی سے محبت کا درس دیا ہے‘ یہاں کی رہتل سے جڑے رہنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ اپنی مثال بھی سامنے رکھی ہے کہ موقع ملنے کے باوجود ہم امریکہ میں آباد نہیں ہوئے۔ یہاں اپنے حالات جو بھی تھے‘ یونیورسٹیوں میں جن مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا‘ کیا۔ آخر میں ہم کسی خسارے میں نہیں رہے۔ خوش ہیں‘ مطمئن ہیں اور پُرسکون ہیں۔ اب ان باتوں سے ہمارے شاگرد متاثر نہیں ہوتے۔ ہم جو بھی ملکی حالات کے مستقبل کے بارے میں ڈھارس بندھائیں‘ سامعین کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ ہوتی ہے۔ اب ہم بھی عشروں تک یہ تبلیغ کرنے کے بعد اس عمر میں اپنی جگ ہنسائی نہیں کروا سکتے۔ اب اگر کوئی مشورہ مانگتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ دیر نہ کرو‘ فوراً چلو۔ اب تو اپنا زور لگا کر ریفرنس لیٹر لکھتا ہوں تاکہ کسی کا مغرب کی جامعات میں داخلہ رہ نہ جائے۔ سب چلے جائیں‘ سب زندگی کی کامیابیوں سے سرفراز ہوں‘ سب کے خاندان سنور جائیں۔ یہاں عام آدمی کے دھکوں‘ رشوت ستانی‘ تنگ نظری‘ گھسی پٹی ذات پات کے نظریات اور ہر نوع کی انتہا پسندی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے حکمران طبقات‘ جن کا دائرہ ریاستی اداروں سے لے کر سیاسی خاندانوں اور جائیداد کا کاروبار کرنے والوں تک پھیل گیا ہے‘ کا بھی اس ملک پر اعتماد نہیں رہا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ان کی جائیدادیں‘ سرمایہ‘ کمپنیاں پاناما سے لے کر سوئٹزر لینڈ اور بہت سے جزائر اور مغربی ممالک میں کیوں ہیں جبکہ سرمایہ کاری کی ضرورت تو اس ملک میں ہے؟ دیکھ رہا ہوں اور اب شدت سے محسوس ہونے لگا ہے کہ یہ ملک طاقتور لوگوں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ ایسے میں آزادی پسند نوجوان نئے شعور کی بدولت بپھر گیا تو سب کے ہوش‘ جو اپنے ٹھکانے پہ نہیں‘ اُڑ کر کہیں دھند میں غائب نہ ہو جائیں۔ ہر ظلمت کے بعد آخرسویرا ہوگا اور ضرور ہوگا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر