دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اسلام آباد سے اٹلی کے ساحل تک براستہ جام پور ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریٹائر جنرل امجد شعیب کو اسلام آباد میں ان کی اقامت گاہ سے گرفتار کرلیا گیا۔ ایف آئی آر کے مطابق انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں عوام اور سرکاری ملازمین کو ملکی اداروں کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی۔ ان کی گرفتاری پر حامد میر سمیت چند انقلابیوں اور کچھ نومولودوں کا دکھ دیکھا نہیں جارہا۔

موصوف لگ بھگ سوا عشرے سے جمہوریت اور سیاستدانوں کو منہ بھر کے گالیاں دیتے تھے البتہ عمران خان کو وہ دوسرے سابق جرنیلوں کی طرح نجات دہندہ سمجھتے ہیں ۔ امجد شعیب جرنیلوں کی اس نسل سے تھے جن کی ملازمت کے برسوں میں ریاست نے امریکی ٹوڈی بننے کا کم ازکم دو بار تو کھلا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے ثمرات سے مستفید ہونے والوں میں حضرت بھی شامل تھے۔

اچھا خاصا مالدار جنرل ہے۔ دانشور، دفاعی سیاسی علاقائی اور عالمی امور کا تجزیہ نگار جمہوریت اور پارلیمانی نظام سے نفرت اس میں کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے۔ اس کی گرفتاری ایک ایف آئی آر کے تحت ہوئی۔ ایف آئی آر اور الزام کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ تو اب عدالت ہی کرسکتی ہے۔

وہ سوا عشرے سے جس امریکہ کے ناقد تھے اسی امریکہ کی غلامی کا طوق پہنانے والی رجیم کا ماضی میں پرجوش حصہ رہے۔ بہرحال ایک طبقے کے ’’ہیرو‘‘ ہیں۔ وہی طبقہ جو صدیوں سے دو متھوں کا اسیر ہے ایک یہ کہ مولا جٹ سٹائل جسے پسند ہے دوسرا وہ جو اپنے ہر ہیرو میں یہودوہنود کا ایک ایسا دشمن دیکھتا ہے جس پر آخر میں کوئی یہودن دوشیزہ مرمٹتی ہے۔ امجد شعیب یہودوہنود کے بڑے ’’ناقد‘‘ تھے۔ یہودن دوشیزہ کی جگہ ’’مال ‘‘ ان پر مہربان رہا۔

وہ بھی ان سابق جرنیلوں میں سے ہیں جو صبح کے وضو سے ظہر پڑھتے اور نصف تنخواہ اردگرد کے کمی کمینوں میں بانٹ کر راضی بہ رضا ہو رہتے۔ کیا واقعی وہ ایف آئی آر کے مندرجات پر پھڑے گئے؟

کم از کم میں اس سے متفق نہیں۔ کچھ اور بھی معاملات ہیں پاکستان سے دبئی تک پھیلے ہوئے۔ کچھ سرکاری و غیرسرکاری دھندوں کا رولہ بھی ہے۔

برسوں قبل ایک پروگرام میں ان سے تلخی ہوئی تھی۔ طالب علم نے دہشت گردی اور غیرریاستی لشکروں کے احیا پر منعقد ایک پروگرام میں ان کی خدمت میں صرف یہ عرض کیا تھا ’’دامن کو دیکھ ذرا بند قبا دیکھ‘‘ وہ بھڑک گئے کہنے لگے تمہیں فوجی پالیسیوں کا رتی برابر بھی علم نہیں۔

عرض کیا اس بارے میری معلومات بھی اتنی ہی ہیں جتنی آپ کی سیاسی عمل بارے ہیں آپ سیاسی تجزیہ نگار ہوسکتے ہیں تو طالب علم دفاعی تجزیہ نگار کیوں نہیں؟

امجد شعیب امریکی سازش کے والے اس بیانیہ کے پرجوش حامی تھے جو دبئی کی ایک ملاقات (وہی حسین حقانی والی) اور اس میں ہوئی ادائیگی سے ہوتی ہوئی محسن نقوی (نگران وزیراعلیٰ پنجاب) کو چھوکر جنرل قمر جاوید باجوہ کے گلے کا ڈھول ہے۔

ان کے خیال میں موجودہ صورتحال کا ذمہ دار امریکہ ہے ان کا سابق محکمہ اور پی ڈی ایم، یہ ان کی رائے ہے کہ اپنی رائے کے اظہار کا ہر شخص کو حق ہے۔

ان پر کچھ الاٹ منٹوں، دو سودوں میں گھٹالے اور دبئی کی جائیداد کے الزامات بھی لگے۔ الزامات لگانے والوں نے جو ثبوت پیش کئے ان کی دستاویزاتی تردید کی بجائے انہوں نے صرف چیخ چیخ کر جھوٹ، ربش، بھارتی ایجنٹوں کی سازش جیسے جملے اچھالے۔ ان الزامات پر ان سطور میں بات کرتا اگر جنرل امجد شعیب دستاویزاتی شہادتوں سے انہیں غلط ثابت کرچکے ہوتے ۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ نیک نام اور دبنگ شخص ہیں اور یو ٹیوبر بھی ’’دبنگ‘‘ موقف رکھتے ہیں۔ چند برس قبل آئی ایس پی آر نے جن دفاعی تجزیہ نگاروں کی فہرست الیکٹرانک میڈیا کو دی تھی اس میں ان کا اسم گرامی بھی تھا۔

اپریل 2022ء سے قبل وہ اپنے سابق ادارے کے ذکر پر ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے بلکہ توتکار پر اتر آتے۔ عمران کے علاوہ وہ سیاسی عمل میں موجود ہر شخص کے خون کے پیاسے تھے۔ ان کا ہمیشہ یہ موقف رہا کہ ریاست کی پالیسیوں پر تنقید سے بھارت کی خدمت ہوتی ہے۔

سال بھر سے وہ کس کی خدمت کررہے تھے یہ انہیں ہی معلوم ہوگا۔ ہمارے نزدیک سب سے گھٹیا کام کسی کو غدار اور کافر قرار دینا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ خان صاحب (عمران خان) ان کی گرفتاری کی مذمت تو کریں گے لیکن اپنا روایتی بیان نہیں دیں گے۔ ’’سمجھ تو آپ گئے ہی ہوں گے‘‘۔

یہ بھی امید ہے کہ انہیں عدالت سے انصاف ملے گا یہ ان کا حق ہے جرم سرزد ہوا ہے تو اور بے جرم ہیں تو بھی ہر دو صورتوں میں انصاف ہونا چاہیے۔

لیجئے ضلع راجن پور کی تحصیل جام پور میں قومی اسمبلی کی نشست پر اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار پنجاب کے سابق وزیر خزانہ محسن لغاری جیت گئے۔ محسن لغاری کے 90ہزار سے زائد ووٹ ہیں۔ (ن) لیگ کے امیدوار نے 55ہزار سے اوپر اور پیپلزپارٹی کے امیدوار نے 20ہزار سے 74ووٹ زائد لئے ہیں۔ 2018ء میں پیپلزپارٹی نے اسی حلقہ سے 26ہزار ووٹ لئے تھے۔ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر اس بار الیکشن لڑنے والے اختر گورچانی تب آزاد امیداور تھے اور انہوں نے 50ہزار سے زائد ووٹ لئے تھے۔

یہ نشست سردار جعفر لغاری کی وفات پر خالی ہوئی تھی۔ محسن لغاری ان کے بھتیجے ہیں۔ مرحوم جعفر لغاری کی اہلیہ نے ان کی بھرپور مدد کی یوں کہہ لیجئے انہوں نے ہی محسن لغاری کو پسماندگان کا امیدوار نامزد کیا۔

کچھ دوست (ن) لیگ کی شکست پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔ کچھ پیپلزپارٹی کو طعنے مار رہے ہیں زمینی حقائق دونوں طرح کے دوستوں کے علم میں ہیں اور یہ بھی کہ اس نشست سے جعفر لغاری مرحوم کتنی بار کس کس جماعت کے ٹکٹ اور آزاد امیدوار کے طور پر جیتے۔

موروثی سیاست کو منہ بھر کے گالی دینے والے بھی چچا کی وفات پر بھتیجے کی جیت کو نظریہ کی جیت قرار دے رہے ہیں۔ فتح کے جشن میں ناچ ناچ کر انہوں نے گھنگرو توڑلئے۔

ضمنی الیکشن معرضی حالات، سرداری نظام کی جکڑبندیاں، مرحوم سے ہمدردی انتخابی نتائج اسی کے مرہون منت ہیں۔ پیپلزپارٹی کے سوشل میڈیا مجاہدین کی بعض شکایات ہوسکتا ہے کہ درست ہوں مگر بنیادی طور پر انہیں اپنے پچھلے ووٹ بینک میں 6ہزار ووٹوں کی کمی پر غور کرنا چاہیے۔

پھر یہ نشست کبھی بھی ان کی نہیں رہی۔ اسی طرح یہ کہنا کہ (ن) لیگ کو سرائیکی صوبے کی مخالفت لے ڈوبی درست نہیں۔ لغاری خاندان کا جعفر لغاری مرحوم والا حصہ کون سا سرائیکی صوبے کا علمبردار تھا؟ اختر گورچانی کو تجزیہ کرنا چاہیے کہ ان کا ذاتی ووٹ بینک کم کیوں ہوا۔

مکرر عرض ہے موروثیت کے ناقدین پرائی شادی میں ضرور ناچیں لیکن نظریہ کی جیت کا جھوٹ بولنے سے پرہیز فرمائیں۔ 25فروری کو تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک کے لئے ملتان کا دن تھا۔ کتنے لوگوں نے گرفتاری دی اس شہر میں؟ ایک نے بھی نہیں۔ جلوس نکلا، تقاریر ہوئیں ’’علمِ عمران خان کی برآمدگی کا اعزاز بھی ملتان کو حاصل ہوا‘‘۔

بتایا جارہا ہے کہ مقررین کی جانب کہا گیا چونکہ ملتان کی طرف سے مخدوم شاہ محمود قریشی لاہور میں گرفتاری دے چکے اس لئے ’’پیر کے پائوں میں سب کا پائوں‘‘۔ کسی نے اگر یہ کہا ہے تو بے حد بے ادبی والی بات ہے۔

مخدوم شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے نے والد بزرگوار کی بازیابی کے لئے جو درخواست لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی ہے وہ کیا کم لطیفہ ہے کہ ملتانیوں کو یہ لطفیہ سنایا گیا کہ چونکہ مخدوم صاحب ملتان کی طرف سے لاہور میں گرفتاری دے چکے اس لئے ملتان کی قربانی قبول و مقبول ہو زمان پارک کے حضور ۔ ایک مزید لطیفہ فواد حسین چودھری نے سنایا۔ بولے ملتان میں پولیس گھبراکر گرفتاریوں سے پیچھے ہٹ گئی۔ سبحان اللہ بنتا ہے اس پر ۔

یہ بھی کہا کہ پنجاب میں گرفتار ہونے والے 2سو کارکنوں نے ضمانتوں کی درخواستیں دینے سے منع کردیا ہے۔ ایسا ہے اور سچ ہے تو پھر یہ کارکن عدالتوں سے رجوع کرنے والے لیڈروں کے مقابلہ میں قابل ستائش ہیں۔ البتہ فواد چودھری اچھے برے وکیل ہیں اتنا تو جانتے ہی ہوں گے کہ اگر3ایم پی او کے تحت نظربندی ہو تو درخواست ضمانت دائر نہیں ہوتی۔ ہوم سیکرٹری کا حکم نظربندی چیلنج ہوتا ہے۔

فواد چودھری کے حوالے سے ہی یہ خبر ہے کہ ہماری جماعیت جیل بھرو تحریک کو ملک گیر بناسکتی ہے۔ ایسا ہوتا ہے تو یہ کسی بھی جماعت کا جمہوری حق ہے۔

اب ایک دکھی کردینے والی خبر غم ہے وہ یہ کہ روزگار کی تلاش میں غیرقانونی طور پر یورپ جانے والے افراد کی ایک کشتی اٹلی کے نزدیک سمندری چٹان سے ٹکراکر تباہ ہوگئی۔

ابتدائی اطلاع کے مطابق مرنے والوں میں 28پاکستانی بھی شامل ہیں۔ 80افراد کو زندہ بچالیا گیا ہے۔ مرنے والے پاکستانی نوجوان20سے 30لاکھ روپے موت کے سوداگروں کو دے کر سہانے دنوں کی تلاش میں موت کا رزق ہوئے۔

کاش ان کے خاندانوں نے اس رقم سے انہیں مقامی طور پر کاروبار کروادیا ہوتا۔ ایف آئی اے کو چاہیے کہ موت کے سوداگروں کو کسی تاخیر کے بغیر گرفتاری کرے اور انہیں کیفرکردار تک پہنچائے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author