حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ اس وقت ملک جاری سیاسی اور بدترین معاشی عدم استحکام سے پیدا شدہ صورتحال اصلاح احوال کی متقاضی ہے مگر جس طرح روزانہ کی بنیاد پر ایک نیا بحران دستک دے رہا ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ کسی کو صورتحال کی نزاکت کا احساس نہیں۔ اُدھر پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے مشترکہ نوٹ پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے لئے گئے ازخود نوٹس کی ابتدائی سماعت کے دوران 9 رکنی لارجر بینچر کے دو ارکان جسٹس مندوخیل اور جسٹس اظہر من اللہ نے بعض اہم سوالات اٹھائے۔
جسٹس مندوخیل نے تو ازخود نوٹس لئے جانے پر ہی تحفظات کا اظہار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بنچ میں شامل 2 جج صاحبان پہلے ہی رائے قائم کرچکے۔ صدر سپریم کورٹ بار کی ججز سے متعلق آڈیو سامنے آ چکی۔ چیف جسٹس کو ازخود نوٹس لینے کے لئے نوٹ بھیجنے والے دو جج صاحبان نے چیف الیکشن کمشنر کو طلب کر لیا تھا حالانکہ وہ کیس میں فریق نہیں تھے۔ چیف جسٹس کا دوران سماعت کہنا تھا کہ انتخابات 90 دن میں ضروری ہیں آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا، کیا اسمبلیاں آئین کے مطابق تحلیل ہوئیں؟ ازخود نوٹس کی دوسرے دن کی سماعت کے موقع پر پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے وکیل سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کی جانب سے بنچ کے دو ارکان جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس مظاہر نقوی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں معزز جج صاحبان رضاکارانہ طور پر بنچ سے الگ ہوجائیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا ہم آپ کے اعتراض کو لکھ لیتے ہیں۔ سوموار کو سماعت کے دوران اس پر مزید بات ہوگی۔
پاکستان بار کونسل اور دیگر وکلاء تنظیموں نے ازخود نوٹس کے لئے تشکیل دیے جانے والے لارجر بنچ پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے سینئر ججز کو شامل نہ کرنے پر اعتراض تحریری طور پر بھجوایا ہے۔ جمعرات کو ہی (ن) لیگ کی سینئر نائب صدر مریم نواز نے سرگودھا میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بنچ میں شامل بعض جج صاحبان کے حوالے سے جو گفتگو کی اسے بھی یکسر نظرانداز کیا جانا ممکن نہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے ازخود نوٹس کی سماعت کرنے والے بنچ کی حمایت میں کہا کہ (ن) لیگ ججوں پر دباؤ ڈال کر انصاف کی راہ کھوٹی کر رہی ہے۔ ماضی میں جب عدالتوں سے نیب مقدمات میں (ن) لیگ کے رہنماؤں کو ضمانتیں مل رہی تھیں تو سابق وزیراعظم کی جماعت اسی عدلیہ اور ججوں کو کن ناموں سے یاد کرتی رہی اسے دہرائے بغیر عرض کرنا ضروری ہے کہ انصاف کا بگل صرف ”ہمارے“ حق میں ہوئے فیصلوں سے بجتا ہے۔
چیف جسٹس کی جانب سے ازخود نوٹس لینے اور لارجر بنچ کی تشکیل سے قبل وزیراعظم شہباز شریف (ن) لیگ کے صدر کی حیثیت سے درخواست کرچکے تھے کہ پی ڈی ایم، (ن) لیگ اور حکومت کے مقدمات کے بنچوں میں دو جج صاحبان کو شامل نہ کیا جائے۔ بنچ کی تشکیل چیف جسٹس کا اختیار ہے۔ ماضی میں اس اختیار پر بھی اعتراضات سامنے آئے۔ ایک سے زائد سینئر ججز نے اس پر یہ موقف اپنایا کہ ازخود نوٹس سینئر ججز کی کمیٹی کی منظوری سے لیا جائے۔
بظاہر ایک نئے بحران کی گونج صاف سنائی دے رہی ہے اس بحران کی وجوہات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ پاکستان کا عدالتی نظام کارکردگی کے حوالے سے عالمی درجہ بندی میں جس مقام پر ہے اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ ہماری دیانت دارانہ رائے یہی ہے کہ عدالتی عمل اور نظام انصاف کو متنازعہ نہیں بنایا جانا چاہیے البتہ ماضی کی طرح اب نظام انصاف کے حوالے سے جو مجموعی عوامی تاثر ہے اور بعض جج صاحبان پر اٹھائے گئے اعتراضات ہر دو کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
نظام انصاف کی ساکھ بحال کرنے کے لئے ماضی میں نظریہ ضرورت کے تحت دیے گئے فیصلوں پر جب رجوع ہو وہ الگ معاملہ ہے۔ فی الوقت یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں دھڑے بندی، بعض جج صاحبان کی مخصوص ہمدردیاں اور دیگر معاملات پر سوالات کیوں اٹھے؟ نیز یہ کہ بنچ کے ایک رکن کے خلاف ریفرنس دائر ہو جانے کی صورت میں انہیں بنچ سے الگ نہیں ہو جانا چاہیے تھا بلکہ انہیں تو بنچ میں شامل ہی نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ ایک دوسرے معزز جج صاحب پر جو اعتراضات ہیں وہ خاصے سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔ جج ارشد ملک والے معاملے میں جس طرح چشم پوشی کی گئی وہ حیران کن تھی۔
لمحہ فکریہ یہ ہے کہ جو باتیں پہلے کمرہ عدالت اور وکلا کے چیمبروں میں ہوتی تھیں اب گلی محلوں میں ہونے لگیں۔ انصاف کی بجائے جج بولنے لگیں تو یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ پاکستان کے نظام انصاف بارے سیاسی جماعتوں کے ہمدردوں کی پسند و ناپسند اور آراء کو ایک طرف اٹھا رکھئے عام آدمی اس حوالے سے جن آراء کا اظہار کر رہا ہے اس طرح کی آراء قبل ازیں مارشل لاء دور میں ذوالفقار علی بھٹو کو دی گئی سزائے موت کے حکم پر سامنے آئی تھیں۔ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان میں گروپنگ کا تاثر عام ہے اسے مزید تقویت حالیہ ازخود نوٹس کے لئے تشکیل دیے گئے لارجر بنچ سے ملی جس میں شمولیت کے لئے سینئر جج صاحبان کو نظرانداز کر دیا گیا۔ موجودہ حالات میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کوئی نظام انصاف اور عدلیہ کو بدنام کر رہا ہے۔ نظام انصاف کے محافظین کو خود بھی غور کرنا ہو گا کہ یہ صورتحال کیوں پیدا ہوئی اور اس طرح کی گفتگو کیوں شروع ہو پائی۔
یہ بدقسمتی ہی ہوگی کہ ملک کی تاریخ میں جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم کے بعد یہ دوسرا موقع ہے جب کوئی ایک آئینی ادارہ اور محکمہ متنازعہ ہونے سے محفوظ نہیں رہا۔ یہ صورتحال شب بھر میں پیدا نہیں ہوئی۔ عام آدمی یہ بھی پوچھتا دکھائی دیتا ہے کہ اس کا مقدمہ سالہا سال چلتا ہے اور اشرافیہ کو فوری انصاف مل جاتا ہے۔ یہ دوہرا معیار کیوں؟
اس امر پر دو آراء نہیں کہ آئینی اداروں خصوصاً عدالتوں کو متنازعہ نہیں بنایا جانا چاہیے غالباً اسی لئے ماضی میں یہ تجویز سامنے آئی تھی کہ آئینی تنازعات اور سیاسی نوعیت کے مقدمات کی سماعت کے لئے وفاقی دستوری عدالت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نہ صرف اس تجویز پر سیخ پا ہو گئے بلکہ انہوں نے نظام کی بساط لپیٹنے کی دھمکی تک دے ڈالی مگر خود ان کے دور میں انصاف کے حوالے سے جو معروف رائے بنی اگر اس کو مدنظر رکھ کر اگلے برسوں میں سیاسی تنازعات سے دامن بچا کر نظام انصاف کو بہتر بنانے پر توجہ دی جاتی تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ بار دیگر اس امر کی جانب توجہ دلانا ضروری ہے کہ سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے پیدا ہوئی ابتری کے بیچوں بیچ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں دھڑے بندی اور دو تین جج صاحبان پر اٹھائے گئے سوالات ہر دو کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ دیگر امور کے حوالے سے اصلاح احوال نجانے کب ہو لیکن ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے پیدا ہونے والے منفی تاثر کو فوری طور پر زائل کرنے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح ججز کی تقرری کے معاملے کو بھی ازسرنو دیکھا جانا چاہیے ثانیاً یہ کہ قبل اس کے کہ معاملہ بگڑے جناب چیف جسٹس لارجر بنچ میں شامل دو جج صاحبان کے حوالے سے پائے جانے والے تحفظات کو دور کر کے پارلیمان، سیاسی جماعتوں اور بار کونسلوں کا عدالت اور نظام انصاف پر اعتماد بحال کرائیں۔ عدالتیں کسی بھی معاشرے کا سب سے روشن چہرہ اور کردار ہوتی ہیں۔ ہم اس معاملے میں آج کہاں کھڑے ہیں یہ ڈھکی چھپی بات ہرگز نہیں۔ اس کے باوجود عوام کی اکثریت کی انصاف کے حوالے سے آخری امید ہمارا نظام انصاف ہی ہے۔ اسے مزید بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ فوری طور پر جن اقدامات کی ضرورت ہے ان سے صرف نظر نہیں کیا جانا چاہیے۔
ہم مختلف الخیال سیاسی جماعتوں سے بھی مودبانہ درخواست کریں گے کہ وہ بھی ایسی باتیں کرنے سے گریز کریں جن سے عدالتی نظام کی ساکھ پر حرف آئے جن معاملات پر انہیں تحفظات ہیں انہیں تحریری طور پر جناب چیف جسٹس کے علم میں لائیں۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ