مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈپٹی نذیر احمد اردو کے اولین ناول نگار اور عوامی سطح پر مقبول ادیب تھے۔ ان کے ناولوں کی کہانیاں درسی کتب میں شامل ہونے کی وجہ سے ہم سب نے پڑھی ہیں۔ پی ٹی وی سے اکبری اصغری ڈراما بھی نشر کیا گیا تھا۔ انھیں اپنی زندگی میں مقبولیت کے ساتھ مخالفت اور تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ بلکہ اس نے ان کی زندگی پر منفی اثرات مرتب کیے۔
ڈپٹی صاحب نے قرآن کا ترجمہ کیا تھا لیکن اس پر انھیں علما نے داد کم دی، برا بھلا زیادہ کہا۔ اس کی وجہ ان کی بامحاورہ زبان تھی جسے ترجمہ قرآن کے لیے مناسب نہیں سمجھا گیا۔ انھوں نے ترجمے کو چھپوانے سے پہلے فتح محمد جالندھری سے نظرثانی کروائی تھی۔ اس کے باوجود جب ترجمہ چھپا تو مولانا اشرف تھانوی اور دوسرے علما نے اس پر تنقیدی رسالے لکھے۔ رسول اللہ کو پیغمبر صاحب کہنا بہت سے لوگوں کو پسند نہیں آیا۔
ڈپٹی صاحب نے اس کے بعد امہات الامہ کے نام سے کتاب لکھی اور جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، امہات المومنین کی سوانح تھی۔ ان کی تحریر کا انداز برقرار رہا جس پر علما پھر بھڑک اٹھے اور انھوں نے عوامی رائے بھی ڈپٹی نذیر احمد کے خلاف کردی۔ دہلی میں ندوۃ العلما کے جلسے میں ان کی کتاب کے بیشتر نسخوں کو جلادیا گیا۔
اپنی کتاب کا حشر دیکھ کر ڈپٹی صاحب آزردہ ہوئے اور اس کے بعد کچھ نہ لکھ سکے۔ اسی عالم میں انتقال ہوا۔ 38 سال بعد ان کے پوتے اور مشہور ادیب شاہد احمد دہلوی نے امہات الامہ کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا۔ ان کا خیال ہوگا کہ حالات بدل گئے ہیں لیکن مسلمانوں کا مزاج نہیں بدلا تھا۔ چنانچہ پھر ہنگامہ کھڑا ہوا اور اس نسخے کا بھی وہی انجام ہوا جو پہلے کا ہوا تھا۔
میں نے اپنے کتب خانے والے گروپ کا آغاز امہات الامہ کے پہلے نسخے سے کیا تھا۔ آج دوسرا نسخہ، ڈپٹی صاحب کا ترجمہ قرآن، رویائے صادقہ، ایامی اور ان کے پانچوں ناول گوگل ڈرائیو کے ایک فولڈر میں جمع کرکے لنک گروپ میں شئیر کردیا ہے۔ امہات الامہ کی طرح ترجمہ قرآن بھی نایاب ہے اور ریختہ پر بھی موجود نہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ