حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ جی سلام،
"میں پچھلے کئی سالوں سے آپ کو پڑھ رہا ہوں۔ آپ کی ہر تحریر اسلام اور پاکستان کے بغض سے لتھڑی ہوئی ہوتی ہے۔ نام میں تو سید لکھا ہے لیکن اسلام اور مسلمانوں یا پاکستان کے لئے کلمہ خیر کبھی آپ کے منہ سے نکلا نہ قلم نے لکھا۔
سیاسی نظریات آپ کے کیا ہیں مجھے سمجھ نہیں آسکی سوائے اس کے کہ ملک توڑنے والے ذوالفقار علی بھٹو کی محبت میں غرق ہو۔
ہر اس شخص سے نفرت کرتے ہو جو اسلام، امت مسلمہ، پاکستان کے حق میں بات کرے یا یہ کہے کہ ان کے سوا ہماری کوئی حیثیت نہیں۔
یہ ملک اتنا ہی برا لگتا ہے تو اسے چھوڑ کر جہاں دل چاہے نکل (انہوں نے ایک اور لفظ لکھا ہے) جائو اسلام پسند نہیں تو دوسرا مذہب اختیار کرلو۔
آج کل تم اس ملک کی سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف سے بغض کا شکار ہو اٹھتے بیٹھتے پی ٹی آئی اور عمران خان کے خلاف لکھتے رہتے ہو۔
یہ حسد سمجھ میں آتا ہے تم چوروں اور پاکستان توڑنے والوں کے تنخواہ دار جو ہو ۔ اس ملک میں غرض کے بغیر کوئی کسی کی حمایت نہیں کرتا
ہم عمران خان کے ساتھ اسی لئے ہیں کہ وہ ان چوروں کا مخالف ہے جنہوں نے 75سالوں سے لوٹ مار مچارکھی تھی۔ عمران خان نے ان کی چوریاں بے نقاب کیں انہیں ننگا کردیا قوم کے سامنے۔
تم اپنے کالموں اور فیس بک کی پوسٹوں میں عمران خان اور اس کے حامیوں کا مذاق اڑاتے رہتے ہو ۔
کیا سمجھتے ہو لوگ تمہیں سنجیدہ لیتے ہیں بالکل نہیں تمہارا کردار بس بھٹو خانادن کے راکھویں ڈوم کا ہے۔
اس لئے لگے رہو خان اس ملک کے عوام کی اکثریت کی آخری امید ہے ہم اس کے ساتھ کھڑے ہیں تم جیسے ڈوم ہمیں گمراہ نہیں کرسکتے۔
بس چوروں کا دفاع کرتے رہو یہی تمہاری اوقات اور ڈیوٹی ہے۔ واسلام
’’برہان علی اعوان خانیوال‘‘۔
برہان میاں کے خط میں صرف ایک لفظ کا متبادل ’’نکل جائو‘‘ لکھا باقی کا خط من و عن شائع کردیا ہے۔
ای میل کے ذریعے بھجوائے گئے اس خط میں انہوں نے لکھا تھا ’’مجھے معلوم ہے کہ تم میرے خط کا جواب نہیں دو گے اسے اپنے کالم میں شائع بھی نہیں کرو گے کیونکہ تم جیسے لوگ وقت کی آواز اور سچائی سے ڈرتے ہیں‘‘۔
یہ خط مجھے گزشتہ روز موصول ہوا لیجئے میں نے کالم میں شامل کردیا۔ پڑھنے والوں کا لکھنے والوں پر حق فائق ہوتا ہے۔ انہیں اپنی رائے کے اظہار کا اتنا ہی حق ہے جتنا حق لکھنے والوں کو اپنی فہم کے مطابق بات آگے بڑھانے کا۔
ذاتی طور پر مجھے یہ خط لکھنے والے قاری سے کوئی شکوہ نہیں انہوں نے جیسا لکھا ویسا ہی شائع کردیا۔ ایک لفظ تبدیل کیا اور دو جملے سنسر کئے۔ بزرگ کہا کرتے تھے ’’میاں اخلاق بھی کوئی چیز ہے آخر‘‘۔
خان صاحب نے واقعتاً چوروں کو بے نقاب کیا اور اس کے لئے عملی طور پر ہاتھ پائوں مارے سادہ لفظوں میں یہ کہ انہوں نے پریکٹیکل کرکے بتایا سمجھایا کہ چوریاں ایسے کی جاتی ہیں اور پھر اس طرح دامن جھاڑ کر سادھو بنا جاتا ہے۔
اس سے زیادہ جواب کیا لکھا جائے ۔
میں ان کی ساری باتوں سے متفق ہوں جو انہوں نے لکھیں ڈھیروں دعائیں ان کے لئے۔ ہم آگے بڑھتے ہیں۔
عمران خان کے حامی ابھی چند ماہ قبل ان کے مخالفین کی ضمانتیں لئے جانے پر لاہور ہائیکورٹ کو ’’لوہار ہائیکورٹ‘‘ بولا لکھا کرتے تھے۔
سپریم کورٹ اور دوسری عدالتوں کے بارے میں خان صاحب ان کے رفقا اور محبین کی باتیں ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ صرف خان ہی نہیں یہاں دوسروں کو بھی انصاف کی تابندگی ان فیصلوں میں ٹھاٹھیں مارتی محسوس ہوتی ہے جو ان کے حق میں ہوں۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے۔
جب ملک کی سب سے بڑی عدالت نظریہ ضرورت کو پروان چڑھائے اور آئین سے ماوراء اقدامات کے ’’حلال‘‘ ہونے کی اسناد جاری ہی نہ کرے بلکہ ایک فوجی آمر کو آئین میں ترمیم کا حق بھی عطا کردے تو اپنے ذہن سے سوچنے سمجھنے والے رائے قائم کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
ماضی قریب میں اس وقت کی حکومت کے بعض مخالفوں کو دو دو سال ضمانتیں نہیں ملتی تھیں۔ بعض عدالتوں کے فیصلے اور قبل ازیں دوران سماعت کے ریمارکس سے یہ تاثر بندھتا تھا کہ متوازی حکومت چلائی جارہی ہے۔ ہم ایسے قلم مزدور تب بھی یہی عرض کرتے تھے کہ آئین کی حدود میں رہ کر فرائض کی ادائیگی کی بدولت بہت ساری قباحتوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔
ہمیں ایک دوسرے کو اختلاف کا حق دینا چاہیے۔ کم از کم میں کسی سیاسی جماعت اور شخصیت کو اللہ کے بعد آخری امید نہیں سمجھتا۔ ہر شخص اور جماعت اپنے عہد کے کردار پروگرام اور اقتدار ملنے کی صورت میں پروگرام پر عمل کے حوالے سے زبحث آتے ہیں۔
خان صاحب کے پاس 300ماہرین کی ٹیم تھی اور فیثا غورت ثانی اسد عمر بھی، انہوں نے 90دن میں اس ملک کی حالت بدل دینی تھی۔ سچ یہ ہے کہ انہوں نے بہت محنت کے ساتھ اس ملک کی حالت بدلی ان کا فیثا غورث ثانی ایک نجی ادارہ نہیں چلاپایا تھا جو حشر اس نے اپنی ملازمت والے ادارے کا مالیاتی طور پر کیا وہی اس نے پاکستان کے مالیاتی نظام کا کیا۔
پونے چار برسوں میں کتنے وزیر خزانہ بنائے انہوں نے یہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ خود بطور وزیراعظم ان کی ایک تقریر بیان انٹرویو جو پالیسی کا بیانیہ سمجھا جاسکے؟
تلاش کیجئے، ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے۔ البتہ اسلام آباد سے ریاض، انقرہ اور نیویارک تک انہوں نے اپنے مخالفین کی چوریوں کا ڈھول پیٹا۔ امریکہ میں کھڑے ہوکور اعلان کیا واپس جاکر فلاں فلاں کو جیل میں ڈالوں گا اور وہ فلاں فلاں جو جیل میں ہیں ان کے کمروں سے اے سی اتارلوں گا۔
جیل کے قوانین انہوں نے کبھی پڑھے ہوتے تو جان پاتے کہ یہ قوانین کیا کہتے ہیں۔
نوازشریف کو بیرون ملک بھجوانے سے قبل انہوں نے اپنے ذاتی ہسپتال کے ملازم ڈاکٹر فیصل کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی اس کمیٹی نے پنجاب حکومت کے میڈیکل بورڈ کی معاونت سے وزیراعظم کو ایک رپورٹ پیش کی کپ محمد نواز شریف شدید بیمار ہیں اس رپورٹ کی بنیاد پر نوازشریف کو بیرون ملک بھجوایا گیا۔
وہ رپورٹ جعلی تھی تو کارروائی ڈاکٹر فیصل اور ڈاکٹر یاسمین راشد کے ساتھ میڈیکل بورڈ کے ارکان کے خلاف ہونی چاہیے تھی کیوں نہیں ہوئی؟
اپنے ہر مخالف کو چور ڈاکو اور بہت کچھ کہتے آرہے ہیں خود اپنی اہلیہ کی سہیلی کے وکیل صفائی بن بیٹھے اس کی ضرورت کیا تھی۔ چوریوں اور کرپشن کے الزامات صرف ان پر ہی نہیں اہلیہ، سہیلیوں، بعض دوستوں اور خاندان کی خواتین پر بھی ہیں۔
اب یہ سارے الزامات ان کے مطابق سیاسی پروپیگنڈے کا حصہ ہیں لیکن بقول ان کے زرداری اور شریفوں کی کرپشن کے ثبوت انہیں ایجنسیوں نے دیکھائے تھے۔
خان صاحب تواتر کے ساتھ کہتے ہیں مجھے ایک سازش کے تحت نکالا گیا۔ یہ سازش پہلے بدیسی تھی اب دیسی ہوگئی ہے۔ کسی دن وہ یہ بھی بتادیں کہ انہیں لانے کی سازش کس نے رچائی تھی؟
کیوں 2018ء کے انتخابی عمل کے دوران ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ان کے لئے مینجمنٹ کی؟ خان صاحب ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ طاقتوروں کا قانون کے نیچے نہ آنا اور عدالتوں کا انہیں ریلیف دینا ہے۔
ریلیف تو اب انہیں بھی مل رہا ہے کچھ اس پر ارشاد ہو۔ ان کے حامی کہتے ہیں ان کے زمان پارک والے گھر کے باہر ہر مردوزن کارکنان کا اپنے قائد کی حفاظت کے لئے موجود ہجوم پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔
اس سے پہلے کسی لیڈر کی اس طرح حفاظت نہیں ہوئی۔ جی بالکل وہ لیڈران جیسے بھی تھے جیل جانے سے نہیں ڈرتے تھے ہمارے خان صاحب ڈرتے ورتے تو خیر جیل جانے سے نہیں بس جیل نہیں جانا چاہتے۔ مشرف دور کی 2دن کی جیل کا تجربہ بہت تلخ رہا تھا۔
زمان پارک کے باہر موجود ہجوم میں کتنے کارکن ہیں اور کتنے لوگ سینیٹر فیصل جاوید خان کی کمپنی کے دیہاڑی دار یہ حساب الگ ہے۔
فقیر راحموں کے خیال میں خان کی یہ بات سچ ہے کہ ’’میں تو پہلے ہی کہتا تھا میرے بعد کوئی بھی اس ملک کو سنبھال نہیں پائے گا‘‘۔
اس ارشاد گرامی پر تبصرہ کیا جاسکتا ہے لیکن ’’فیدہ کی‘‘۔ وہ بیمار ہیں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ اینٹی کرپشن پنجاب کے سابق سربراہ اس جے آئی ٹی کے رکن تھے جو وزیرآباد حملے کی تحقیقات کررہی تھی اب وہ رپورٹ غائب ہے۔
خان صاحب پر واقعی حملہ ہوا تھا یا یہ تین ایکٹ کا ڈرامہ تھا۔ سچ سامنے میڈیکل بورڈ کے ذریعے آسکتا ہے۔
خان صاحب صرف شوکت خانم کے علاج اور میڈیکل سرٹیفکیٹ پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ یقیناً بڑے لیڈر ہیں لیکن ضروری نہیں بڑا لیڈر بڑا انسان بھی ہو۔
چار اور موجود لوگوں کی طرح ایک عام آدمی ہیں جسے ایجنسیوں نے بڑا آدمی اور لیڈر بناکر پیش کیا اب بھگت بھی رہے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جمہوریت پسند (بقول ان کے) سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ آجکل ان کی دہنی توپوں کے نشانے پر ہے، رہے ہمیں کیا۔
خان صاحب کا البتہ یہ مطالبہ درست ہے کہ جنرل باجوہ کے خلاف حلف کی خلاف ورزی پر کارروائی ہونی چاہیے بس اس میں اتنا اضافہ کرلیجئے کہ کارروائی 2018ء کی انتخابی مینجمنٹ سے شروع ہو تو زیادہ بہتر رہے گا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ