نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پرویز مشرف کا دور، عدالتی فیصلہ اور چند حقائق۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہائیکورٹس کے جج صاحبان پر مشتمل جس خصوصی عدالت نے سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کو سنگین غداری کے مقدمہ میں سزائے موت کا حکم سنایا تھا اس عدالت کے فیصلے اور خود عدالت کی حیثیت پر کوئی ہائیکورٹ فیصلہ دے سکتی تھی نہ ہی حکم امتناعی یا فیصلہ کالعدم ۔ لاہور ہائیکورٹ کے خصوصی عدالت کے فیصلے کو کالعدم کرنے کا فیصلہ خود عدالتی اختیارات سے تجاوز تھا۔
بادی النظر میں یہی محسوس ہوتاہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے جس بنچ نے خصوصی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا اس بنچ نے خصوصی عدالت کے لئے بنائے گئے ٹی آر او کو حکم سناتے وقت سامنے نہیں رکھا تھا۔ ’’ٹی آر او‘‘ کے مطابق ہائیکورٹ کی مساوری حیثیت کی عدالت کا فیصلہ صرف سپریم کورٹ میں چیلنج ہوسکتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ خود جنرل پرویز مشرف کے وکلاء نے خصوصی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ سپریم کورٹ کے بنچ نمبرون میں اس کی درجن بھر سے زائد سماعتیں ہوئیں ۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ کو کالعدم قرار دیا نہ کوئی حکم امتناعی جاری کیا البتہ مشرف کی درخواست پر ہوئی سماعتوں کے دوران ایک سے زائد بار سپریم کورٹ نے ان کے وکلاء سے کہا کہ حکم امتناعی یا فیصلہ کالعدم قرار دینے سے قبل جنرل مشرف پاکستان واپس آکر سرنڈر کریں۔
مشرف اور ان کے وکلاء جانتے تھے کہ سرنڈر کرنے کا مطلب فوری طور پر جیل جانا ہوگا غالباً یہی وجہ ہے کہ مشرف نے پاکستان واپس آنے سے گریز کیا۔
اب قانونی صورت تو یہی رہی کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ اپنی جگہ موجود ہے۔ اس فیصلے کی قانونی حیثیت، بعض پیراگراف میں موجود طالبانی قبائلی عصبیت و روایت پر بحث مقصود نہیں۔
البتہ نرم سے نرم الفاظ میں یہ عرض کرسکتا ہوں کہ ہمیں (جملہ پاکستانیوں) کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ہم ملک میں قانون کی بالادستی بطور قانون چاہتے ہیں یا زمانہ جاہلیت کی قبائلی روایات پر عمل کو قانون کا نام دینا چاہتے ہیں۔ تاریخ و سیاست اور صحافت کے مجھ ایسے طالب علم کے نزدیک دستور و قانون کی بالادستی عصری شعور کے ساتھ ہو تو مناسب ہے یہی طریقہ ہے باوقار انداز میں آگے بڑھنے کا۔
یہ کہنا کہ بنو امیہ اور بنو عباس یا دوسرے حکمران اپنے مخالفین کی ہڈیاں تک قبروں سے نکال کر جلادیتے تھے کوئی قابل فخر مثال نہیں۔ برطانیہ کی ایک پرانی مثال بھی قانون کی بالادستی سے زیادہ بادشاہت کے دبدبے سے عبارت ہے۔
ہم اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں جی رہے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ صرف ڈیڑھ عشرہ قبل سواتی طالبان کی جانب سے مردوں کو قبروں سے نکال کر پھانسیاں دینے اور لاشیں گھسیٹنے کے عمل کو اسلامی تعلیمات، جمہوریت اور انسانیت کی توہین قرار دینے والے مشرف کے خلاف جسٹس سیٹھ وقار کی خصوصی عدالت کے فیصلے پر من و عن عمل نہ ہوسکنے کو جمہوریت اور قانون کی توہین قرار دے رہے ہیں۔
میں یہ عرض کئے بنا نہیں رہ سکتا کہ سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کی محدود آخری رسومات درس عبرت ہیں۔ ایک ہال میں گارڈ آف آنر پیش کرنا اور چُپ راست کے ساتھ فوجی قبرستان میں تدفین سے عملی طور پر ثابت ہوا کہ ریاست جتنی بھی طاقتور ہو عوام سے زیادہ طاقتور نہیں ہوتی۔
روایتی انداز میں آخری رسومات کے مانع عدالتی فیصلہ تھا یہی قانون اور عوام کی جیت ہے۔ باقی کسی مرحوم کی تدفین کو روکا نہیں جاسکتا۔
مشرف رخصت ہوئے اب ان کا دور تاریخ کا حصہ ہوا۔ وہ ایک طویل عرصہ سے شدید علیل تھے۔ طبی رپورٹس کے مطابق انہیں ’’ایمیلوئیڈوس‘‘ نامی بیماری لاحق تھی یہ اعضا کو لاحق ہونے والی ایک بیماری ہے جس میں ہڈیاں گھلنے لگتی ہیں۔ وہ18مارچ 2016ء سے اس بیماری میں مبتلا تھے اسی کے علاج کے لئے دبئی کے امریکی ہسپتال میں زیرعلاج بھی۔
اس خوفناک بیماری کو قدرت کی پکڑ قرار دے کر جھومتے ’’دینداروں‘‘ سے بھی اتفاق نہیں۔ ہم اصل میں مخالف کی بیماری کو قدرت کی پکڑ قرار دے کر ’’دلپشوری‘‘ کرتے ہیں۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ مخالف طاقتور ہوتا ہے ہم اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے اس لئے قدرت کی پکڑ والی ’’بات‘‘ سے مطمئن ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
عدالتی سماعتوں سے نکال کر پہلے ہسپتال اور پھر بیرون ملک بھجوانے میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا اہم کردار تھا۔ ہمیں اس سارے معاملے کو یوں دیکھنا سمجھنا ہوگا ہوگا کہ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان اصل میں ایک سکیورٹی سٹیٹ ہے۔ فوج اس ملک کا سب سے طاقتور محکمہ ہے۔
فیصلہ سازی اور دیگر معاملات میں اس نے خود اہمیت حاصل کی یا سیاستدانوں نے یہ پلیٹ میں رکھ کر دی؟ کیا یہ دلچسپ بات نہیں کہ سیاستدان تو اپنے ہی ایک ساتھی کو پھٹے لگوانے کے لئے فوجی حکومت کی چوبداری پر فخر کرتے ہیں۔ دستور روندنے والوں کی پاپوش گیری کو وجہ عزت سمجھتے ہیں۔
ہم چار فوجی ادوار کی تاریخ کے اوراق الٹیں تو بہت سارے دیندار، نابغہ روزگار ہمیں درباریوں کی صفوں میں بیٹھے دیکھائی دیں گے۔ میں ان سطور میں ہمیشہ یہ عرض کرتا آیا ہوں کہ عوامی جمہوریت کی منزل کا راستہ اشرافیائی (طبقاتی جمہوریت) کے کوچے سے نکل سکتا ہے شخصی یا فوجی آمریت کے خاتمے پر ایک بار پھر طبقاتی جمہوریت ہمارے گلوں کا طوق بن جاتی ہے۔
ہم جیسے طالب علم عرض ہی تو کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ فوج نے بطور محکمہ فیصلہ کیا کہ اپنے ایک سابق سربراہ کو مشکل حالات اور عدالتی جھمیلوں سے نکال کر بیرون ملک بھجوادیا جائے۔ اس فیصلے پر عمل ہوا، سیاستدان کچھ نہیں کرسکے۔
لیکن لُولی لنگڑی جمہوریت میں یہ بھی غنیمت تھا کہ ایک فوجی آمر کے خلاف آئین کی دفعہ 6 کے تحت مقدمہ چلا اور سزا بھی ہوئی۔ یہ سزا کا خوف ہی تھا کہ مشرف اپنی زندگی میں واپس نہ آسکے۔
آیا تو مشرف کا تابوت ، اور آخری رسومات ان میں سبق ہے ان لوگوں کے جو خود کو اپنے عصر کی ’’قدرت‘‘ سمجھ لیتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کا فیصلہ آج بھی موجود ہے۔
اچھا اس سارے معاملے کو کسی نسلی اکائی یا یوں کہہ لیجئے اردو بولنے والے کراچی میں مقیم اسی طبقے سے جوڑنا جو خود کو پچھتر برسوں بعد بھی مہاجر کہتا کہلواتا ہے کسی بھی طرح درست نہیں۔
اس ضمن میں چند باتیں کل والے کالم میں عرض کرچکا۔ جنرل مشرف کو کراچی اور مہاجروں کا محسن قرار دینے والے شعوری یا غیرشعوری طور پر مقامی قوموں کی توہین کررہے ہیں۔
ایم کیو ایم بہادر آباد نے جناب الطاف حسین کی ایم کیو ایم کی کوکھ سے جنم لیا۔ اس ایم کیو ایم ( الطاف حسین والی ) پر یقیناً جنرل پرویز مشرف بہت مہربان ہوئے وہ اسے اپنی طاقت قرار دیتے تھے۔
12مئی 2007ء کی شام انہوں نے اسلام آباد میں جو تقریر کی وہ 13مئی 2007ء کے اخبارات میں موجود ہے کسی بھی اچھی پبلک لائبریری سے رجوع کیجئے اور ان کی تقریر کا متن پڑھ لیجئے۔
جنرل ضیاء الحق کی افغان جہادی پالیسی اور جنرل پرویز مشرف کی اینٹی جہادی افغان پالیسی ان دونوں نے اس ملک کو جو گہرے گھائو لگائے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ دونوں کی پالیسیاں امریکہ نوازی پر استوار ہوئیں۔
جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو (1999ء میں ) پاکستان کے ذمہ کل بیرونی قرضے 32ارب ڈالر تھے۔ 2008ء میں جب وہ مواخذہ کے خوف سے مستعفی ہوئے پاکستان پر بیرونی قرضے 49ارب ڈالر تھے۔ یہ ڈھمکیری ہی ہے کہ ان کے دور میں آئی ایم ایف وغیرہ سے نجات مل گئی۔
انہوں نے 9/11کے بعد جب امریکہ سے آنے والی ایک ٹیلیفون کال پر ڈھیر ہوتے ہوئے امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو ہم ایسے قلم مزدوروں نے ایک سے زائد بار عرض کیا تھا کہ اگر امریکہ کا ساتھ دینا اتنا ہی ناگزیر تھا تو پاکستان کو چاہیے تھا کہ کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے کے وقت مصر کے اپنائے گئے طرزعمل کی پیروی کرتا اس طرح بیرونی قرضے معاف کرائے جاسکتے تھے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف کی امریکہ نواز افغان پالیسیوں کی بدولت جو امداد اور لاجسٹک سپورٹ فنڈ کی رقم ملی اس کا کوئی حساب نہیں البتہ فوجی فائونڈیشن کا کاروبار ضرور مستحکم ہوا۔
ان دونوں ادوار میں امیروکبیر ہونے والے جہادی و اینٹی جہادی سب کے سامنے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف یقیناً ایم کیو ایم کے محسن تھے لیکن وہ محسن پاکستان بہرطور نہیں تھے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر والے معاملے میں بھی انہوں نے اصل مجرموں کو بچانے کے لئے انہیں قربانی کا بکرا بنایا تھا ورنہ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ کوئی کاروبار ہوسکے (جیسا کہ ہمیں بتایا گیا کہ ایٹمی کاروبار ہوا) مودبانہ انداز میں ایم کیو ایم اور چند جذباتی خواتین و حضرات سے یہ درخواست کی جاسکتی ہے کہ مشرف کے معاملے کو مہاجروں کی توہین کا رنگ دینے سے اجتناب کیجئے کیونکہ جوابی سوالات اور تاریخ کے اوراق پھرولنے سے بات بہت دور تلک جائے گی ایسا ہوا تو اس سے صرف نفرتوں کا کاروبار کرنے والوں کو فائدہ ہوگا۔ ( ختم شد )

یہ بھی پڑھیں:

About The Author