نومبر 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مشرف دور کی کچھ اور باتیں۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چوتھے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کی وفات کی خبر کے بعد اہل پاکستان کا ملا جلا ردعمل ہے ان کے معتوبین ان کی خامیوں، آئین شکنی، ان کے دور میں ہوئے مظالم کی نشاندہی کررہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے کچھ لوگ پرویز مشرف کے جرائم گنوانے والوں پر مہاجر دشمن کی پھبتی کس رہے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے قائدین میں سے اکثر ان کے گُن گارہے ہیں ۔

فواد چودھری نے کہا مشرف بڑے آدمی تھے ان کے دوست چھوٹے لوگ تھے ۔ پتہ نہیں کیوں نہ چاہتے ہوئے بھی فواد کی بات سے اتفاق ہے۔

ایم کیو ایم کے بعض حلقوں کا یہ کہنا کہ چونکہ مشرف دہلی کے مہاجر تھے اس لئے ان کی مخالفت کی جارہی ہے اور ان کی وفات کےبعد کچھ لوگ ان کے بارے میں ناروا جملے بول رہے ہیں۔ ہم اگر اس بات کو بالفرض درست مان لیں تو پھر پختونوں کو پہلے اور دوسرے فوجی آمر جنرل ایوب اور جنرل یحیٰ کی مخالفت بعداز مرگ ترک کردینی چاہیے اور پنجابی بولنے والوں کو جالندھر سے ہجرت کرکے آنے والے خاندان سے تعلق رکھنے والے جنرل ضیاء الحق کی بعد از مرگ مخالفت سے توبہ کرلینی چاہیے اس توبہ میں نصف حصہ خیبر پختونخوا کے لوگوں کو بھی ڈالنا چاہیے کیونکہ جنرل ضیاء الحق کے والد فوج میں پیش نماز مولوی اکبر علی کو جالندھر کے مکان کے بدلے میں مکان پشاور صدر میں الاٹ ہوا تھا۔

فقیر راحموں بضد ہے کہ "دومارشل لاء مہاجر جرنیلوں نے لگائے اور دو خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے جرنیلوں نے۔

ایم کیو ایم کا اصل دکھ یہ ہے کہ جنرل مشرف کے دور میں اس نے فوجی حکمران کی نجی ملیشیا کے طور پر فرائض سرانجام دیئے تھے ۔ 12مئی 2007ء کی شام اسلام آباد میں پرویز مشرف نے مُکے لہراتے ہوئے کہا تھا ’’دیکھا میری طاقت کو‘‘۔

ہمیں سمجھنا ہوگا کہ فوجی آمر فوجی آمر ہوتا ہے وہ خود کو کسی نسل اکائی سے جوڑے یا کوئی نسل اکائی خود کو اس سے یہ مشترکہ مفادات کے سودے ہوتے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ جنرل پرویز مشرف فوجی آمر تھے انہوں نے دو بار آئین توڑا۔ گزشتہ کالم میں سنگین غداری والے مقدمے میں ان کو دی گئی سزا کے فیصلے کے بعض پیرا گراف پر عرض کیا تھا کہ وہ طالبانی سوچ سے عبارت تھے۔

ایسا دو وجوہات پر لکھا۔ اولاً یہ کہ سوات میں طالبان نے مردوں کو قبر سے نکال کر پھانسیاں دی تھیں ثانیاً یہ کہ فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کے ایک رکن جسٹس وقار سیٹھ ایک خاص مائنڈ سیٹ کے حامل تھے۔

میں نے سوشل میڈیا اپنے ایک اکائونٹ پر جسٹس وقار کی عدالت سے دو سو قریب دہشت گردوں کی ضمانتیں لئے جانے پر سوال اٹھایا تو کچھ احباب جذباتی ہوگئے ان کے بقول جسٹس وقار کا فیصلہ تاریخ ساز تھا میں حقائق کو مسخ کررہا ہوں۔ میرے قانون دان دوست وقاص بٹ کہتے ہیں کہ جسٹس وقار نے فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف فیصلے دیئے تھے

فوجی عدالتوں میں مقدمات کی سماعتوں اور فیصلوں میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے تھے۔ جذباتی احباب اور وقاص بٹ ایڈووکیٹ کی آراء سر آنکھوں پر لیکن یہ فوجی عدالتیں بنائی کس نے تھیں۔

پارلیمان کی اجازت سے بنیں یا صدارتی آرڈیننس پر؟ فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ پارلیمان کا تھا اس عمل کو سپریم کورٹ کی تائید حاصل تھی۔ ان کا قیام اور فیصلے غلط تو پھر پارلیمان اور سپریم کورٹ دونوں غلط ہوں گے۔

ثالثاً یہ کہ جسٹس وقار کے ضمانتوں اور بریت والے کئی فیصلے میڈیا مینجمنٹ سے متاثر تھے۔

جنرل پرویز مشرف فوجی آمر تھے اس پر دو آراء نہیں انہوں نے ملک کا آئین توڑا البتہ آئین اس سے پہلے بھی تین بار توڑا گیا۔ کاش کوئی حکومت حوصلہ کرے اور سارے آئین شکنوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔ ایسا ہوگا نہیں وجہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔

پرویز مشرف نے 9/11 کے بعد ایک امریکی افسر کی ٹیلیفون کال پر امریکہ کا اتحادی بننے کا فیصلہ کیا۔ وہ اس کے سوا کیا کرتے۔ افغان طالبان کے ساتھ کھڑے ہوتے یا غیرجانبدار ہوجاتے (یعنی عمران خان کے بقول جانور بن جاتے)

انہوں نے اپنے ایک ماتحت میجر جنرل احتشام ضمیر (اب مرحوم) کے ذریعے 2002ء کے عام انتخابات سے قبل ملا ملٹری الائنس ایم ایم اے بنوایا اس متحدہ مجلس عمل کے امیدواروں کو وسائل اور گاڑیاں ان کے ماتحت اداروں نے دیں اور مسلم پشتون ولی کا پروپیگنڈہ اچھالا گیا یہ دراصل مشرف کی دوغلی پالیسی کا بیانیہ تھا وہ امریکہ اور مغرب کو باور کرارہے تھے کہ اگر میں نہ ہوتا تو پشتون علاقوں سے باہر سے بھی ایم ایم اے جیت جاتی۔

ان کے اثاثے ان کی سرکاری ملازمت اور مراعات سے کہیں زیادہ ہیں۔ سعودی بادشاہ شاہ عبداللہ سے ڈالروں سے بھرا بریف کیس وصول کرنے کا تو انہوں نے زندگی میں ہی اعتراف کیا۔

انہوں نے کہا تھا ’’شاہ عبداللہ نے مجھ سے پوچھا کہ میرا لندن وغیرہ میں کوئی گھر ہے؟ میں نے نفی میں جواب دیا تو انہوں نے ایک معاون کو اشارہ کیا جس نے میری طرف بریف کیس بڑھادیا۔ شاہ بولے یہ ایک بھائی کا دوسرے بھائی کے لئے تحفہ ہے ” ۔ مشرف خود بھی اعتراف کرگئے کہ امریکیوں کو مطلوب افراد کی حوالگی سے پیسہ کمایا گیا۔ یہاں بہت سادہ سوال ہے وہ یہ کہ خالد شیخ سمیت امریکہ کو مطلوب جتنے بھی افراد کی حوالگی پر رقم ملی وہ کہاں گئی۔ ملکی خزانے میں یا مشرف اینڈ کمپنی کی جیب میں؟

انہوں نے الطاف حسین سے سمجھوتے پر ڈاکٹر عشرت العباد کو لندن سے بلاکر سندھ کا گورنر بنایا تب عشرت العباد کے خلاف کراچی کے مختلف تھانوں میں سنگین نوعیت کے 9 مقدمات درج تھے اور وہ لگ بھگ 10برسوں سے مفرور تھے ان کی تقرری سے قبل صدارتی فرمان کے ذریعے پارسائی کی سند عطا کی گئی۔ تحریر نویس نے مشرف دور میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’’جرنیلی جمہوریت‘‘ میں صفحہ 187سے 190ء تک پر ان مقدمات کی تفصیل لکھی تھی۔

ان کے پہلے وزیراعظم میر جبل خان ظفر اللہ جمالی نے منتخب ہوتے وقت 188ووٹ لئے تھے ان ووٹوں میں پی پی پی کے محب وطنوں کے 10ووٹ، اعظم طارق کا ووٹ، متحدہ مجلس عمل کے تین، (ن) لیگ کے 2کے علاوہ بلوچستان سے عبدالرئوف بلوچ کا ووٹ بھی شامل تھے جبکہ آفتاب شیرپائو، ایم کیو ایم وغیرہ تو تھے ہی ق لیگ کے اتحادی ۔

ان کی آدھی کابینہ ان کے ہی بنائے ہوئے احتساب کے ادارے نیب کے ملزمان پر مشتمل تھی۔ وزیراعظم تو خیر گندم سکینڈل کے ایک مقدمہ میں مفرور بھی تھے۔

ان کی افغان پالیسی جنرل ضیاء الحق کی افغان پالیسی کی طرح امریکہ نوازی سے عبارت تھی۔ اپنے دور میں انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ایک فارمولہ بھی دیا جسے پذیرائی نہ مل سکی۔

گجرات والے چودھری پرویزالٰہی نے انہیں دس بار وردی میں صدر مملکت منتخب کروانے کی ’’بڑ‘‘ بھی ماری تھی۔ مشرف کے صدارتی ریفرنڈم میں عمران خان نے پرجوش انداز میں ان کی حمایت کی۔

ایک وقت تک یہ تاثر بھی دیا گیا تھا کہ عمران خان مشرف کے کرائے گئے انتخابات کےبعد وزیراعظم ہوں گے لیکن 2002ء کے انتخابات سے قبل ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر ان کا عمران سے اختلاف ہوا۔

” لبرل” مشرف کے حامی عمران نے مولانا فضل الرحمن کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ دے دیا۔

پرویز مشرف نے سیاسی جماعتوں بالخصوص پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کو توڑنے کے لئے وہی ہتھکنڈے آزمائے جو ہر فوجی آمر آزماتا ہے۔ پیپلزپارٹی پیٹریاٹ کیسے قائم ہوئی اس کے لئے مخدوم سید فیصل صالح حیات سے پوچھا جاسکتا ہے۔ مشرف دور میں سماجی ترقی کا معیار یہ تھا کہ ایک تقریر میں انہوں نے کہا لوگوں کے پاس موبائل ہیں، موٹرسائیکلیں اور کاریں اور ترقی کیا ہوتی ہے ۔

لال مسجد آپریشن ریاستی رٹ قائم کرنے کے لئے تھا قبائلی علاقوں میں بنی چھوٹی چھوٹی نجی ریاستوں والے سابق مجاہدین کے خلاف آپریشن انسداد دہشت گردی کی امریکی جنگ میں پاکستان کے نئے کردار کا تقاضا بھی تھا۔ پہلے ہم نے مجاہدین ساز فیکٹریاں لگائیں ان کے دور میں ان فیکٹریوں کے خلاف آپریشن کلین اپ کیا گیا۔

ان کے دور کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ کو مطلوب القاعدہ کے گرفتار ہونے والے 100میں سے 90 افراد جماعت اسلامی والوں کے گھروں سے برآمد ہوئے۔ عجیب بات یہ ہے کہ مشرف نے فرقہ پرست تنظیموں اور لشکروں پر تو پابندی لگائی مگر القاعدہ کے خالد شیخ سمیت دیگر افراد کو پناہ دینے والی جماعت اسلامی کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی کیونکہ وہ جنرل احتشام ضمیر کے چائلڈ بے بی ایم ایم اے کا حصہ تھی۔

وہ تواتر کے ساتھ کہتے پھرے نوازشریف اور بینظیر بھٹو ماضی کا حصہ ہوئے لیکن یہ خدائی دعوے راس نہ آئے۔

محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کی شب وزارت داخلہ کے ترجمان بریگیڈیئر جاوید اقبال نے پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ لیاقت باغ کے سٹیج کے عقب سے ایک غیرملکی کی لاش ملی ہے ہم تحقیقات کررہے ہیں لیکن 28دسمبر کو بارہ بجے دن وہ اپنی رات والی بات سے مکر گئے۔

غیرملکی کی لاش ملنے کی تحقیقات ہوتی کو افغان صدر حامد کرزئی کی محترمہ بینظیر بھٹو سے ملاقات (یہ شہادت والے دن صبح ہوئی تھی) میں کہی بات درست ہوجاتی کہ غیرملکی شوٹر پاکستان پہنچادیا گیا ہے محترمہ آج شام لیاقت باغ کے جلسہ میں شرکت نہ کریں۔

مشرف کو عدالت میں پیش کرنے کی بجائے ہسپتال لے جانا اور پھر دبئی بھجوانے میں اس وقت کے آرمی چیف راحیل شریف کا کردار تھا یہی اس ملک کی تاریخ ہے۔ اور اب چوتھے فوجی آمر جنرل مشرف بھی تاریخ کا حصہ ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author