اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

رحیم یارخان ڈی پی او کی رخصتگی اور وکیل کا سچ||جام ایم ڈی گانگا

جام ایم ڈی گانگا سرائیکی وسیب کے ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے صحافی اور سماجی رہنما ہیں، وہ مختلف موضوعات پر مختلف اشاعتی اداروں میں لکھتے رہتے ہیں انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

جام ایم ڈی گانگا

03006707148

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ضلع رحیم یارخان کے ڈی پی او محمد اختر فاروق یہاں سے ٹرانفسر ہو چکے ہیں. ان کی جگہ اسلام آباد پولیس سے رضوان عمر گوندل نئے ڈی پی او تعینات ہو چکے ہیں. اختر فاروق کو رحیم یار خان پولیس اور خاص طور پر عوام نے جس انداز و محبت سے رخصت اور الوداع کیا ہے.مجھے کمیونٹی پولیسنگ کے بانی سابق عوامی ڈی پی او سرمد سعید خان کا دور اور عوامی الوداعی مناظر یاد آگئے ہیں.اختر فاروق نے ضلع رحیم یارخان خاص طور پر کچے کے نوگو ایریاز میں امن کی بحالی کے لیے جس مدبرانہ و پیشہ وارانہ انداز میں کام کیا وہ قابل تعریف ہے. بلاشبہ ہر شعبے کی طرح پولیس میں بھی کئی کالی بھیڑیں اور بہت سارے کاروباری سوچ کے حامل جرثومے موجود ہیں. جو پولیس کے مثبت کام اور کارکردگی پر سوالیہ نشان بعض اوقات داغ بن جاتے ہیں. خیر یہ ایک علیحدہ بحث اور ٹاپک ہے. جس پر پھر کبھی کھل کر بات کریں گے. ایسے کردار، ان کے سہولت کار اور سرپرست کون ہیں. ایک منظم محکمہ کے اندر یہ منظم گروہ کیسے کام کرتا ہے.
سابق ڈی پی او اختر فاروق رحیم یارخان سے جانے سے قبل صادق آباد کے کچے کے ان علاقوں میں گئے جن کا نام سن کر لوگ خوف کھاتے تھے. پولیس کے جوان وہاں جانے سے کتراتے اور ڈرتے تھے. وہاں قائم کی گئی چوکیوں اور پکٹس میں تعینات پولیس کے جوانوں سے الوداعی ملاقاتیں کیں. ان کے کام کی تعریف کرکے ان کا حوصلہ بڑھایا. اس دوران جیسے ہی عوام کو اختر فاروق کی آمد کا پتہ چلا لوگ ان کے روٹس کے مختلف جگہوں پر جمع ہو کر جس محبت و والہانہ طریقے سے انہیں عوامی الوداعی سلامی پیش کی یقینا یہ اُن کے کام و کارکردگی پر مطمئن ہونے کی وجہ سے اظہار محبت ہے.پھولوں کی پتیاں نچھاورکی گئیں، ہار اور مالائیں پہنائیں گئیں.یہ عوامی پذیرائی خوش نصیب آفیسران کے حصے میں ہی آتی ہے.زاہد نواز مروت کی رحیم یارخان سے رخصتگی بھی ہمیں یاد ہے. مخصوص و سرمایہ دار طبقے کی جانب سے استقبال یا الوداعی تقریبات اور بات ہوتی ہے. یہ عوامی محبت کا رنگ اور بات ہوتی ہے.نئے تعینات ہونے والے ڈی پی او رضوان عمر گوندل کو اسلام آباد پولیس کے کپتان فُل فرائی فیم سہیل ظفر چٹھہ اور ان کے ساتھیوں نے جس پرتپاک انداز میں وہاں سے الوادع کرکے رحیم یارخان کے لیے روانہ کیا ہے.امید ہے کہ مسٹر گوندل اپنے پیشرو کے علاوہ سہیل ظفر چٹھہ کی قربت سوچ و افکار اور تجربہ سے بھی بھرپور استفادہ حاصل کرتے ہوئے ضلع کے امن کو برقرار اور بہتر بنانے میں خوب کردار ادا کریں گے. اپنے کان اور اپنے دفتر کے دروازے عام لوگوں کے لیے کھلے رکھنے والے آفیسران ہمیشہ کامیابی اور عزت و احترام پاتے ہیں.
صادق آباد ضلع رحیم یارخان سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل منور ضیا نے اپنی برادری وکلاء کے حوالے سے کس قدر سچ کہا ہے.وہ کہتے ہیں کہ ہم وکلاء اس نظام عدل کو گندہ کرنے میں برابر کے حصہ دار ہیں.
ہائیر جوڈیشری پریکٹسنگ وکلاء سے بنتی ہے. اس میں جنرل یا بیورو کریٹ نہیں ہوتے صرف وکیل ہوتے ہیں ہم اپنے گریبان میں جھانکیں.
اس وقت سول سوسائٹی خاص طور پر وکلاء پارٹی وابستگی اور جی ایچ کیو غلامی سے باہر نکل کر ملکی سلامتی اور بقاء کیلئے اپنا کردار ادا کریں.
محترم قارئین کرام،، بظاہر یہ دو چھوٹے چھوٹے پیراگراف اپنے اندر بہت کچھ لیے ہوئے ہیں. گویا یہ ایک پوری کتاب ہیں انہیں کھول کر، غلامی کے کھوپے اتار کر، سمجھ کر پڑھنے کی ضرورت ہے.بلاشبہ وکلاء صاحبان جوڈیشری کا ایک پہیہ ہیں.منور ضیا کا یہ کہنا کہ ہم وکلاء اس نظام عدل کو گندہ کرنے میں برابر کے شریک ہیں. یہ سو فیصد درست اور حقیقت پر مبنی بات ہے. وکلاء میں چھپی کالی بھیڑیں واقعی نظام عدل کو گندہ کرنے میں ملوث ہیں. نیچے سے اوپر تک بہت ساری تلخ حقائق کی حامل مثالیں موجود ہیں.جن پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے. اپنے بچوں کا ڈگری شدہ نان و نفقہ،خرچہ عدالت میں جمع نہ کروانے پر ڈسٹرکٹ بار کے نائب صدر اجمل رشید کورائی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوتے ہیں اور اسے کوئی گرفتار نہیں کرتا. کیوں، آخر کیوں. کیا وہ قانون سے بالاتر ہے.ڈسٹرکٹ بار کی کابینہ اور گروپ کی لیڈر شپ اسے قانون اور عدالت کا احترام کرنا سیکھائیں.وکلاء کے حقوق اور فلاح و بہبود کی باتیں کرنے والے کو اپنے بچوں کا حق فوری دینے کی تلقین کریں. اگر وہ ان کی جائز بات بھی نہیں مانتا تو پھر صرف وکیل کے نام اس کا ہرگز ساتھ نہ دیں. ایسے لوگ ہی ایسا داغ اور دھبہ ہوتے ہیں جو نہ صرف دُھونے سے بھی نہیں دُھلتا بلکہ پوری برادری کے لیے بدنامی کا باعث بن جاتے ہیں.دراصل کچھ لوگ اپنے کالے کرتوتوں کو چھپانے کے لیے بھی کالے کوٹ پہن لیتے ہیں. سپاہی وکیل بھی ان میں سے ایک ہے. موصوف کے ابا حضور رشید خان کورائی نے درانی فیملی کی مظلوم خواتین شاہدہ تسنیم درانی، حنا خورشید درانی وغیرہ کی موضع محمد پور قریشیاں، چک 76این پی تھانہ کوٹسمابہ تحصیل رحیم یارخان میں واقع 46ایکڑ 6کنال سے زائد زمین مستاجری پر حاصل کرکے پہلے مستاجری کی رقم دبائی پھر اس پر ناجائز قبضہ کرکے بیٹھ گیا.درانیوں کی زمین کو ہتھیانے کے لیے جھوٹا و فرضی اقرار نامہ بنا کر عدالت میں کیس دائر کیا. جس کا جھوٹ اور جعل سازی و فراڈ پکڑا گیا. جس پر تھانہ سٹی اے ڈویژن رحیم یارخان میں مقدمہ نمبری1071/20درج ہوا. ملزمان کے بااثر ہونے اور سیاسی پشت پناہی کی وجہ سے اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود پولیس نے جعل سازی میں ملوث ملزمان، زمین کے بینیفشریز و قبضہ گیروں کو گرفتار نہیں کیا.دوسرے فائل کیے گئے جھوٹے کیسز بھی عدالت میں آخری مراحل میں ہیں.اب دیکھیں نظام عدل مظلوم خواتین کو ان کی مستاجری کی دبائی ہوئی رقم اور زمین کو واگزار کرانے کے لیے کیا فیصلہ اور احکامات جاری کرتا ہے.جھوٹے کیسز فائل کرنے پر بھی کوئی سزا ہونی چاہئیے. وہ سزا بھی بنیادی کیس کے فیصلے کے ساتھ سنا دینی چاہئیے تاکہ غاصب اور قبضہ گیر گروہ خلق خدا اور بے سہارا و مظلوم لوگوں کو تنگ کرنے سے باز آ جائیں.زمین کے مالکان در بدر، عدالتوں اور دفتروں کے چکر لگا رہے ہیں جبکہ قبضہ گیر اُن کی زمین کی آمدنی پر پل رہا ہے.
جی ہم بات کر رہے تھے اجمل رشید کورائی کی.جس نے بچوں کا خرچہ چودہ لاکھ دس ہزار روپے عدالت میں جمع نہیں کروایا.فیملی کورٹ کے دبنگ جج ندیم اصغر ندیم کی عدالت کی جانب سے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے باوجود اسے اس خوف سے گرفتار نہیں کیا جا رہا کہ وکلاء لڑیں گے.اگر جوڈیشری کے اندر کے کچھ حصوں کی سوچ اور حالات یہی ہیں تو پھر سائلین کو انصاف کیسے ملے گا داد رسی کیسے ہوگی? اس قبضہ گروپ کے سرپرست دو سابق وزراء کے بارے میں سنا ہے کہ انہوں نے اجمل رشید کورائی کو آئندہ اپنی حکومت آنے کی صورت میں جج بنوانے کا وعدہ کیا ہے. اسے ستم لکھوں یا المیہ کہوں? جب اس قسم کے کردار کا حامل کوئی شخص جج بنے گا تو وہ کیا انصاف کرے گا. مجھے اس کی تفصیل میں جانے ضرورت نہیں. وکلاء صاحبان کے اندر سے منور ضیا جیسے چھپ کر بیٹھے لوگوں کو آگے آنے کی ضرورت جو حق اور سچ بولیں اور لکھیں.بار کے عہدیداران و ممبران کو باور کرائیں کہ کالی بھیڑیں وکلاء کے نام پر دھبہ ہیں. ان کا ساتھ دینا انصاف کا راستہ روکنے کے مترادف ہے جو کہ مظلوم لوگوں کے ساتھ سراسر ظلم و زیادتی ہے. ڈسٹرکٹ بار رحیم یارخان کی جملہ کابینہ اپنے نائب صدر اجمل کورائی سے عدالت میں ڈگری شدہ فیصلے کے پیسے جمع کروائے.بچوں کو ان کا حق دلوائے یا پھر ایسے شخص کو عہدے سے استعفی دینے پر مجبور کرے کیونکہ ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندہ کرتی ہے.

یہ بھی پڑھیے:

مئی کرپشن ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (1)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

پولیس از یور فرینڈ کا نعرہ اور زمینی حقائق۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

جام ایم ڈی گانگا کے مزید کالم پڑھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

%d bloggers like this: