یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ سچے، مخلص پاکستانی مسلمان ہیں تو اپنے خالص پن کو برقرار رکھنا کئی حوالوں سے مفید ہو گا۔ اِس سے آپ کو اِدھر اُدھر شک کی ندیوں میں بھٹکنا نہیں پڑے گا، آپ سرنگ کے آخری سرے پر روشنی دیکھنے کے قابل ہوں گے (خواہ وہ ٹرین ہی ہو)، آپ خود کو خدا کے منتخب بندے سمجھیں گے جنھیں فتنۂ دجال سے بچا ہی لیا جائے گا، آپ کو یہ یقین رہے گا کہ ساری ذلیل اور فاسق و فاجر دنیا اس اکیلے خداداد وطن کے خلاف برسرپیکار ہے، اور یہ الوہی سرپرستی کی وجہ سے ابھی تک بچا ہوا ہے۔
دیکھیں، اِن سب فائدوں کو حاصل کرنے کی خاطر خود کو کتب سے دور رکھنا ازحد ضروری ہے، کیونکہ یہی وہ ملعون وسیلہ ہے جس کی بدولت کئی غیر ضروری اور نئے خیالات آپ تک پہنچ سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ ڈاکومنٹریز اور اچھی فلموں کی راہیں بھی اِنھی کتب کی وجہ سے کھلتی ہیں۔ یہ سراسر گھاٹے اور گمراہی کا سودا ہے۔ اِس سے جتنا بچا جائے اچھا ہے۔ کتب سے بچیں گے تو آپ کا دماغ اور ذہن بالکل نئے نکور رہیں گے۔
کچھ ایسی کتابیں اب بھی کسی نہ کسی شکل میں آپ کو گمراہ کرنے کے لیے موجود ہیں جو مطالعۂ پاکستان اور نظریۂ پاکستان اور ہمارے ہر زعم کو پرکھنے کے قابل بنا سکتی ہیں۔ ان کتب میں تاریخ، فلسفہ، تہذیب، ادب، مذہب وغیرہ کے حوالے سے کتب شامل ہیں۔ میں ذاتی تجربے کی بنیاد پر بتا رہا ہوں کہ سبط حسن کی ماضی کے مزار اور نویدِ فکر بہت نقصان دِہ ہیں۔ بلکہ اُس کی کتاب موسیٰ سے مارکس تک آپ کو یورپی مفکرین کے گھٹیا خیالات سے بھی روشناس کروا سکتی ہے، ایسے خیالات جنھیں یورپ امریکہ میں مقیم چندہ خور سابق لیفٹیے بھی مسترد کر کے چین کی زندگی گزار رہے ہیں۔
ڈاکٹر مبارک علی کی کتب نہایت گمراہ کن ہیں جو آپ کو مغلوں جیسے شریف مسلمان حکمرانوں اور سرسید و اقبال جیسے مفکرین سے بیگانہ کر دیتی ہیں۔ اور علی عباس جلالپوری کی کائنات اور انسان یا تاریخ کا نیا موڑ وغیرہ بھی تصورِ کائنات کو زک پہنچاتی ہیں۔ حالانکہ آپ کے لیے نسیم حجازی یا طارق اسماعیل ساگر یا بہت ہوا تو ہیرلڈ لیم کافی ہیں۔ فلپ کے حتی اور ول ڈیورانٹ آپ کو بڑے پیار اور دھوکے سے اپنی ’اساس‘ سے دور لے جاتے ہیں۔ اپنے ’اسلاف‘ کے کارناموں کے پڑھنے کی بجائے اِنھیں کیوں پڑھا جائے؟
ادب میں بھی آپ کو دستوئیفسکی، ٹالسٹائی، ژولا، موپساں، ہیمنگوے، چیخوف، اردوندھتی رائے، خوشونت سنگھ، ہرمن ہیس، ٹیگور، کافکا، بورخیس، مارکیز، کنڈیرا، صادق ہدایت وغیرہ پر نظر تک نہیں کرنی چاہیے۔ اِس کی بجائے دیسی ادیبوں کی ہی تحریروں تک محدود رہیں۔
ٹیری ایگلٹن، ایڈورڈ سعید، کارل ساگان، آئزک ایسی موف، برائن گرین، سٹیفن ہاکنگ، وغیرہ آپ کے تیقن کو ٹھیس پہنچائیں گے۔ ان سے بچنا بہت ضروری ہے۔ آپ کو چاہیے کہ اِن کی بجائے صرف دینی کتب پڑھیں۔ لیکن ٹھہریں، وہ بھی نہ پڑھیں۔ بزرگوں کا قول ہے کہ دین کو پڑھنا نہیں چاہیے، بندہ گمراہ ہو جاتا ہے۔ آپ صرف ٹی وی دیکھا کریں۔ وہ بھی صرف نیشنل نیوز چینلز۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر