دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کوئی پڑھنا اور سیکھنا چاہے گا؟ ۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ان دنوں امریکی ریاست ورجینیا کے ایک مڈل اسکول میں کام کررہا ہوں۔ یہاں جو مشاہدہ ہورہا ہے، میری خواہش ہے کہ سب لکھوں۔ وہ پاکستان کے اساتذہ اور طلبا کے لیے مفید بلکہ چشم کشا ہوگا۔ لیکن کیا کوئی پڑھنا اور سیکھنا چاہے گا؟
یہاں انگریزی کی کئی کلاسیں ہوتی ہیں۔ ای سول کلاس میں امیگرنٹ بچے ہوتے ہیں جن کی بنیادی انگریزی درست کروائی جاتی ہے۔ رائٹنگ کلاس میں فکشن اور نان فکشن لکھنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ اکیڈمک لینگویج کلاس میں وہ زبان لکھنے کی تربیت دی جاتی ہے جو بعد میں کالج یونیورسٹی میں ریسرچ پیپرز لکھنے میں کام آتی ہے۔ ریڈنگ کلاس میں ٹیچر ریڈنگ اسٹیمنا بڑھاتے ہیں۔ اسکول میں ایک بڑی لائبریری ہے لیکن ہر کلاس روم میں بھی کتابوں کے تین چار شیلف ہوتے ہیں۔ ہر پیریڈ میں پندرہ بیس منٹ مطالعے کے لیے دیے جاتے ہیں۔ پھر ای لائبریری ہے جس میں کہانیوں کی ہزاروں کتابیں ہیں۔ انھیں پڑھا جاسکتا ہے اور سنا بھی جاسکتا ہے۔
یہ سب مجھے کیوں عجیب سا لگتا ہے؟ اس لیے کہ گورنمنٹ ہائی اسکول خانیوال میں ایک دن میرے بستے سے کہانیوں کی ایک کتاب نکل آئی تھی۔ پھر مجھے، یعنی کلاس میں ہمیشہ اول آنے والے بچے کو، جسے کبھی کسی ٹیچر نے ڈانٹا بھی نہیں تھا، پورے اسکول کے سامنے مرغا بناکر بید مارے گئے تھے۔ اگر میں سخت ضدی قسم کا انسان نہ ہوتا تو اس کے بعد کبھی کسی رسالے اور ناول کو ہاتھ نہ لگاتا۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ میں باز نہیں آیا۔
امریکا میں ہر طالب علم کے پاس لیپ ٹاپ ہوتا ہے۔ اسکول میں سب کو وائی فائی دستیاب ہوتا ہے۔ ہر کلاس روم میں پروجیکٹر ہوتا ہے۔ بچوں کو مفت لنچ ملتا ہے اور اسکول میں ائیر کنڈیشنگ کا مرکزی نظام ہوتا ہے۔ میں چھ سال پہلے کراچی کے جس مہنگے اسکول میں بچوں کی پچیس ہزار ماہانہ فیس بھرتا تھا، وہاں کبھی اے سی چلتا تھا، کبھی نہیں چلتا تھا۔ بجلی بند ہوتی تھی تو اسکول والوں کو جنریٹر چلاتے ہوئے موت آتی تھی۔
یہاں میں ایک ٹیچر کے ساتھ کام کرتا ہوں جو ساتویں جماعت کے بچوں کو اکیڈمک لینگویج سکھاتی ہیں۔ اسکول ڈسٹرکٹ نصاب کی آوٹ لائن فراہم کرتا ہے لیکن کونٹینٹ یعنی مواد کا انتخاب ٹیچر خود کرتا ہے۔ دو روز پہلے ٹیچر نے بچوں کو احتجاج کے بڑے واقعات کے بارے میں بتایا۔ انھوں نے پروجیکٹر پر چند ویڈیوز دکھائیں اور کئی آرٹیکل پڑھوائے۔ وہ ویڈیوز اور تحریری مواد ان طالب علموں کے بارے میں تھا جن کے احتجاج سے کچھ تبدیلی آئی۔ بیشتر مثالیں امریکا سے تھیں، مثلا ان بچوں کے بارے میں جنھوں نے نسلی امتیاز کے خلاف آواز اٹھائی۔ لیکن ایک مثال ہماری ملالہ کی بھی تھی۔
اس کورس کا مقصد بچوں کی اکیڈمک لینگویج بہتر بنانا ہے لیکن آپ دیکھیں کہ ٹیچر نے غیر محسوس طریقے سے کیا کیا؟ انھوں نے ساتویں جماعت کے بچوں کے دماغ میں یہ بات ڈال دی کہ ناانصافی پر احتجاج کرنا چاہیے۔ درست غلط کی تمیز ہونی چاہیے۔ جب بہت سے لوگ مل کر احتجاج کرتے ہیں تو تبدیلی آجاتی ہے۔ ضرور آتی ہے۔
امریکا میں بہت سے مسائل ہیں۔ ماس شوٹنگز ہوتی رہتی ہیں۔ نظام انصاف بہت اچھا نہیں۔ لوگ شکایت کرتے ہیں۔ کانگریس ارکان سے توقعات پوری نہیں ہوتیں۔ پولیس پر تنقید کی جاتی ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کو، بیشتر لوگوں کو درست غلط کی تمیز ہے۔ ناانصافی پر لوگ خاموش نہیں ہوتے، مل کر احتجاج کرتے ہیں۔ میڈیا بھی آواز میں آواز ملاتا ہے۔ اس کا اثر دیکھنے میں آتا ہے۔
غیر امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن جیتنے پر امریکا کا مذاق اڑاتے تھے۔ اس نے بائیڈن سے الیکشن ہارنے کے بعد نتائج کو مسترد کیا۔ سینیٹ کا چئیرمین نائب صدر ہوتا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے نائب مائیک پینس سے کہا کہ چئیرمین سینیٹ کے طور پر نتائج مسترد کردو۔ جن ریاستوں میں ری پبلکن حکمران تھے اور بائیڈن کو برتری ملی تھی، ان سے کہا کہ ڈیلی گیٹ تبدیل کردو۔ کسی نے ٹرمپ کی بات نہیں مانی۔ ایک شخص نے بھی نہیں۔ لوگ درست غلط کی تمیز رکھتے ہیں۔ نظام خراب نہیں کرنا چاہتے۔ ناانصافی سے بچتے ہیں۔
مجھے باقی پوری دنیا کی مثالوں سے غرض نہیں۔ پاکستان میں پیدا ہوا اور امریکا میں رہتا ہوں۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ پاکستان میں لوگوں کو درست غلط کی تمیز نہیں۔ تمیز ہے تو ناانصافی پر کوئی احتجاج نہیں کرتا۔ احتجاج کرتا ہے تو کوئی ساتھ نہیں دیتا۔ کوئی ساتھ دینے والا مل جائے تو لاپتا کردیا جاتا ہے۔ کوئی مثبت تبدیلی نہیں آتی۔ پی ٹی آئی نے ویسے بھی تبدیلی کے لفظ کو گالی بنادیا ہے۔
فیس بک پر ایک قول سو لوگوں کے نام سے گردش کرتا ہے۔ پتا نہیں کس کا قول ہے لیکن سو فیصد سچ ہے کہ جب کسی مجرم کو سزا نہیں دی جاتی تو وہ سزا پورے معاشرے پر تقسیم ہوجاتی ہے۔ آپ کتنے ہی دیانت دار ہوں لیکن اگر ظاہر یا پوشیدہ مارشل لا لگانے والے جرنیلوں کو سزا نہیں ملی، اگر بدعنوان سیاست دان اور بیوروکریٹس ملک لوٹ رہے ہیں، اگر مسخرے عدالتوں میں جج بن کر بیٹھے ہیں اور راو انوار آزاد پھر رہا ہے تو آپ شریک جرم ہیں۔ آپ ناانصافی پر آواز نہیں اٹھاتے اور احتجاج نہیں کرتے تو یہ آپ کے جرم کا ثبوت ہے۔ اس جرم میں آپ کو مہنگائی، لاقانونیت اور بنیادی ضروریات سے محرومی کی عمر قید بامشقت و ذلت بھگتنا پڑے گی۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author