اپریل 17, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایک گمبھیر معاملہ||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوست ایک قصہ سناتے ہیں کہ کسی نوجوان نے منیر نیازی کو اپنی کتاب کا مسودہ تبصرے کے لیے دیا۔ انتظار کے بعد نوجوان اُسے کسی محفل میں ملا تو رائے پوچھی۔ منیر نیازی نے ٹالا۔ اُس نے دو تین بار اصرار سے سوال دُہرایا تو منیر نیازی نے کہا، ’’پتر توں کوئی ہور کم کریا کر۔‘‘ نوجوان شاعر نے پوچھا، ’’جی اور کیا کام کیا کروں؟‘‘ منیر نیازی نے اپنے مخصوص انداز میں کہا، ’’کوئی …… مروا لیا کر۔‘‘
لیکن منیر نیازی نے بہت سے شاعروں اور ادیبوں کے فلیپ بھی لکھ کر دیے۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ ایک بوتل کے عوض رائے لکھ دیا کرتے تھے۔ خیر یہ دو رویے ہیں نئے لکھنے والوں کے متعلق: اول، اگر وہ ناقص لکھتے ہوں تو اُنھیں سرِ دست مسترد دیا جائے اور لکھنے والی کی حوصلہ شکنی ہو؛ دوم، کتب کے فروغ اور ادبی سرگرمی کی حوصلہ افزائی کے لیے نئے لکھنے والوں کا ہاتھ پکڑا جائے۔
ان دونوں کے حق میں دلائل کافی سارے ہیں۔ مسئلہ ہے اِن کے درمیان ایک توازن قائم رکھنا۔ کہ مایوس نہ کیا جائے، اور حوصلہ شکنی بھی نہ ہو۔ لیکن قارئین کو اِس بارے میں رائے دینی چاہیے کہ کیا کوئی تحریر ناقص لگے تو اُسے اٹھا کر پھینک دینا چاہیے یا نہیں؟ اور اگر وہ حوصلہ افزائی کے چکر میں اچھی قرار دی گئی تصنیف کو خرید کر مایوس ہوں تو کیسا لگے گا؟
آخر ایک بڑے ادیب نے بھی کہا تھا کہ کچھ کتب پڑھ کر آپ ایک طرف نہیں رکھ سکتے، اُنھیں اُٹھا کر بہت دور پھینکنا پڑتا ہے۔
اگر ترجمہ نگاری یا تصنیف و تالیف وغیرہ میں کیریئر بنانا چاہتے ہیں تو بہتر ہے کہ پہلے اِن آپشنز پر غور کریں۔ اچھے رہیں گے۔ ایک لائن مین، پی ٹی سی ایل کا کلرک، نائب قاصد، ڈرائیور، حتیٰ کہ گورکن بننا بھی بہتر رہے گا۔ گورکن کو تبھی کام کرنا پڑتا ہے جب کوئی تدفین ہونی ہے۔ لوگ گلاب کی پتیاں ڈالنے یا قبر پر لائٹ آن کرنے کے اضافی پیسے بھی دے جاتے ہیں، اور دھتکارنے اور نخرے کرنے کی بجائے عزت و سماجت کرتے ہیں۔
ایسے سنہری موقعے بار بار نہیں ملا کرتے۔ یہ جاب بھی پکی ہے۔ تھوڑا کام کیا، پھر دھوپ میں بیٹھ کر کینو کھائے اور گھر آ کر سو گئے۔ آمدنی بھی بہتر رہے گی۔ سو فیصد پکی نوکری بھی ہے۔ اگلے ہفتے یا اگلے ماہ کی فکر نہیں ہو گی۔ (جب ریٹائر ہوں تو کتاب چھپوا سکتے ہیں)
مابعدالطبیعیاتی بے ایمانی کو جانچنے کے لیے چند سوال
مستنصر تارڑ کے پاس مستعار لیے ہوئے چند ایک جملوں اور چٹکلوں کے سوا کیا ہے؟
ان کا نظریۂ دنیا (world view) کیا ہے؟
کیا جسے یہ خدا کا خاص فضل کہتے ہیں، وہ محض فضل ہی تھا یا کچھ اور؟
یہ کسی ان پڑھ فرار پسند (escapist) سے کیسے مختلف ہیں، جو بہرحال بے ایمان نہیں ہوتا؟
یہ ذاتی تجربات کو محض ذاتی اور نجی قرار دینے کے بعد بھی بیان کیوں کرتے جاتے ہیں؟
کون ہے جو غارِ حرا میں رات یا کچھ وقت گزارنے پر باطنی ’تجربے‘ سے نہیں گزرے گا؟
مستنصر کی دادی نے اُس کے باقی بہن بھائیوں کو چھوڑ کر محض اُس کا نام ہی تسبیح پر کیوں پڑھا؟
یہ ذاتی روحانی تجربات کا دعویٰ کرتے ہوئے بھی نہایت دنیا و مادیت پرست کیسے بن کر رہے؟
یہ اتنے misogynist کیوں ہیں؟
انھیں جھوٹ، آمریت، گندگی، بھوک، غلاظت، تھوک، جہالت، تعصب سے نفرت کیوں نہیں؟
یہ معاشرے سے کٹے کیوں ہوئے ہیں؟ اِن کا آپ کے معاشرے سے کیا تعلق ہے؟
ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کے بعد آپ پر بہت کچھ منکشف ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: