رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کل ہمارے روایتی حکمران گھرانے لاتعداد کاسہ لیسوں‘ درباریوں اور سیاسی فنکاروں کے ساتھ اقتدار کے بے مہار گھوڑوں پر سوار جن راہوں پر سرپٹ کسی منزل کے متلاشی ہیں‘ ڈر ہے کہ کہیں راستہ ہی نہ کھو جائیں۔ ہم ماضی میں ایسے کرداروں کو انہی راہوں کے مسافر دیکھ چکے ہیں‘اور ان کا انجام تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے‘ مگر کوئی ماضی میں جھانک کر کچھ سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو جن حالات سے بیچارہ ملک اور بے بس قوم گزر رہی ہے اس کی نوبت ہی نہ آتی۔ نصف صدی پہلے کے مشرقی پاکستان کے حالات کی آج کی سیاسی صورتحال سے مماثلت اسی طرح ہے جس طرح ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ دوسرے ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی مثل ہوتا ہے‘ روشنی گُل ہونے کا گہرا ہوتا احساس ذہن کے خلیوں میں تاریکی بھر رہا ہوتا ہے۔ لیکن شاید یہ مثال بہت موزوں نہیں‘ وہ کہیں زیادہ جبر کا زمانہ تھا‘ لکھنے اور بولنے والے اتنی تعداد میں نہیں تھے۔ مغربی پاکستان کے زیادہ تر ترقی پسند دانشور ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست سے وابستہ تھے‘ آواز صرف صوبائی حقوق کی بات کرنے والے سیاست دانوں اور دانشوروں کی طرف سے اٹھتی تھی۔ عبدالولی خان اور بلوچ قوم پرست بالکل ٹھیک کہہ رہے تھے کہ اقتدار اکثریتی پارٹی کو منتقل ہو۔ انتخابات جب ہوچکے‘ نتائج آپ کے سامنے ہیں تو اصرار کیوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو راضی کریں‘ جنہوں نے مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کی تھی۔ اُنہیں صرف پنجاب اور سندھ میں اکثریت حاصل تھی۔ کچھ ایسا ہی ہورہا تھا جیسا گزشتہ دس ماہ سے دیکھ رہے ہیں کہ ایک اکثریتی جماعت اور اس وقت ملک کے مقبول سیاسی رہنما کو اقتدار سے محروم کرکے راستے سے ہٹانے کی تدبیر ہورہی ہے۔راستے کی یہ رکاوٹ دور ہو تو کرائے کے گھوڑے دوڑ سکیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جانی پہچانی راہوں پر تو کپتان ڈٹ کر کھڑا ہے اور عوام اس کے ساتھ ہیں یہی وجہ ہے کہ اب سوار کوئی اور راہیں تلاش کررہے ہیں۔ جب ایسی ہی راہیں پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادی‘ شیخ مجیب الرحمن کے خلاف تلاش کررہے تھے تو ایک زبردست آواز ابھری تھی‘ جس کی گواہی ان کی تحریریں آج بھی دے رہی ہیں اور آنے والے وقت میں دیتی رہیں گی۔ وہ آواز محترم الطاف حسن قریشی صاحب کی تھی‘ لیکن کسی نے یہ آواز نہ سنی۔ ایک عرصہ سے وہ مشرقی پاکستان میں جا کر وہاں کے حالات کے بارے قوم کو آگاہ کرتے رہے‘ ہم بھی اپنا فرض ادا کررہے ہیں۔راستہ وہی ہے جو آئین میں ہے‘ اور حالات کا جبر بھی ایسا ہے کہ نئے انتخابات کا انعقاد شفاف طریقے سے ہو اور جو مانگے تانگے کے گھوڑوں پرسوار کیے جارہے ہیں وہ خود اور ان کے اکثر حمایتی بھی جانتے ہیں کہ لگامیں کسی اور کے ہاتھ میں ہیں۔ ایک اور قدر بھی مشترک ہے۔ اُس زمانے کی تصانیف‘ کچھ اداریے اور سیاسی ٹھیکے داروں کے بیانات پڑھیں تو واضح پتا چلتا ہے کہ نتائج آنے کے بعد سب سے بڑا پچھتاوا یہ تھا کہ آخر شفاف انتخابات کرانے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ یہ ارمان آج بھی کچھ دلوں میں مچل رہا ہے‘مگر عقل رخصت پر نہ ہو تو سمجھایا جاسکتا ہے کہ مسئلہ شفا ف انتخابات کا نہیں اقتدار کی منتقلی کا تھا۔ جب نتائج آگئے تو پھر آپ کو وہ کرتب دکھانے کی ضرورت نہ تھی جو آپ نے دکھائے اور وہ زخم آج تک‘ کم از کم میری نسل کی حد تک مندمل نہیں ہوپایا۔
ہمارا ملک چلتا ہی ٹھیکے داری پر ہے۔ اسے سمجھے بغیر ہم سڑکوں پر کھنڈرات‘ سرکاری عمارتوں کی بوسیدگی اور معاشی گھپلوں سے لے کر سیاسی فنکاری تک کو نہیں سمجھ سکتے۔ آپ کومعلوم ہی ہوگا کہ ٹھیکے کیسے دیے جاتے ہیں۔ کون دیتا ہے اور عمومی تاثر یہ ہے کہ دینے اور دلوانے والے کمیشن بھی لیتے ہیں۔ اگر کوئی شک ہو تو ٹھیکہ داری پر جاری کسی کام کا معائنہ کرلیں‘ کسی ٹھیکے دار سے رازداری سے بات کریں‘ جرأت ہے تو کھوج کا دائرہ ذرا وسیع کریں تو مقتدر طبقات میں ٹھیکے داری کے فیوض و برکات کی چمک آپ کی نگاہوں کو خیرہ کردے گی۔ پنجاب میں اب جس طرح نوکر شاہی کی اکھاڑ پچھاڑ کی جا رہی ہے اس سے تو لگتا ہے کہ اس صوبہ کی انتظامیہ میں کوئی بڑا نظریاتی انقلاب لایا جا رہاہے۔نئی صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری تو نوے روز تک کی ہے اور انہوں نے انتخابات کی نگرانی کرنی ہے‘ تو پھر چیف سیکرٹری سے لے کر اضلاع کے تھانے داروں تک سرکاری افسروں کے اتنی بڑی تعداد میں تبادلے کس طرف اشارہ کرتے ہیں ؟ گزشتہ ہفتے تیرہ جماعتی اتحادی کئی مرتبہ سرجوڑ کر بیٹھے کہ انتخابات وقت پر بھی نہ کرائے جائیں مگر اب چونکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تو ناگزیر ہوچکے ہیں‘ تو وہاں کیا حربے استعمال کیے جا تے ہیں ؟ قانون کی حکمرانی کی باتیں کرنے والوں کو کس طرح مزہ چکھایا جاتا ہے ؟ پچاس سال پہلے کے دور کی ٹھیکے داری‘ نظریات اور سوچ آج بھی حکمرانوں میں غالب نظر آرہی ہے کہ انتخابات ہوگئے‘ ہیرا پھیری نہ ہوسکی تو کپتان کے سامنے کون ٹک سکے گا؟ ایک رہنما ملک کے کونے کونے میں مقبول ہے‘ اب ٹھیکے دار ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ کس طرح اسے سیاسی میدان سے محروم کیا جائے۔ سمجھ نہیں آرہی کہ وہ وفاقی حکومت جو اسلام آباد تک محدود ہے‘ اچانک کپتان کی محبت میں کیوں گرفتار ہوگئی ہے کہ وزیر آباد واقعہ پر ایک مشترکہ تفتیشی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔ ایسی محبتوں میں ہزاروں افسانے پنہاں ہوتے ہیں۔ یہ درویش پہلے بھی ایک دو بار گزارش کر چکا کہ اب معاملہ عمران خان کے اقتدار میں آنے یا نہ آنے کا نہیں۔ٹھیکے دینے والوں اور لینے والوں کی قوت کو توڑنا ہے جو اس ملک کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ خان نے جو کرنا تھا کر دیا‘ جو باتیں دبے لفظوں میں‘ نجی محفلوں میں اور رازداری کیساتھ ہوا کرتی تھیں‘ اب لاکھوں کے جلسوں میں بار بار کی گئی ہیں اور پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ کیلئے کھلا ذہن رکھنے والوں کے خیالات میں گونجتی رہیں گی۔ مشرقی پاکستان کے سانحہ کے ماہ و سال اور آج کل میں دو بڑے فرق بھی ہیں۔آج کے عوام دیکھنے میں بے بس ضرور نظر آتے ہیں مگر زیادہ باشعور ہیں۔ جیسا ہم نے دو تین ضمنی انتخابات میں دیکھا؛چنانچہ اس وقت ٹھیکیداری کی سند کی حیثیت ریگستان میں جاڑے کے دنوں میں ہوا کے ساتھ اڑتے بے جان پتوں سے زیادہ نہیں۔جو کچھ دنیا میں پاکستان کے حالات سے دلچسپی رکھنے والے عالم فاضل‘ دانشور اور سفارتکار لکھ اور بول رہے ہیں‘ اس کو پڑھ اور سن کر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ کسی اور دنیا میں رہ رہے ہیں۔ منصوبہ بندی تو یہ نظر آتی ہے کہ سب اکٹھے ہو جائیں اور ایک ہی چھتری کے سائے میں رہیں لیکن انہیں شاید معلوم نہیں کہ جب عوام کا غیظ و غضب بڑھ جاتا ہے تو اولے نہیں پتھر برستے ہیں اور مضبوط سے مضبوط چھاتہ بھی کام نہیں آتا۔ اب تو دبے دبے نہیں اور نہ ہی زیرِ لب بلکہ کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ انتخابات اس لیے کرائے جائیں کہ ہم رہ جائیں۔ عقل مندی کی بات یہ ہے کہ آپ گھوڑے ان کے حوالے کریں جنہوں نے آپ کو مستعار دیے ہیں‘ میدان میں اتریں اور انتخابات میں آئیں اور قانون کے مطابق مقابلہ کریں۔ ہم بھی تو دیوانوں والی باتیں کرتے ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ