یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹائٹینک مووی میں شاید لوگوں کو سب سے زیادہ پسند آنے والے سِین دو تھے۔ ایک وہ جب کیٹ ونزلیٹ کپڑے اُتار کر ایک طرف رکھتی اور صوفے یا کاؤچ پر نیم دراز ہو جاتی اور سکیچ بنواتی ہے۔ نیوڈ بیچز کے عادی یورپیوں کے سانس بھی اِس سین پر اوپر کے اوپر اور نیچے کے بہت نیچے رہ گئے۔
پھر دوسرا سین فلم کے بہت آخر میں ہے۔ جب ہر طرف ڈوبے جہاز کا ملبہ یخ پانی پر تیر رہا ہے، روز کو جیک ایک تختہ پر چڑھاتا ہے اور خود دوسرا تختہ ڈھونڈنے کی بجائے اُس کے ہاتھ پکڑے پکڑے پانی میں ہی رہتا ہے۔ امداد آنے تک وہ جم کر مر چکا ہوتا ہے۔
لیکن مجھے کچھ اور پسند ہے۔ ایک تو بحری جہاز کی ریلنگ کے پاس کھڑے ہو کر تھوک پھینکنے کا مقابلہ تھا۔ لیکن دوسرا پسندیدہ ترین منظر آخر میں جہاز ڈوبنے سے تھوڑی دیر پہلے آیا جب سازینے کے مغنی پریشان ہو کر لوگوں کی افراتفری دیکھتے ہیں۔ تب اُن کا کنڈکٹر چھڑی ہلاتا ہے اور سب دوبارہ ساز بجانے لگتے ہیں۔ جہاز ڈوبنے سے پہلے وہ موسیقی میں کھو جاتے ہیں۔ موت کو آسان بنانا تمام مذاہب میں فرض ہے۔ ماسوائے جنگ کے۔
اِدھر ایک معاشرے کا جہاز ڈوب رہا ہے۔ چوہے اِس سے میں سے باہر کود رہے ہیں۔ اور ہم بے پروا، عاقبت نا اندیش لوگ کتاب سے چپکے بیٹھے ہیں۔ مگر کب تک؟ بک شاپس والے تو چینی مال کے گفٹ سٹور بنا لیں گے، ہم کیا کریں گے؟
کندھی اپر رکھڑا کچرک بنھے دھیر
کندھی یا بنّے پر اُگا ہوا درخت کب تک خود کو قائم رکھے
کچے بھانڈے رکھیے کچر تائیں نِیر
کچے برتن میں پانی کب تک سنبھلا رہے ؟
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر