یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’بیان نہ کیے گئے جذبات کبھی نہیں مرتے۔ وہ زندہ درگو ہو جاتے ہیں اور بعد ازاں زیادہ بدنما طریقوں سے سامنے آتے رہیں گے۔‘‘
ڈاروِن، کارل مارکس اور فرائیڈ کو انسانی تاریخ کے تین اہم ترین سانڈ قرار دیا جا سکتا ہے جنھوں نے تفہیم کی دُنیا کو ایک سینگ سے اُٹھا کر دوسرے پر منتقل کیا اور بہت کچھ ہلا کر رکھ دیا۔ ڈاروِن کی مشہور کتاب ’’انواع کا ماخذ‘‘ مسخ شدہ اور ناقص حالت میں سہی، مگر مقتدرہ قومی زبان نے ترجمہ کر کے چھپوائی۔ کارل مارکس کی چنیدہ تحریریں رُوسی کتب کی بدولت مخصوص اور بہت چھوٹے سے حلقے تک پہنچیں۔ مگر فرائیڈ خصوصی طور پر بدقسمت رہا، اور اُس کی اصل تحریروں کی تراجم سے محروم رہنا ہماری بدقسمتی تھی۔ اِن تینوں بڑی شخصیات کے نظریات کا ذکر عموماً مسترد کرنے کے لیے ہی کیا جاتا ہے۔ مثلاً کوئی اکثر کہتا ہوا ملے گا کہ ’’ڈاروِن کے مطابق تو ہمارے اجداد بندر تھے،‘‘ یا یہ کہ ’’مارکس کا فلسفہ تو روٹی کے گرد گھومتا ہے،‘‘ اور ’’فرائیڈ نے تو ہر چیز کو جنس یا شہوانیت سے جوڑا۔‘‘ اُن کی تحریروں کا مطالعہ کرنے پر ہمیں گہرائی کے کئی جہان ملتے ہیں۔ ڈاروِن نے اپنی تحقیقات کی روشنی میں رائے پیش کی تھی کہ انواع اپنے گردوپیش کے حالات کی وجہ سے کچھ خصوصیات حاصل کرتی ہیں۔ مارکس نے روٹی کی نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ استحصالی نظام میں محنت کے کردار کی توضیح کی تھی۔ فرائیڈ جنس کی بجائے لاشعوری محرکات کی بات کرتا ہے جو جنسی بھی ہو سکتے ہیں۔
یہ کتاب فرائیڈ کی تھیوریز کے نقطہ ہائے آغاز لیے ہوئے ہے۔ اِس میں بیسویں صدی کے بہت سے نظریات کے بیج موجود ہیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں اور حرکات و سکنات میں لاشعور کی کارفرمائی کی طرف اشارے کرتا ہے۔ متواتر گھٹنا ہلانا، جیب میں سِکّے چھنکانا، بٹن متواتر کھولنا اور بند کرنا، لباس سنوارتے رہنا، اکثر کچھ بھول جانا یا کچھ متواتر بلاوجہ یاد آنا، کوئی عدد اکثر زبان پر آنا، زبان پھسلنا، لکھتے وقت کسی لفظ کو بدل دینا، مُونچھوں کو بَل دینا، ہاتھ میں پکڑی چھڑی سے کھیلنا، یہ احساس ہونا کہ آپ یہ حرکت پہلے بھی کر چکے ہیں، پنسل سے آڑی ترچھی لائنیں لگانا وغیرہ سب مختلف نوعیت کے اعصابی و نفسیاتی عوامل رکھتے ہیں۔
فرائیڈ کوئی قطعی آرا یا فیصلے دینے کی بجائے متعدد مثالیں پیش کرتا اور اُن کی ممکنہ وضاحت دیتا ہے۔ آپ اُسے نہایت راست گو اور ایمان دار پائیں گے۔ وہ کہتا ہے: ’’میرا مقصد صرف اور صرف روزمرہ زندگی سے مثالیں جمع کرنا اور اُنھیں سائنسی تحقیق کے ماتحت لانا ہے۔‘‘ وہ قاری کو اپنے اوپر غور کرنا سکھاتا ہے، کیونکہ ’’بیان نہ کیے گئے جذبات کبھی نہیں مرتے۔ وہ زندہ درگو ہو جاتے ہیں اور بعد ازاں زیادہ بدنما طریقوں سے سامنے آتے رہیں گے۔‘‘
فرائیڈ جیسا کوئی مصنف خال خال ہی ملتا ہے۔ وہ ہمارے شعور اور اُس کے پیچھے کارفرما لاشعور کے بخیے نہ صرف خود اُدھیڑتا ہے، بلکہ ہمیں بھی یہ کام سکھاتا ہے۔ یہ کتاب فرائیڈ کے بنیادی اور مشہور ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ ماہر نفسیات دوست پروفیسر زاہد محمود کے ساتھ گفتگو کے دوران اِسے ترجمہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ یہ مکمل حالت میں اُردو میں فرائیڈ کی پہلی کتاب ہو گی۔ میں نے اِس کا ترجمہ کرتے وقت Anthea Bell کے انگلش ترجمے کو بنیاد بنایا، لیکن James Strachey اور فرائیڈ کی بیٹی ایَنا فرائیڈ کے کیے ہوئے ایک پرانے ترجمے سے بھی موازنہ کیا۔ اِسے اُردو زبان میں فرائیڈ کی پہلی مکمل کتاب سمجھنا چاہیے۔ جرمن میں اِس کا پہلا ایڈیشن 1901ء میں شائع ہوا تھا جس میں فرائیڈ نے بعد ازاں کئی اضافوں کے علاوہ کچھ تصحیح بھی کی۔
سوموار سے دستیاب ہو گی۔
ناشر: الفیصل پبلشر، غزنی سٹریٹ، اردو بازار لاہور۔ 04237230777
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر