اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پروفیسر ڈاکٹر ارشاد کا کھلا خط اور مافیاز کی کھلی بدمعاشی||جام ایم ڈی گانگا

جام ایم ڈی گانگا سرائیکی وسیب کے ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے صحافی اور سماجی رہنما ہیں، وہ مختلف موضوعات پر مختلف اشاعتی اداروں میں لکھتے رہتے ہیں انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

جام ایم ڈی گانگا

03006707148

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

پروفیسر ڈاکٹر ارشاد احمد اپنے ایک کھلے خط میں لکھتے ہیں کہ ُ ُ میرے 35 سال کے ذاتی مشاہدے کے مطابق گائے یا بھینس سے دودھ نکالنے کے بعد فریش کھلا دودھ گوالے کے ذریعے دو تین گھنٹے میں کنزیومر تک پہنچ جاتا ہے۔ بعض گوالے اس میں پانی تو دیتے ہیں ‌لیکن اس میں انٹی بائیوٹک
یا کوئی اور کیمیکل نہیں ملاتے۔ کیونکہ انھیں ان کے ملانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی طرح دودھ کی دکان سے ملنے والے دودھ میں پانی تو ملا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن کیمیکلز وغیرہ نہیں ہوتے۔
جہاں تک پیکڈ دودھ کا تعلق ہے تو اس کے ساتھ جو ناروا سلوک ٹھیکیدار کرتے ہیں ۔ وہ یقیناً آپ کے علم میں بھی ہوگا ۔ڈاکٹر عمر فاروق صاحب، آپ نے ایفلا ٹاکسین کا فرمایا ہے ۔ اگر یہ کھلے دودھ میں ہوگی تو پھر پیکڈ ملک میں بھی ہوگی۔ وہاں بھی تو انھیں جانوروں کا دودھ جاتا ہے۔
گزشتہ سال زرعی یونیورسٹی میں آرٹ اینڈ لٹریری سوسائٹی کے ایک فنکشن میں کمشنر فیصل آباد مہمان خصوصی تھے ۔ انھوں نے اپنے خطاب میں بتایا تھا کہ جب میں سیکرٹری لایوسٹاک تھا تو لاہور میں پیکڈ ملک والوں نے ایک تقریب منعقد کی تھی ۔ جس میں مجھے بھی بطور سیکریٹری لایوسٹاک شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ وہ مجھ پر دباو ڈال رہے تھے کہ آپ اپنے خطاب میں کہہ دیں کہ عوام کھلا دودھ استعمال نہ کریں یہ مضر صحت ہے ۔ میں نے فارمر اور کنزیومر کے ساتھ زیادتی کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے اگلے روز میں سیکرٹری لایوسٹاک نہیں تھا کیونکہ میرا ٹرانسفر کروا دیا گیا تھا۔
سمجھنے والے اس سے سمجھ گئے ہونگے کہ کھلے دودھ کے بارے میں الیکٹرانک میڈیا پر ہر پانچ منٹ بعد یہ کیوں کہا جا رہا ہے کہ کھلا دودھ مضر صحت ہے. ٗ ٗ
محترم قارئین کرام،، ڈاکٹر ارشاد صاحب نے تو ساری بات اور حقیقت نہ صرف کھول کے رکھ دی یے بلکہ اسے پھیلا بھی دیا ہے.اگر ہم اپنے معاشرے اور ملک کی خیر و فلاح چاہتے ہیں تو ہمیں سچ بولنے چاہیئے اور سچ کا ساتھ دینا چاہئیے. مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے. ہر جگہ اور ہر شعبے میں مافیاز کا راج ہے. مافیاز کی رسائی اور اثر و رسوخ حکمرانوں تک ہے. بیورو کریسی میں بھی انہوں نے کالی بھوری بھیڑیں پال رکھی ہیں. طاقت اور اقتدار کے دوسرے سٹیک ہولڈز، ٹھیکیداروں، کمیشن خوروں سمیت سب کو حصہ با مطابق جُثہ دیتے اور کامیابی سے اپنے اپنےکام اور دھندے چلائے ہوئے ہیں. چند اکا دکا شریف النفس، صاحب احساس، خدا ترس لوگوں کے ساتھ پھر ایسے ہی ہوتا ہے جیسے سیکرٹری لائیوسٹاک کے ساتھ ہوا یا پھر جس طرح میرٹ اور انصاف پر مبنی فیصلہ کرنے پر سابق ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو ڈاکٹر جہانزیب حسین لابر کے ساتھ ناجائز قبضہ گیر مافیا اور ان کے ریاست مدینہ کے حکومتی سرپرست وزراء نے کیا تھا. تھانہ سٹی اے ڈویژن رحیم یارخان میں درج جعل سازی کا مقدمہ نمبری1071/20 اور انکوائری کی تفصیلی رپورٹ مافیاز کے راج اور گاج کا پتہ دیتی ہے کہ یہاں میرٹ نہیں ہماری مرضی چلے گی ورنہ…. پھر سمجھنے والوں نے دیکھا کہ اُسی ہفتے کے دوران ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کا تبادلہ کروا دیا گیا تھا. واہ ریاست مدینہ واہ.دوسری جانب متاثرہ و مظلوم بیوہ شاہدہ تسنیم درانی اور اس کے یتیم بچے تھے. جن کی 46ایکڑ 6کنال سے زائد زمین واقع موضع محمد پور قریشیاں تھانہ کوٹسمابہ پر ڈیفالٹر مستاجر نے قبضہ کر رکھا ہے.
ہم اے ڈی سی آر اور سیکرٹری لائیو سٹاک دونوں کی سوچ اور جرات کو سلام پیش کرتے ہیں.مافیاز دباؤ ڈلوا کر کیا کیا کچھ کہلواتے ہیں اور کیا کچھ کرواتے ہیں.ہمارا معاشرہ ایسی تلخ داستانوں سے بھرا پڑا ہے.ہم میں سے بہت سارے لوگ ان جانے خوف اور ایک بڑی تعداد اندھا دھند تقلید کا شکار ہو کر عقیدت کے نام پر پاگل پن کی حد کو پہنچ چکی ہے. اس وقت وطن عزیز پاکستان کے اندر جو اور جس طرح کی سیاست سیاست کھیلی جا رہی ہے.آئین و قانون کو موم کی ناک بنا کر اپنی اپنی مرضی یا مرض کے مظاہرے کیے جا رہے ہیں. سیاسی پارٹیوں نے اقتدار کے حصول کے لیے جائز و ناجائز، اخلاقی و غیر اخلاقی، مرئی و غیر مرئی جو جو طریقہ ہائے کار اپنا کر جاری رکھے ہوئے ہیں.پھر سونے پے سہاگہ ان کے سپورٹرز اور کارکنان اپنے اپنے قائدین کے فرمان کو غلط اور صحیح کا فرق کیے بغیر بس صرف اسے ہی سب سے مقدم سجھتے ہیں.اب ذرا تحریک انصاف کے لیڈر فواد چودھری کے اس فرمان یا بیان کو ملاحظہ فرمائیں جوکہ دراصل کپتان عمران خان کا فرمان ہی ہے.
سرپرائز نمبر 4
ہم پنجاب کی 371 سیٹوں پر اکیلے عمران خان کو بھی کھڑا کر سکتے ہیں. فرمان فواد چوہدری
محترم قارئین کرام،، میرا خیال ہے کہ ایسے حالات میں ملک کو پاگل خانہ قرار دیا جائے یا پھر ایسے لوگوں کو پاگل خانے میں داخل کیا جائے. یا پھر آئین و قانون کی دستاویزات کو پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ کے سامنے رکھ کر مینار بنا دینا چاہئیے تاکہ ہر آتا جاتا شہری…….. افسوس صد افسوس ملک میں ایک تماشہ لگا ہوا ہے. عام لوگوں کو چھوڑیں بڑے بڑے ذمہ دار ادارے اور اتھارٹیز بھی تماش بین بنے ہوئے ہیں. میں سمجھتا ہوں کہ ہر اطراف سے عوام کے ساتھ ٹھگی ہو رہی ہے. عوام بُودن بنی ہوئی ہے.اپنے حقوق کے قاتلوں کو کندھوں پر اٹھا کر زندہ باد کے نعرے لگا رہی ہے.اُن کے سہولت کاروں جو سلام پیش کرتی نہیں تھکتی. ایسے حالات میں تو مثبت تبدیلی ہرگز ممکن نہیں ہاں البتہ دھوکے ممکن ہیں. ملک مکمل طور پر مافیاز کے نرغے میں آ چکا ہے.مہنگائی مہنگائی کا رونا رونے والی، سیاست دانوں کے نعرے لگانے والی،محافظوں کے گُن گانے والی عوام کبھی گھر بیٹھ کر تو سوچے کہ آخری اس مہنگائی، لوٹ مار، کرپشن، لا قانونیت وغیرہ کے ذمہ دار کون ہیں.کنٹرول کرنا کن کی ذمہ داری ہے.نت پینترے بازیاں بدل بدل کر عوام کو ذلیل و خوار کرنے والے کون ہیں. ملک کی ضرورت سے گندم وافر تھی تو پھر آجکل یہ گندم اور آٹے کا بحران کیونکر پیدا ہو چکا ہے. وطن عزیز کے کسانوں کو سرکاری ریٹ پر یوریا کھاد دستیاب نہیں بلیک میں ہر جگہ موجود ہے. گودام،بند شوگر ملز کے گودام، کاٹن فیکٹریوں کے گودام بھرے ہوئے پائے گئے ہیں یہ سب کیا یے کون کر اور کون کروا رہا ہے.قومی خزانہ میں عوامی ٹیکس کے جمع شدہ پیسوں سے پلنے والی انتظامیہ کہاں سوئی ہوئی ہے. عوامی نمائندے کہاں اور کیا عوام کی نمائندگی کر رہے ہیں. یاد رکھیں اپنا محاسبہ نہ کر سکنے والے کبھی بھی دوسروں کا محاسبہ نہیں کر سکتے.وطن عزیز کے ووٹرز بھی بڑے مجرم ہیں یا پھر بھولے اپنے دشمن آپ ہیں. اپنے ووٹ کا درست استعمال نہ کر سکنے والے نظام کی درستگی چاہتے ہیں. وطن عزیز میں یہی بنیادی خرابی ہے. نظام نہیں نیتیں خراب ہیں.
یقین کریں کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ نے عوام کی صحت کو صرف متاثر نہیں بلکہ تباہ و برباد کر دیا ہے.رہی سہی کسر لوگوں نے خود غذائی بے احتیاطیوں کے ذریعے پوری کردی ہے. قسمت والے چند فیصد خوش نصیب ہی ہوں گے جو ادویات کے استعمال سے بچے ہوئے ہوں گے.ہوٹلوں کی کثرت اور وہاں پر عوام کا رش ہی ہسپتالوں میں رش کی سب سے بڑی وجہ ہے.اکثر ادویات ساز کمپنیاں بیرون دنیا کے ممالک کی ہیں.پھر سونے پے سہاگہ کمیشن خور ڈاکٹرز. ہر سال ملک کے اربوں کھربوں روپے باہر جا رہے ہیں. جنھیں ہم قومی اور عوامی سطح پر غذائی اصلاحات لاگو کرکے بچا سکتے ہیں.

یہ بھی پڑھیے:

مئی کرپشن ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (1)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

پولیس از یور فرینڈ کا نعرہ اور زمینی حقائق۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

جام ایم ڈی گانگا کے مزید کالم پڑھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

%d bloggers like this: