مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعض جملے یونہی کہہ یا لکھ دیے جاتے ہیں لیکن سننے پڑھنے والے کے دماغ سے چپک جاتے ہیں۔ مجھے ابن انشا کا ایک جملہ تنگ کرتا ہے۔ خمار گندم میں ان کا ایک کالم شامل ہے جس میں انھوں نے انتظار حسین اور عالیہ بیگم کی شادی کی خبر دی۔ ابن انشا نے لکھا کہ اس جوڑے کے ہاں لڑکا ہوا تو اس کا نام ادب عالیہ رکھا جائے اور بچی ہو تو شب انتظار۔ انتظار حسین نے ادب عالیہ خوب تخلیق کیا لیکن اولاد کے لیے شب انتظار ختم نہ ہوئی۔
انتظار صاحب کے افسانوں سے مجھے صوفی صاحب نے متعارف کروایا۔ سید محمد صوفی جیونیوز کے اسپورٹس ایڈیٹر ہیں لیکن جیو سے پہلے وہ جنگ اور ایکسپریس میں بھی میرے باس تھے۔ باس نہیں، استاد اور گرو۔ میں نے صحافت ہی نہیں، زندگی کے بہت سے سبق ان سے سیکھے۔ وہ بہت زیادہ مطالعہ کرنے والے اور دانشور آدمی ہیں لیکن اسم با مسمی یعنی صوفی بنے رہتے ہیں۔ ان جیسے چند ہی پروفیشنل صحافی ہوں گے، یا شاید کوئی اور نہ ہو جس نے جماعت اسلامی کے اخبار جسارت اور پیپلزپارٹی کے اخبار مساوات دونوں میں کام کیا ہو۔ وہ ضیا الحق کے مارشل لا میں گرفتار بھی ہوئے۔ باہر آکر منیر حسین کے رسالے اخبار وطن میں کام کرنے لگے۔ پھر ہمیشہ اسپورٹس جرنلزم ہی کی اور مجھے بھی نصیحت کی کہ سب کھونٹ جانا، چوتھے کھونٹ مت جانا۔ لیکن میں باز نہ آیا اور نقصان اٹھایا۔
اچھا تو صوفی صاحب نے پہلا افسانہ جو پڑھوایا، وہ صبح کے خوش نصیب تھا۔ یہ انتظار حسین کی کتاب کچھوے میں شامل ہے۔ میں اس تین صفحے کے افسانے کو ہر کچھ عرصے بعد پڑھتا ہوں اور حیران ہوتا ہوں۔ پاکستان کی تاریخ کی ساری کتابیں، حالات حاضرہ کے تمام تبصرے، مستقبل کی تمام پیش گوئیاں اس ایک افسانے سے فروتر ہیں۔
میں چار جملوں میں کہانی بیان کردیتا ہوں، کہ ایک جنگل میں ریل گاڑی کھڑی ہے اور چلنے کا نام نہیں لے رہی۔ بچے بڑے پریشان ہیں کہ کب چلے گی لیکن نہیں چلتی۔ کافی تاخیر کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ آگے پٹڑی اکھڑی پڑی ہے۔ صبح جب ٹرین چھوٹی تو جو پلیٹ فارم پر رہ گئے، وہ مایوس ہوئے اور گاڑی میں بیٹھے لوگوں نے خود کو خوش نصیب جانا۔ اب گاڑی جنگل میں رکی تو صبح کے خوش نصیب، خوش نصیب نہیں رہے۔ رات ہورہی ہے اور مسافر منزل کھونے پر پریشان ہیں۔
بتائیں، یہ آپ کی کہانی ہے یا نہیں؟ ملک کی گاڑی چل نہیں رہی اور آگے کسی نے پٹری اکھاڑ دی ہے۔ جنگل میں رات ہوگئی ہے۔
یہ انتظار حسین کا کمال تھا کہ مارشل لاوں والے ملک میں علامتی افسانہ لکھا اور خوب لکھا۔ یعنی وہ بات جو کہنی ضروری تھی، لیکن اسے کہنے پر صوفی صاحب جیسے نفیس لوگوں کو جیل ہوجاتی تھی، وہ انتظار صاحب نے علامتی انداز میں کہی اور امر کردی۔
انتظار صاحب کی دو اور خوبیاں بھی مجھے پسند ہیں۔ ایک ان کی زبان یا اسلوب، جو ان کی جوانی میں منفرد نہیں ہوگا لیکن اکیسویں صدی آتے آتے ان جیسا لکھنے والا کوئی نہ رہا۔ دوسرے، انھوں نے ادیب ہوتے ہوئے اور رہتے ہوئے صحافت کی اور اس میں بھی خود کو منوایا۔ ان کے کالموں کے مجموعے بلکہ انٹرویوز بھی افسانوں کی طرح پڑھنے لائق ہیں۔ ان سے بھی بڑھ کر ان کی یادداشتوں پر مبنی کتاب چراغوں کا دھواں ہے۔ ناصر کاظمی سے ان کی قریبی دوستی تھی۔ انھوں نے قلم سے اپنے دوست کی شاندار تصویر بںائی ہے۔
حسین عشقی کا شعر ہے،
بجھ چلے ہیں ساری یادوں کے چراغ
اب چراغوں کا دھواں ہے اور ہم
یاد نہیں کس نے کہا تھا، شاید شمیم حنفی نے کہ پاکستان میں ناول لکھنے والے تین حسین ہیں، یعنی مستنصر حسین، عبداللہ حسین اور انتظار حسین۔ خدا تارڑ صاحب کو جیتا رکھے، ہم باقی دونوں بڑے ادیبوں سے محروم ہوچکے ہیں۔ گزشتہ دنوں میں نے تارڑ صاحب اور عبداللہ حسین کی کتابیں پیش کی تھیں۔ آج کتب خانے والے گروپ میں انتظار صاحب کے ناول اور افسانوں سمیت 26 کتابیں شئیر کی ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر