نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اسماعیل الحسنی کی تصنیف ’’نشیب و فراز‘‘ ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برادرم محمد اسماعیل الحسنی کی کتاب ’’نشیب و فراز‘‘ جمعیت علمائے اسلام (ف) میں پچھلے چند برسوں کے دوران پیدا ہوئے ان اختلافات پر ہے جو مولانا محمد خان شیرانی اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان رہے بلکہ اب بھی ہیں۔ انہی اختلافات کے باعث جے یو آئی (ف) مزید تقسیم کا شکار ہوئی لیکن یہ صرف ایک پہلو ہے۔

محمد اسماعیل الحسنی نے ’’نشیب و فراز‘‘ میں پچھلے ایک سو سال کے دوران کے ان تنازعات کا بھی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جو جمعیت علمائے ہند، دارالعلوم دیوبند اور بعدازاں جمعیت علمائے اسلام پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہیں۔

کچھ روز قبل ان کا واٹس ایپ پیغام ملا، ’’شاہ جی لاہور میں ہمارے تقسیم کار پبلشر نے کتاب آپ کو بھجوادی ہے، میں نے شکریہ کے ساتھ عرض کیا کتاب اب قسمت سے ملے گی کیونکہ میرا ایڈریس تبدیل ہوگیا ہے۔ بہرحال سابقہ مکان کے نئے مالکان کی مہربانی سے کتاب مجھ تک پہنچ گئی۔ ٹیلفیونک رسید حسنی صاحب کو دے دی۔

اس کتاب کے لئے پچھلے برس کے دوسرے حصہ کے اوائل میں ایک مشترکہ دوست عزیزی اچکزئی سے درخواست کی تھی ان کا ممنون ہوں کہ ان کی دلچسپی کتاب کی فراہمی میں معاون رہی۔’’نشیب و فراز‘‘ گو مولانا محمد خان شیرانی اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان برپا ہوئے اختلافات اور پھر جے یو آئی (ف) کی نئی تقسیم کے پس منظر میں لکھی گئی مگر صاحب کتاب نے اپنی تصنیف میں پچھلی ایک صدی کی تاریخ کے انگنت واقعات، اختلافات، ریشہ دوانیوں، مخبروں کی وارداتوں اور دو چہروں والے لوگوں کے حوالے سے شواہد یکجا کرکے اسے ایک تاریخی کتاب بنادیا ہے

جے یو آئی (ف) یا کسی مذہبی اور سیاسی جماعت کے اندرونی اختلافات اور پھر جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ کے واقعات اخبار نویسوں کے لئے ایک دو دن کی خبروں سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی ٹوٹ پھوٹ سے یقیناً ان کے مخلص کارکنان متاثر ہی نہیں ہوتے گاہے کچھ سنجیدہ کارکنان اس کا تجزیہ بھی کرتے ہیں کہ جو ہوا وہ کیوں ہوا۔

کیا نظریہ میں کوئی کج تھا یا پھر جماعت کی رہنمائی کرنے والے قائدین میں بشری کمزوریاں بسا اوقات تجزیہ کرنے والوں کو ان سوالات کے جواب مل جاتے ہیں مگر سیاسی و مذہبی عقیدت انہیں جوابات آگے بڑھانے سے روک لیتی ہے۔

’’نشیب و فراز‘‘ تاریخ و سیاسیات اور صحافت کے مجھ ایسے طالب علم کے لئے تو ایک اہم کتاب ہے۔ یہ کتاب جمعیت علمائے ہند، جمعیت علمائے اسلام پاکستان، دارالعلوم دیوبند کی تاریخ ہے۔ جے یو آئی پاکستان کب کب اور کیوں تقسیم ہوئی یہ تقسیم نظریاتی رہی یا شخصی خواہشات پر جماعت کا بٹوارہ ہوا۔

اس کتاب کی تاریخی اہمیت اس میں درج واقعات اور حوالہ جات نے بنادی۔ مثلاً 1970ء کے عام انتخابات سے قبل سوشلسٹ جماعتوں اور ان کے ہم خیالوں و اتحادیوں کو ووٹ نہ دینے کے فتویٰ کو ہی لے لیجئے۔

اس فتوے پر دیوبندی بریلوی، شیعہ اور اہلحدیث علماء کے دستخط ہیں۔ شیعہ علماء کے جو نام کتاب میں درج ہیں ان میں سے مفتی جعفر حسین، علامہ سید محمد دہلوی اور سید ابن حسن چارجوئی شامل ہیں۔ ان تین بزرگوں کے دستخط اس لئے حیران کن ہیں ان کے مکتب کے لوگ ہمیشہ دعویدار رہے کہ ہم اسلام کا ترقی پسند چہرہ ہیں۔

بہرحال یہر ایک مثال ہے۔ محمد اسماعیل الحسنی نے اپنی تصنیف میں دارالعلوم دیوبند سے اٹھی نشاط ثانیہ کی تحریک کے اگلے مختلف سالوں میں سامنے آنے والے ان فتوئوں کا بھی تفصیل سے ذکر کیا جو ایک ہی بنیادی فہم کے لوگوں نے ایک دوسرے کے خلاف دیئے۔

انہوں نے تاریخی حوالوں سے سرکار برطانیہ کے لئے خدمات سرانجام دینے والے بعض بزرگوں کی ضرورتوں اور مجبوریوں پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے حوالہ جات کے بغیر کوئی بات آگے بڑھانے سے گریز کیا یہی ان کی تصنیف کا حسن ہے۔ پچھلی سپہر سے رات گئے تک ’’نشیب و فراز‘‘ کے لئے لکھا گیا مولانا گل نصیب خان کا پیش لفظ اور خود محمد اسماعیل الحسنی کے لکھے مقدمے کے صفحات پڑھ پایا ہوں۔ ایک طالب علم کے طور پر میری رائے یہی ہے کہ کتاب کا مقدمہ بذات خود ایک کتاب ہے۔

پیش لفظ لکھنے والے خیبر پختونخوا کے معروف عالم دین مولانا گل نصیب خان قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے۔ ان کا پیش لفظ کتاب کے موضوعات اور صاحب کتاب کی محنت و اسلوب کے تذکرے سے زیادہ ایک روایتی جذباتی خطاب ہی ہے۔

ویسا ہی روایتی جذبات خطاب جو دستیاب مسلم مکاتب فکر کے خطیب حضرات اپنے اپنے مسلک کی متحدہ ہندوستان میں اسلامی خدمات جدوجہد اپنے خلاف سازشوں اور وارداتوں کی کہانیوں کو چار چاند لگاکر سامعین و متاثرین کے سامنے بیان کرتے ہیں۔

نصیب گل نے سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید جیسے بزرگوں کی قربانی اور ان کے خلاف سازشوں کا تذکرہ بھی یکطرفہ طور پر اور مختصراً کیا۔ جبکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ اس تحریک کے مسلمانان ہند پر مرتب ہوئے ان منفی اثرات کے ذکر کے ساتھ خود سید احمد شہید کی تحریک میں در آئی شدت پسندی کا بھی تجزیہ کیا جاتا یہ تجزیہ اس لئے بھی ضروری تھا کہ اس تحریک کے حوالے سے دو آراء بہرطور موجود ہیں

اولاً یہ کہ تحریک خلاف الٰہیہ کے احیا اور اسلام کی نشاط ثانیہ کی تحریک تھی جس کے بڑے متحدہ ہندوستان کو دارالحرب قرار دیتے تھے۔

دوسری رائے یہ رہی کہ اس تحریک نے برصغیر کے مسلم سماج میں ایک نئی قسم کی جہادی شدت پسندی کے بیج بوئے اور خود اس تحریک نے ہزاروں گھر اجاڑ دیئے۔

نصیب گل کے پیش لفظ کے مقابلہ میں محمد اسماعیل الحسنی کا مقدمہ کتاب کے بیانیہ کو اس کے پس منظر کے ساتھ پڑھنے سمجھنے والے کی مرحلہ وار رہنمائی کرتا ہے۔

محمد اسماعیل الحسنی کہتے ہیں ’’ہم اولاً اس کتاب کو جمعیت علمائے اسلام کے متعلقین تک محدود رکھنا چاہتے تھے پھر سوچا کہ یہ تاریخ ہے اسے عام قاری تک بھی پہنچایا جائے ”

ہماری رائے میں ان کا دوسرا فیصلہ درست ہے کہ کتاب تاریخ کے مختلف گوشوں سے دلچسپی رکھنے والوں کے مطالعہ کے لئے عام کی جائے۔ ان کے دوسرے فیصلے کی وجہ سے ہی کتاب دستیاب ہوئی اور اس کا مطالعہ جاری ہے۔

وجہ تالیف کے باب میں بھی انہوں نے بہت تفصیل کے ساتھ اس بات پر روشنی ڈالی کہ کیسے ایک نظریاتی تحریک جب چھوٹے بڑے کاروباری مفاد پرستوں کے ہاتھ چڑھ جاتی ہے تو نظریاتی کارکنان جماعت میں ہر سطح پر نظرانداز ہوتے ہیں۔

مجھے ایسے لگتا ہے کہ ’’محمد اسماعیل الحسنی کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اصلاح معاشرہ کی دعوت اور سیاسی رہنمائی دونوں کا دامن احتیاط سے تھامے رہنے میں نظریاتی جدوجہد کو دوام ملتا ہے۔ سیاسی رہنمائی برائے حصول اقتدار سے بھی فقط سے مسائل پیدا ہوتے ہیں‘‘۔

یہ فہم تقریباً ہر مذہبی جماعت میں رہی ہے کہ اصلاح معاشرہ کا عمل خود حکومت الٰہیہ کے قیام میں معاون بنتا ہے لیکن یہاں ایک سوال ہے وہ یہ کہ کیا محض مذہبی تعلیم کا حامل شخص اصلاح معاشرہ کی اس دعوت کو آگے بڑھاسکتا ہے جو منطقی طور پر حکومت سازی کیلئے ہو ؟

بالخصوص اس صورت میں جب اس کی مذہبی تعلیم اپنے روایتی مسلک کی کتب کی مرہون منت ہو اور یہ کتب فقط یہ باور کراتی ہوں کہ ’’ہم ہی اچھے‘‘ باقی راندہ درگاہ ہیں؟

مذہبی جماعت کا سیاسی عمل میں شریک ہونا کیا معاشرتی تقسیم کو بڑھانے کا موجب نہیں بنتا کیونکہ ہر مذہبی جماعت اپنے عقیدے کو ہی خالص اسلام کے طور پر پیش کرتی ہے؟

یقیناً یہ دو سوال کتاب کے موضوع سے لگا نہیں کھاتے۔ اس کے باوجود کتاب اپنے موضوع کے حوالے سے ایک جامع دستاویزات ہے۔ انہیں یہ شکوہ بھی ہے کہ تقسیم کے بعد اسلام کی نشاط ثانیہ کی تحریک کے وارثین نے خود کو بریلویوں کے مقابلہ کا ایک گروہ بناکر پیش کیا جس سے لوگوں میں یہ تاثر گیا کہ دیوبندیت بمقابلہ بریلویت کے سوا کچھ نہیں۔

” نشیب و فراز ” دارالعلوم دیوبند، جمعیت علمائے ہند اور پھر تقسیم کے بعد معرض وجود میں آنے والی جمعیت علمائے اسلام کی تاریخ کے داخلی گھٹالوں، سازشوں، مخبریوں سے عبارت کرداروں، نفس امارہ کے اسیروں کی بھرپور اور جامع تاریخ ہے۔ ’’نشیب و فراز‘‘ میں بہت سارے دلچسپ واقعات بھی ہیں۔ مختلف اوقات کی حکومتوں کے تعاون سے "شیوخ ” بنے حضرات کے قصے بھی ہیں۔

مولانا اشرف علی تھانوی کے برادرم کا ذکر بھی ہے جو سی آئی ڈی میں اہم منصب پر تھے۔ اس منصب پر فائز بھائی نے ا پنے مولانا بھائی کو "کرنی والے پیر” (دنیاوی مشکل آسان کرنے والا) بنانے میں جو خدمات سرانجام دیں ان کا ذکر بہرحال نہیں ہے۔ انہوں نے اندھی تقلید، جنونیت اور شخصی وفاداری کو نظریہ پر اہمیت دینے و الے کرداروں پر بھی تفصیل سے بات کی۔

قصہ مختصر یہ کہ کتاب لکھی تو مولانا شیرانی اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان پیدا ہوئے اختلافات کے پس منظر اور حاضر احوال پر گئی لیکن انہوں نے محنت کرکے اسے ایک سو سال کے اتارچڑھائو، جدوجہد، تقسیم در تقسیم کی تاریخ بنادیا۔

ظاہر ہے اس کا مستقبل میں ان لوگوں کو ضرور فائدہ ہوگا جو تاریخ کے مختلف گوشوں سے آگاہی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author