حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ 1973ء کا دستور متفقہ نہیں تھا۔ مخدوم نور محمد ہاشمی، میجر عبدالنبی کانجو اور نواب خیر بخش مری نے دستخط نہیں کئے تھے۔ یہ بھی عرض کیا تھا کہ ایک آدھ اور رکن نے بھی دستخط نہیں کئے۔ ہمارے برادرِ عزیز اور امریکہ میں مقیم سرائیکی قوم پرست رہنما عبید خواجہ نے تصحیح کرتے ہوئے بتایا کہ بہاولپور سے میاں نظام الدین حیدر، رحیم یار خان سے مخدوم نور محمد ہاشمی نے دستخط نہیں کئے۔ میجر عبدالنبی کانجو نے سرائیکی صوبہ کے قیام کے وعدہ پر مشروط دستخط کئے اور پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے یہ تینوں صاحبان بہاولپور صوبہ محاذ کے ٹکٹ پر جیتے تھے۔
مخدوم نور محمد ہاشمی بعدازاں جے یو پی میں شامل ہوگئے۔ عبید خواجہ کی تصحیح شامل تحریر کردی ہے۔ اس طور بھی حساب یہی ہوا کہ تین ارکان قومی اسمبلی نے 1973ء کے دستور کی منظوری کے وقت ووٹ نہیں دیا تین میں سے 2سرائیکی رکن تھے چوتھے رکن نے مشروط دستخط کئے۔ مشروط دستخط بھی ایک طرح سے اختلاف رائے ہی ہے۔
نواب خیر بخش مری نے بھی دستخط نہیں کئے۔ اب یہ کہنا کہ 1973ء کا دستور متفقہ تھا، صریحاً غلط ہوگا۔ عبید خواجہ یا کوئی دوسرا دوست میاں نظام ا لدین حیدر اور مخدوم نور محمد ہاشمی کے دستخط نہ کرنے کی وجوہات پر اپنی معروضات بھیجئے تو کالم کا دامن حاضر ہے۔ ان کی معروضات کو کالم میں شامل کرکے قارئین تک پہنچانے کا فرض ادا کروں گا۔
میری معلومات یہی ہیں کہ میاں نظام الدین حیدر اور مخدوم نور محمد ہاشمی کے خیال میں 1973ء کا دستور پاکستان میں ضم ہوئی آزاد مسلم ریاست بہاولپور پر کی شناخت پر شب خون تھا۔
پیپلزپارٹی کا بہاولپور کی بجائے سرائیکی صوبہ بنانے کا وعدہ اور اس کے لئے قوم پرستوں سے رائے عامہ کو ہموار کرنے کا مشورہ ذوالفقار علی بھٹو نے بہاولپور صوبہ محاذ کے اگوان اور سرائیکی صوبہ محاذ کے بانیوں میں سے ایک سئیں ریاض اختر ہاشمی ایڈووکیٹ کو دیا تھا۔
عبید خواجہ نے حال ہی میں ریاض اختر ہاشمی مرحوم کی کتاب ’’اے بریف آف بہاولپور‘‘ کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ یہ کتاب فکشن ہائوس لاہور نے شائع کی ہے۔
بہرطور اصل مقدمہ یہ ہے کہ 1973ء کا دستور متفقہ نہیں تھا۔ نواب خیر بخش مری دستور کی منظوری کے عمل میں اپنی رائے کے حوالے سے کہتے تھے
’’ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان ایک قومی ملک نہیں 16دسمبر 1971ء کے بعد بچ رہنے والے پاکستان کی جغرافیائی حدود قدیم انڈس ویلی پر مشتمل ہیں یہاں پانچ قومیں آباد ہیں پشتون، پنجابی، بلوچ، سرائیکی اور سندھی۔ 1973ء کا دستور چونکہ ان قوموں کی قدیم قومی تہذہیبی تاریخی شناختوں کا قتل تھا اس لئے میں نے اپنے ضمیر کی آواز پر اس قتل میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا‘‘۔
1973ء کے دستور کو اس کی منظوری سے آج تک فیڈریشن کی یکجائی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ تاریخ و سیاست کے بہت سارے طلباء اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ اپنے عصری شعور کی بنیاد پر ہم بھی ان طلباء میں شامل ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ 1973ء کے دستور نے جسے فیڈریشن قرار دیا یہ درحقیقت اقوام کی کنفیڈریشن ہے۔
فیڈریشن سے کنفیڈریشن کی طرف سفر کیسے طے ہوگا اس بارے مختلف آراء ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں چند بزرگ سیاستدانوں سردار عطاء اللہ مینگل عبدالحفیظ پیرزادہ، ممتاز علی خان بھٹو، جام صادق علی اور کچھ دیگر نے کنفیڈریشن کی بات کی تھی یاد پڑتا ہے اس حوالے سے ان میں سے بعض رہنمائوں نے لندن میں ایک فرنٹ بنانے کااعلان بھی کیا تھا۔
ان دنوں ملک میں فوجی آمریت کا طوطی بولتا تھا۔ بہت بعد میں مرحوم ارشاد احمد حقانی نے اپنے کالموں میں قسط وار کنفیڈریشن کے حامی ان سیاستدانوں کے انٹرویوز شائع کئے۔ سول اور فوجی محکمہ ہائے اطلاعات دونوں اس پر بہت چیں بچیں ہوئے تھے۔
بہرطور یہ ایک رائے ہے کہ 1973ء کا دستور بدلتے ہوئے حالات اور ضرورتوں کو پورا نہیں کرتا۔ بعض دوست کہتے ہیں کہ 18ویں ترمیم نے صوبوں کو بہت سارے حقوق دیئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ حقوق بلاچوں چراں دیئے جائیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اصل جھگڑا تو یہ ہے کہ یہ چار صوبائی یونٹوں کی فیڈریشن ہے یا پانچ اقوام کی کنفیڈریشن؟
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر فیڈریشن کو صوبائی یونٹوں کی بجائے اقوام کے اتحاد یعنی فیڈریشن سمجھا جائے تو بات آگے بڑھ سکتی ہے۔
میری دانست میں 1973ء کے دستور کی منظوری کے بعد اس کی 2بار معطلی (جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے فوجی اقدامات کی صورت میں) درحقیقت آگے بڑھنے کے عمل میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی وارداتیں تھیں۔
اس ملک کو سکیورٹی سٹیٹ بنائے رکھنے کے خواہش مند طبقات کو یہ خطرہ ہمیشہ دامن گیر رہا کہ دستور جس طرح شہری آزادیاں اور مکالمے کی سہولت دیتا ہے اس پر اگر عمل ہوتا رہا تو یک قومی نظریہ کا بیانیہ رخصت ہوجائے گا۔
اس خوف کی وجہ سے سماجی یکجہتی پر حملہ کرنے والی شدت پسند تنظیموں کے قیام کی خود ریاست نے حوصلہ افزائی کی بلکہ بسا اوقات تو ریاست نے دو قدم آگے بڑھ کر وسائل بھی فراہم کئے۔
یہ بھی ہوا کہ ریاست کی چھتر چھایہ میں بنائی گئی تنظیموں کو لشکر بنانے کی نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ بعض لشکروں کی تربیت کا سامان بھی کیا تھا۔ ریاست نے ان لشکروں کو اپنا قیمتی اثاثہ بھی کہا۔
اس لشکر گردی نے اس ملک کے روشن خیال طبقوں پر جو قیامت ڈھائی وہ کئی سے مخفی نہیں۔ دو اڑھائی برس قبل جب اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 40برسوں کی افغان پالیسی کے بھیانک نتائج اور نقصانات کا اعتراف کرتے ہوئے سارے معاملے کا ازسرنو جائزہ لینے اور پالیسی کی تشکیل نو کی ضرورت کا اعتراف کیا تھا تو ان سطور میں عرض کیا تھا
’’صرف افغان پالیسی کے نقصانات کا اعتراف اور ازسرنو جائزہ سے کام نہیں چلے گا۔ سب سے پہلے سکیورٹی سٹیٹ کی شناخت پر نظرثانی کرنا ہوگی تبھی ہم ایک جمہوری فلاحی مملکت کی طرف بڑھ سکتے ہیں کیونکہ سکیورٹی سٹیٹ اپنے ہی لوگوں کے وسائل کھاتی ہے۔ یہ داخلی اور خارجی محاذوں پر نفرتوں کے کاروبار کے بڑھاوے کے سوا کچھ بھی نہیں کرپاتی‘‘۔
سچ بھی یہی ہے کہ سکیورٹی سٹیٹ عالم اسلام کی فرنٹ دفاعی لائن یا قلعہ یہ سب جاگتی آنکھوں کے وہ خواب ہیں جن میں رنگ بھرنے کے لئے اپنے ہی لوگوں کا استحصال کرنا پڑتا ہے۔
اس لئے ضروری ہے کہ جیسا بھی ہے 1973ء کے دستور کی حتمی بالادستی تسلیم کی جائے۔ دستوری تنازعات طے کرنے کے لئے الگ سے وفاقی دستوری عدالت قائم کی جائے۔ صوبوں کا ازسرنو تاریخی لسانی، تہذیبی و ثقافتی بنیادوں پر جائزہ ناگزیر ہوچکا ہے۔
فیڈریشن کے صوبوں کے پاس ماضی یعنی بٹوارے سے قبل کے جو مقبوضات ہیں ان مقبوضات کے لوگوں کو آزادانہ طور پر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیا جائے۔
1973ء کے دستور میں اس کی منظوری سے اب تک ہوئی ترامیم اس بات کا زندہ ثبوت ہیں کہ قومیں اور ریاستیں اپنے ارتقائی عمل کی ضرورتوں کے پیش نظر دستوری ترامیم کرتی رہتی ہیں۔ آج کے حالات میں سخت گیر سکیورٹی سٹیٹ والی فیڈریشن لوگوں کی امنگوں پر پورا نہیں اترسکتی۔
آبادی کے مختلف طبقات فیڈریشن سے ناراض کیوں ہیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ سرائیکی قومی شناخت بنیادی طور پر فیڈریشن کے صوبائی یونٹوں کے ان مقبوضات کے باشندوں کی آواز ہے جو ان یونٹوں کو 1947ء کے بٹوارے کی صورت میں ورثے میں ملے تھے۔
اگر درست یا غلط بٹوارہ ہوسکتا ہے تو معروضی حالات کو شعوری طور پر سمجھ کر مقبوضات کے لوگوں کی بات کیوں نہیں سنی جاسکتی۔ نئے صوبوں کا مطالبہ جرم ہے نہ ناقابل معافی گناہ۔
پڑوس کے بھارت میں 1947ء کے بعد سے اب تک کتنے صوبے بنے۔ خود بھارتی پنجاب کے اندر سے تین صوبے معرض وجود میں آئے۔ اصل ضرورت لوگوں کی بات سننے اور ان کی آوازوں کو سمجھنے کی ہے۔
جغرافیہ حرف آخر نہیں ہوتا یہاں کبھی ہند اور سندھ کے نام کی مملکتیں تھیں۔ درجنوں آزاد ریاستیں بھی۔ متحدہ ہندوستان ہوا اس میں بھی خودمختار نیم خودمختار ریاستیں موجود تھیں پھر 1947ء میں بٹوارہ ہوگیا۔
پاکستان بنا تو یہ مغربی اور مشرقی پاکستان نامی دو حصوں پر مشتمل تھا۔ 16دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔
یہاں پچھلے 51 برسوں سے پھر سکیورٹی سٹیٹ کا شوق پورا کیا جارہا ہے اس شوق کے نقصانات سامنے دیوار پر لکھے ہیں۔
ہمارے بچوں کا محفوظ مستقبل قومی جمہوری فلاحی ریاست میں ہی ہے۔ قومی جمہوری فلاحی ریاست ظاہر ہے غیرمساویانہ بنیادوں پر قائم نہیں ہوتی۔
مساویانہ بنیاد کیا ہے فقط یہی کہ فیڈریشن کی اکائیاں صوبے نہیں قومیں ہوں۔ کیا ہم اس سوال پر سنجیدگی سے غور اور مکالمہ کرسکتے ہیں؟
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ