مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم افتخار عارف کے ایک مجموعہ کلام کا نام باغ گل سرخ ہے۔ یہ بات میرے سوا شاید ہی کوئی جانتا ہو کہ اس عنوان کا پس منظر کیا ہے۔
میں نے 2013 میں ایران کا دورہ کیا تھا۔ اس وقت افتخار صاحب علاقائی تعاون کی تنظیم ایکو کے محکمہ ثقافت کے عہدیدار ہوکر تہران میں تعینات تھے۔ کراچی میں ڈاکٹر آصف فرخی نے مجھے کچھ کتابیں دے کر کہا کہ انھیں افتخار صاحب کو دے دینا۔ میں جس قافلے کے ساتھ تھا، اسے مشہد اور قم جانا تھا۔ تہران سے گزرنا ضرور تھا لیکن پڑاؤ نہیں کرنا تھا۔
میں ایک دن قافلے کو چھوڑ کر نکلا اور تہران جاکر افتخار صاحب سے ملاقات کی۔ اتفاق یہ ہوا کہ اسی دن قریش پور صاحب کے انتقال کی خبر آئی تھی۔ افتخار صاحب ملول تھے۔ دیر تک انھیں یاد کرتے رہے۔ میرے اصرار کرنے پر کچھ پرانی کچھ نئی شاعری سنائی۔ ایک نظم حجر بن عدی پر تھی۔ انھیں دنوں ظالموں نے دمشق میں حضرت علی کے اس صحابی کی قبر اکھاڑ ڈالی تھی۔ نظم میں انھیں خراج عقیدت پیش کیا گیا تھا۔
رمضان تھا لیکن افتخار صاحب نے دوپہر کا کھانا کھلایا اور ایرانی قہوہ بھی پلایا۔ میں نے آصف بھائی کی بھیجی ہوئی اور اپنی کتابیں بھی پیش کیں تو افتخار صاحب کو اچھا نہ لگا کہ مجھے خالی ہاتھ روانہ کریں۔ انھوں نے ایک کتاب دستخط کرکے مجھے عطا کی۔ یہ نصرت نسترن زادگان کی کتاب تھی جس میں انھوں نے مغربی شعرا کے کلام کا فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔ اس پر نصرت نسترن نے افتخار صاحب کے لیے دستخط کیے تھے۔ افتخار صاحب نے یہ لکھ کر میرے لیے دستخط کردیے، ایک دوست کی کتاب دوسرے دوست کے لیے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ