مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جنیوا کنونشن اور پاکستانی معیشت۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیلاب متاثرین کیلئے جینوا میں منعقد ہونے والی عالمی کانفرنس کے دوران عالمی اداروں اور مختلف ممالک نے پاکستان کو 10ارب 57 کروڑ ڈالر امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ خطیر امدادی رقم ہے اور اس سے سیلاب متاثرین کی بحالی کے کام میں مدد ملے گی، اس امدادی رقم کو شفافیت کے ساتھ متاثرین تک پہنچایا گیا تو اس سے آئندہ زراعت کی ترقی اور زرعی پیداوار میں اضافے سے ملکی معیشت کو بڑا سہارا مل سکتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سیلاب متاثرین کیلئے ملنے والی امداد کی ایک ایک پائی متاثرین پر خرچ ہو گی اور تھرڈ پارٹی سے آڈٹ کرایا جائے گا لیکن اس بیان پر عمل نظر آنا چاہئے ۔ اس سے پہلے بھی سیلاب متاثرین کے نام پر اندرون اور بیرون ممالک سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو امداد ملی ہے مگر وہ امداد سیلاب متاثرین تک مکمل نہیں پہنچ سکی۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وزیر اعظم کی سربراہی میں جینوا کنونشن میں شرکت کرنے والے وفد پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ لائو لشکر سمیت جینوا جا کر بھیک مانگتے انہیں شرم نہیں آتی۔ سیلاب متاثرین کیلئے امداد پر تنقید نہیں ہونی چاہئے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے خود کہا تھا کہ صنعتی ممالک کی طرف سے پیدا کی گئی ماحولیاتی آلودگی کی سزا پاکستان بھگت رہا ہے ، ان ممالک کو پاکستان میں ہونیوالے نقصانات کا ازالہ کرنا چاہئے۔ جو بات قابل اعتراض ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ 2010ء کے سیلاب متاثرین کیلئے عالمی برادری کی طرف سے بہت امداد ملی لیکن متاثرین تک نہ پہنچی، ان دنوں بھی وسیب کے دس اضلاع متاثر ہوئے تھے ، آج یہ عمل نہیں دہرایا جانا چاہئے۔ سیلاب متاثرین کو امداد بھی ملنی چاہئے اور زراعت کی ترقی کیلئے اقدامات بھی ہونے چاہئیں تاکہ معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہو سکی۔ ڈیفالٹ کا اعلان ہو نہ ہو عملی طور پر ڈیفالٹ جیسی صورتحال ہی ہے اور غریب تو بری طرح کچلا گیا ہے، اقتدار کی جنگ بند کر کے پاکستان کے بائیس کروڑ غریب عوام کیلئے بھی کچھ سوچ لینا چاہئے۔ معاشی پالیسیاں مسلسل الٹ چل رہی ہیں، اسحاق ڈار کو ’’ٹارزن کی واپسی‘‘ کے طور پر بلایا گیا تھا ، کہا گیا تھا کہ ڈالر سو روپے تک آ جائے گا مگر ڈالر ڈھائی سو سے اوپر پہنچ گیا ہے۔ زندہ قومیںماضی کو سامنے رکھ کر مستقبل کے منصوبے بناتی ہیں، یہ ٹھیک ہے کہ معاشی حوالے سے ہمارا ماضی بھی درخشندہ نہیں مگر ہم یہ تو کر سکتے ہیں کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں۔2003ء تک ہر سو ڈالر کے ایکسپورٹ پر ہم تقریباًایک سو پچیس ڈالر امپورٹ کرتے تھے،یعنی پچیس فیصد خسارہ تھا، کچھ ترسیلات زر تھی، کچھ سرمائے کی آمدنی تھی ، کچھ قرض لے لیتے تھے کام چل جاتا تھا۔ اب ہر سو ڈالر کے ایکسپورٹ پر دو سو تیس ڈالر کا امپورٹ ہے، جو پچیس فیصد خسارہ تھا وہ ایک سو تیس فیصد ہو گیا جوکنٹرول نہیں ہو سکتا۔ ہم نے مجبوراً قرضے لیتے ہیں،قرضے بھی فضولیات کیلئے،حالت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کتوں اور بلی کا شیمپو بھی امپورٹ کیا جا رہا ہے، اگر امپورٹ کی لسٹ سامنے رکھی جائے تو اس میں کم از کم پچاس فیصد اشیاء ایسی سامنے آئیں گی جس کا ضروریات زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ پاکستان میں ایک تہائی بچے غذائیت کا شکار ہیں اور یہاں کتے اور بلی کے شیمپو امپورٹ ہوتے ہیں وہ بھی قرضوں کے ڈالرز سے ۔ حکومت کو چاہئے کہ غیر ضروری امپورٹ پر پابندی لگا دے ، اس پر ٹیکس ڈیوٹی بڑھانے سے کام نہیں چلے گا۔ جنرل سیلز ٹیکس کے مسئلے کو بھی از سر نو دیکھنے کی ضرورت ہے، بڑے سرمایہ دار اور صنعت کار ٹیکس دیتے نہیں جبکہ چھوٹے چھوٹے دکانداروں پر جی ایس ٹی اور انکم ٹیکس بجلی کے بلوں کے ساتھ لگ کر آجاتا ہے، کارخانوں پر بلاشک ٹیکس تھوڑا ہونا چاہئے مگر اس کی ریکوری کا نظام شفاف ہونا چاہئے، یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ 17 فیصد جی ایس ٹی پر انڈسٹری کام نہیں کر سکتی ، اس کو پانچ فیصد تک لایا جائے تاکہ کارخانے لگیں، کارخانے کام کریں، لوگوں کو نوکریاں بھی ملیں گی اور ایکسپورٹ کے سرپلس پر ہم جنریٹ کریں گے ۔ ان اقدامات سے ریونیو کم ہو جائے گاتو اس کو کیسے پورا کرنا ہے؟ اس کیلئے ہمیں غیر ترقیاتی اخراجات کم کرنے پڑیںگے ۔ ہمارے پاس منسٹریز کے 42 ڈویژن ہیں ، ان کی کیا ضرورت ہے اور یہ کیا کام کرتے ہیں، پوسٹ آفس منسٹری آف کمیونیکشن کا حصہ ہوتا تھا ، وہ الگ منسٹری بنا دی گئی، پوسٹ آفس کے پہلے ایک ڈائریکٹر جنرل اور ایک ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ہوتے تھے، اب ایک ڈائریکٹر جنرل اور 9 ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ اور بھی بہت سے غیر ترقیاتی اخراجات ہیں دفاعی بجٹ کم کرنے کی ضرورت ہے، خصوصاً دفاعی بجٹ کا وہ حصہ ہر صورت کم ہونا چاہئے جس کا جنگ سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر گھر کے اخراجات زیادہ ہیں اور آمدنی کم ہے اور آمدنی بڑھنے کی امید نہیں ہے تو گھریلو اخراجات کو کم کرنا پڑتا ہے، مگر ہمارے ملک میں اخراجات کی کمی کی کبھی بات نہیں کی گئی۔ جب بجٹ میں کٹ لگتا ہے ، ڈویلپمنٹ بجٹ پر کٹ لگتا ہے، بجلی گھر نہیں بنتے، سڑکیں نہیں بنتیں، سکول نہیں بنتے، ڈسپنسریز نہیں بنتیں، لیکن نان ڈویلپمنٹ بجٹ میں کبھی کمی نہیں کی جاتی، یہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس وقت ملک وینٹی لیٹر پر ہے، جس دن ہمیں قرضے ملنے بند ہو جائیں گے ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جنگ صرف قومی نغمے گا کے نہیں جیتی جا سکتی ، جنگ کیلئے آپ کو ٹینک ، وارشپس ، آرمڈ کارز چاہئیں، لڑاکا طیارے چاہئیں، یہ سب پٹرول پر چلتے ہیں اور پٹرول ڈالر سے آتا ہے، ڈالر ایکسپورٹ سے آتا ہے اور ایکسپورٹ کارخانے چلنے سے ہو گی، جہاں کارخانے ہی بند ہو جائیں گے تو ڈالر کیسے آئیں گے ، ڈالر نہیں آئیں گے تو ہم پٹرول امپورٹ نہیں کر سکتے ، ہمارے ٹینک، لڑاکا طیارے، ہوائی جہازوغیرہ سب کچھ بے کار رہ جائے گا ہم جنگ بھی نہیں لڑ سکیں گے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ غیر ضروری اخراجات کم کئے جائیں اور مستقبل کے قابل عمل ایسے منصوبے بنائے جائیں جس کا فائدہ عام آدمی تک پہنچے۔ باردیگر کہوں گا کہ شفافیت کا نظام نیچے سے لیکر اوپر تک برابر ہونا چاہئے اور سیلاب متاثرین کی امداد ہر صورت حق داروں تک پہنچنی چاہئے۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: