مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں پیچھے مڑ کر ماضی بعید کی اس صبح کی طرف دیکھتا ہوں جب میں اسکول کا لڑکا تھا اور رات بھر گولیاں چلنے کی آوازیں سنتا تھا۔ ہم لڑکوں کی ایک ٹولی صبح تڑکے سائیکل چلایا کرتی تھی۔ اسکول جانے کے بجائے ہم ریلوے اسٹیشن کی طرف چلے گئے۔ بنّوں سے آنے والی ٹرین کو، جو ہندو اور سکھ پناہ گزینوں کو انڈیا لے جا رہی تھی، ان قبائلیوں نے روک لیا تھا جو کشمیر میں لڑنے کی غرض سے ہمارے شہر میں مقیم تھے۔ وہ مسافروں کو ذبح کررہے تھے۔ مقامی شہری بھی پوری توانائی کے ساتھ ان کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ ہم نے اپنے ڈرائنگ ماسٹر کو دیکھا، جو شاعر اور گائیک بھی تھا، اور ہمارا آئیڈیل تھا۔ اس نے ایک موٹے سے آدمی کو زمین پر گرا رکھا تھا اور اپنے ساتھ لائی ہوئی درزیوں والی قینچی اس کے جسم میں بار بار بھونک رہا تھا۔ پھر اس نے اس آدمی کے کرتے کا سامنے والا حصہ پھاڑ کر اس کی سوتی بنڈی کی دونوں جیبیں، جو نوٹوں اور سونے کے زیوروں سے بھری ہوئی تھیں، اُسی قینچی سے کاٹ لیں۔ اس کے بعد ماسٹر سرور پیچھے دیکھے بغیر اپنے مال غنیمت کے ساتھ بھاگ کھڑا ہوا۔ پورا پلیٹ فارم مرے ہوئے اور مرتے ہوئے انسانوں سے بھرا ہوا تھا۔ میری عمر اس وقت سولہ برس نہیں ہوئی تھی۔
یہ صرف ہمارے خوابوں کا خاتمہ نہیں تھا بلکہ دنیا کے ساتھ ہمارے رومانس کی بھی موت تھی۔ ہم میں سے کئی نے بعد میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلی۔ چند ایک کبھی نہ لوٹنے کے لیے گئے۔ لیکن ہم جہاں بھی گئے، ناخوش رہے۔ ہم ایک اکھڑی ہوئی، گمشدہ نسل تھے۔
دلچسپ بات ہے کہ 1940 سے 1980 تک کے چالیس سال میں بہترین اردو ادب تخلیق ہوا۔ شاعر مجاز اور ساحر سے لے کر فراق اور فیض، نقاد سرور اور عسکری، فکشن نگاروں میں کرشن چندر اور بیدی اور منٹو اور غلام عباس اور دوسروں نے اپنی بہترین تحریریں تخلیق کیں۔ لوگ اکثر ٹوٹے ہوئے دلوں کی بات کرتے ہیں۔ لیکن اس نسل کے ادیبوں نے زخمی ذہنوں کے ساتھ لکھا۔ ہم سب کے اندر اپنی اپنی جلاوطنی کے مقامات موجود ہیں۔
۔۔۔
عبداللہ حسین کی یہ انگریزی تحریر ان کی 2014 کی ایک فیس بک پوسٹ ہے جسے اجمل کمال نے ترجمہ کیا۔ اس تحریر کو ان کے فکشن کے پس منظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔
ناول اداس نسلیں نے انھیں شہرت بخشی۔ اس کے بعد ان کے دو ناول نادار لوگ، باگھ، تین ناولٹ قید، رات اور واپسی کا سفر اور دو افسانوں کے مجموعے نشیب اور فریب شائع ہوئے۔ میں ان سے صرف ایک کتاب فریب پر دستخط کرواسکا۔ اتفاق سے وہی میرے پاس اسکین نہیں ہے۔ باقی تمام کتابیں گوگل ڈرائیو کے ایک فولڈر میں ڈال دی ہیں اور لنک کتب خانے والے گروپ میں شئیر کردیا ہے۔
۔۔۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ