مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل رات میں سردی میں کمبل منہ پر چڑھائے لیٹا تھا کہ جون ایلیا آئے اور کندھا ہلا کے کہا، بالے! جاگ رہے ہو یا باقی سب مفلس پاکستانیوں کی طرح خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہو؟
میں بستر پر لیٹے لیٹے اچھل پڑا۔
انھیں گھورتے ہوئے دیکھا تو ہکلاتے ہوئے کہا، ماموں! آپ تو نوجوان شاعروں کے خواب میں آتے ہیں یا انور مقصود کو خط لکھتے ہیں۔ آج مجھے یہ اعزاز بخش رہے ہیں۔ یقین نہیں آرہا۔
انھوں نے فرمایا، بالے! آنا تو نہیں چاہ رہا تھا۔ لیکن تم ہر طرح کی کتابیں مجلس کے تبرک کی طرح بانٹے جارہے ہو۔ میری کتابوں کا نمبر کب آئے گا؟
میں نے سر جھکا کر کہا، اے غالب کے جانشین، اے ملک الشعرا، اے جان اولیا، یہ کام میں آج ہی کروں گا۔ شاعری کی چھ کتابیں اور نثر کا مجموعہ فرنود ہی نہیں، شاہانہ ایلیا کی کتاب چچا جون بھی آپ کے پرستاروں کو پیش کروں گا۔ اور کوئی حکم؟
جون صاحب نے کہا، ہاں۔ خالد احمد انصاری کو خوب شاباشی دیجیو۔ اس نے میرے سارے کلام کو سنبھال کر رکھا اور ورق ورق چھاپ دیا۔ یہ کام تو میں خود بھی نہ کرسکتا تھا۔
اور شاہانہ کو کہیو، بٹیا گھر کی باتیں باہر والوں کے سامنے یوں نہ کیا کرتے۔
اور آج کل کے لونڈوں کو فرداً فرداً بتائیو، کہ جانی! جون بعد میں بنیو، پہلے انسان بن لو۔ ہیں؟ سمجھے؟
پھر چونک کر پوچھا، بالے! تم تو شاعر نہ ہو؟ تم تو جون نہ بن رہے؟
میں نے ہاتھ چوم کر عرض کیا، نہ ماموں، میں شاعر نہ ہوں۔ سخن فہم ہوں۔ جون نہیں ہوں۔ ایلیائی ہوں۔
۔
(بحکم سرکار کتابیں گوگل ڈرائیو کے ایک فولڈر میں شامل کرکے لنک کتب خانے والے گروپ میں شئیر کردیا ہے۔)
+
میرے پاس ادبی جریدوں کے سیکڑوں شمارے ہیں اور مزید سیکڑوں میں نے کتب خانوں میں دیکھے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ بہت سے ادیب وہ کام نہیں کرسکے، جو بعض ادبی جریدوں کے مدیروں نے کیا ہے۔ یعنی عمدہ ادب کا انتخاب اور اس کی اشاعت۔ نقوش کے محمد طفیل اور آج کے اجمل کمال اس کی مثالیں ہیں۔
اپنے محدود مطالعے کی بنیاد پر میری رائے ہے کہ ادبی جریدوں کا بہترین دور 1960 کا عشرہ تھا جب نقوش، فنون، نگار اور دوسرے ادبی جریدوں نے اپنے بہترین نمبر شائع کیے۔ ماضی کے ادبی ایڈیٹر ایسے ہی ہوتے تھے۔ بہترین تخلیقات جمع کرکے چھاپتے تھے اور اچھے ادیبوں شاعروں سے اصرار کرکے لکھواتے بھی تھے۔ آج کل حالات یہ ہیں کہ ایڈیٹرز ہر دستیاب مال چھاپ دیتے ہیں اور اسے ایڈٹ بھی نہیں کرتے۔
ادبی جریدوں پر کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ اگر کوئی گنتی کرے تو کسی ایک وقت میں سب سے زیادہ ادبی جریدے شاید ان دنوں ہی چھپ رہے ہیں۔ ایک دو کو چھوڑ کر باقی میں قابل مطالعہ مواد اوسطا دس فیصد ہوتا ہے۔ ان کے مقابلے پر نقوش اور فنون کے پرانے شمارے دیکھیں۔ سو فیصد پڑھنے لائق ہوتے ہیں۔
میں نقوش کے درجنوں شمارے ایک ساتھ پیش کرچکا ہوں۔ فنون، ادب لطیف، نگار، ساقی اور ادبیات کے جو بھی شمارے میرے پاس ہیں، انھیں ایک ایک کرکے پیش کرتا جاوں گا۔ آج اثبات ممبئی کے 15 شمارے گوگل ڈرائیو کے ایک فولڈر میں ڈال دیے ہیں اور لنک کتب خانے والے فولڈر میں شئیر کردیا ہے۔ ان میں ادبی سرقے کرنے والے ایڈیٹر اشعر نجمی کا اپنا ہی سرقہ نمبر اور ان کی خاص دلچسپی سے مرتب ہونے والا ہم جنس پرستی نمبر بھی شامل ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ