حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوشل میڈیا پر لفظ مرشد کی جس طرح ’’واٹ‘‘ لگی ہے اس پر خفا ہونے کی ضرورت نہیں۔ آدمی وہی کہتا ہے جو جانتا ہے۔ جہاں ننگ دھڑنک بابے ولی اللہ قرار پاتے ہوں، مخبوط الحواس باوے اور چور سے قطب بننے کی متھ صدیوں سے پرچون کی دکانوں پر فروخت ہورہی ہو وہاں لفظ اپنی توقیر کھودیتے ہیں۔
ہمزاد فقیر راحموں اپنے مرشد سید عبداللہ شاہ المعروف بابا بلھے شاہؒ کو مرشد کریم کہہ کر یاد کرتا ہے۔ کبھی کبھی وہ ہمیں ا پنے مرشد کریم کی باتیں بہت محبت اور عقیدت سے سناتا ہے۔
سیدی بلھے شاہؒ ہیں بھی مرشدِ کریم ہی۔ فقیر راحموں کو جب سہولت ہو ہمیں ساتھ لئے ان کے حضور حاضری کے لئے چل دیتا ہے۔
ان کی خانقاہ میں حاضری کے وقت اس کی حالت دیکھنے والی ہوتی ہے۔ اپنے اپنے مرشد کے حضور سارے نیاز مند اسی طرح حاضر ہوتے ہیں۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ جو خوش نصیب مرشدوں کے مرشدؑ کے حضور نجف اشرف میں حاضری دیتے ہوں گے ان کی حالت کیسی ہوتی ہوگی۔
میں کسی دن مرشدوں کے مرشدؑ گرامی کے مرشد اعلیٰؐ کے حضور مدینہ میں حاضری کی سعادت چاہتا ہوں۔ کربلا اور نجف اشرف میں حاضر ہوکر اپنی آرزو پوری کرنا چاہتا ہوں، جا کیوں نہیں پاتا؟
مجھے اس سوال کا جواب معلوم ہے لکھ اس لئے نہیں سکتا کہ یہاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر گردن مار پروگرام چلانے والے بوزنے دندناتے پھرتے ہیں۔
وہ جو مرشدِ کریم سیدی بلھے شاہؒ نے کہا تھا نا
’’اک الف مینوں درکار‘‘ بس اسی الف کا بھید ہے سارا۔ اس بھید سے مرشدوں کا مرشدؑ واقف ہے۔
ایک دن فقیر راحموں نے کہا شاہ لازم نہیں کہ مرشدوں کے حضور حاضری دے کر ہی باتیں ہوں۔ عرضیاں پیش کی جائیں۔ مجھے اس کی بات پر غصہ بہت آیا۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی۔ جوبات یار کے کوچے میں کسی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھ کر کی جاسکتی ہے وہ لمبی مسافت کے فاصلے سے کیسے کہی جائے۔ پھر ایک دن اپنے حالات اور دیگر معاملات پر غور کرنے کے بعد سوچا فقیر راحموں کی مان کر دیکھ لیتے ہیں۔
لیجئے گزشتہ شب کے ایک حصہ میں ہم نے مرشدوں کے مرشدؑ کے حضور عرض کیا،
زمانے کی سختیوں نے ہونے کے یقین کو چھین لیا ہے،
ارشاد ہوا ’’خودپسندی سے بچ کر رہو اس سے زیادہ وحشت خیز اور کوئی چیز نہیں، علم وہ نہیں جو زبان پر ہو بلکہ تمہارے عمل سے ظاہر ہونا چاہیے‘‘۔
عرض کیا حقیقت کیا ہے؟
ارشاد ہوا ’’امیدوں کا ٹوٹنا‘‘۔ آدمی پر لازم ہے کہ امیدوں کے ٹوٹنے پر غوروفکر کرے۔ غوروفکر درست سمت رہنمائی کا حقیقی ذریعہ ہے”
عرض کیا ، لوگ سوال کو سرکشی کیوں سمجھتے ہیں؟
ارشاد ہوا، "کچھ نہ جانتے ہوئے سب معلوم ہے کا دعویٰ کرنے والے بے نقاب ہونے کے خوف سے جواب دینے کی بجائے سوال کرنے والے کی عزت نفس مجروح کرکے تسکین حاصل کرتے ہیں”
عرض کیا، سرکار جی چاہتا ہے کہ پَر لگ جائیں اڑ کر پہنچوں، حال دل بیان کروں اور یہ بھی عرض کروں، کیا حق آگہی کافی ہے؟
مجھے یقین ہے کہ ارشاد ہوگا ” حق آگاہی ہی تو زیرخنجر سجدہ کراتی ہے” ۔
جی چاہتا ہے کہ کسی دن یہ بھی عرض کروں، زندگی کیا ہے۔ پھر مجھے یاد آیا کہ کسی نے یہی سوال سچل سرمتؒ سے کیا تھا۔ سچلؒ نے خاک مٹھی میں لی اور ہوا کے دوش پر رکھتے ہوئے کہا ’’یہ ہے زندگی‘‘
ساعت بھر کے لئے رُکئے۔ میں جو لکھتا ہوں آپ کے کے لئے اسے مان لینا واجب نہیں آدمی کے لئے اطمینان قلب بڑی نعمت ہے۔ بس ایک کام کیجئے اپنے حصہ کی بات پورے یقین کے ساتھ کہتے رہیں۔ ہمیں اپنی اپنی بات ہی تو کرنا ہے۔
زندگی کا حسن یہ ہے کہ اپنے مطالعے، مشاہدات اور تجربوں سے چار اَور کے لوگوں کوآگاہ کیجئے۔
ایسا لگتا ہے مسجد کوفہ میں محراب کے سامنے دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا ہوں۔ منبر پر مرشدوں کے مرشدؑ جلوہ افروز ہیں۔ ارشاد ہورہا ہے
لوگو! ” ان بڑوں، بڑبولوں اور سرداروں کے اتباع سے گریز کرو جو اپنی جاہ و حشمت پر اکڑتے اور نسب کی بلندیوں پر غرور کرتے ہیں۔ بدزبانی اور خودپرستی سے فتنے جنم لیتے ہیں۔ نعمتوں میں دوسروں کو شریک کرو اور خوداحتسابی کرتے رہو۔ یاد رکھو تند مزاج شخص سوچ سمجھے بغیر بولتا رہتا ہے۔ عصبیت پر حلیمی اور ہونے پر قناعت کو مقدم سمجھو۔ بدلہ لے سکنے کی طاقت رکھتے ہوئے معاف کردینا سب سے بڑی بہادری ہے۔ غیبتوں میں وقت برباد کرنے کی بجائے دلیل سے اپنی بات آگے بڑھائو۔ سربلندی جاہ و حشم اور منصب میں نہیں علم، حلیمی اور تدبر کرتے رہنے میں ہے‘‘۔
یہ مرشدوں کے مرشدؑ کے مرشد اعلیٰؑ کے روضہ اطہر کے سامنے کا احاطہ ہے۔ مرشدِ اکرمؑ نے ایک بار مرشد اعلیٰؐ کے روضہ اطہر کی طرف دیکھا پھر سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف اور گویا ہوئے،
لوگو! ” خیانت اور ہٹ دھرمی ناشکری سے جنم لیتے ہیں۔ اپنے دِلوں کو صحرائی جانور نہ بننے دو یہ سدھائے بھی نہیں سدھرتے۔ کلام کرنے سے پہلے غوروفکر کی عادت ڈالو جتنا معلوم ہو اتنی ہی بات کرو۔ خودپسندی لوگوں کی نظروں سے گرادیتی ہے۔ عقل سب سے بڑی نعمت ہے‘‘۔
یہ بھی مرشدوں کے مرشد نے ہی کہا تھا۔
” اقتدار حاصل ہوجانے پر جانبداری سے دامن بچاکر رکھنا ہی امتحان ہے۔ مال و دولت، طاقت اور اقتدار مل جانے پر اعتدال کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ یقین جیسی افضل نعمت کوئی نہیں ” ۔ ایک بار ارشاد ہوا
’’میں نے اپنے رب کو پہچانا، ارادوں کے ٹوٹ جانے، نیتوں کے بدل جانے اور ہمتوں کے پست ہوجانے سے‘‘۔
غصہ کو ایک قسم کی دیوانگی قرار دیا۔ یہ بھی فرمایا "آدمی کو جمع کردہ مال نہیں علم اور عمل زندہ رکھتے ہیں۔ بھید بھی ایک طرح کی امانت ہیں عقل مند امانتوں کی حفاظت کرتے ہیں ” ۔ کافی دیر سے مرشدوں کے مرشدؑ کی آرام گاہ کے سامنے بیٹھا ہوں۔ ذہن و دل میں سوالات مچل رہے ہیں۔ کئی بار سوال کرنے کا سوچا پھر یاد آیا، انسان تو اپنی زبان کے نیچے پوشیدہ ہے۔ خاموشی کو غنیمت سمجھا۔ چپ چاپ لوگوں کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھے ایسے محسوس ہوا کہ ارشاد ہورہا ہے،
لوگو! "ادب سے بڑھ کر اور کوئی میراث نہیں، حالات کی سختی ہی آدمی کے لئے خود آگہی کی دعوت ہے۔ مبہم جوابوں کی بجائے مناسب یہ ہے کہ صاف کہہ دیا جائے کہ میں یہ نہیں جانتا۔ نہ جانتے ہوئے جاننے کا تاثر دینا جہالت کی بدترین قسم ہے۔ تکلیف اٹھالینا بہتر ہے ذلت اٹھانے سے۔ دوستوں کو کھودینا غریب الوطنی ہے‘‘۔
لوگو! ’’خواہشوں کی پیروی اور امیدوں کے پھیلائو سے خود کو بچاتے رہو، کینہ رکھنے والا کبھی بامراد نہیں ہوتا۔ حسد زندگی کو بے مزہ کردیتا ہے۔ اپنی غلطی کا اعتراف کرلینا اس سے بہتر ہے کہ غلطی پر نخوت بھرا اصرار کیا جائے۔ خواہش نفس اور غرور دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں کرتے‘‘۔
عالموں کی مجلس میں سیکھنے سمجھنے کے لئے بہت کچھ ہوتا ہے۔ گو ایسی مجلسیں اب کم کم برپا ہوتی ہیں۔ زیادہ تر لایعنی باتوں پر واہ واہ کی صدائوں کا شور ہی سنائی دیتا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ کچھ وقت ملے تو مرشدوں کے مرشدؑ کے حضور بیٹھ کر دل کی باتیں بیان کی جائیں فقط دل کی باتیں۔
لیکن فقیر راحموں کہتا ہے شاہ اس کے لئے اذن باریابی ضروری کب ہے۔ شاید میں اسے اپنی بات سمجھا نہیں پارہا۔
چلیں کسی دن اس کے ساتھ سیدی بلھے شاہؒ کے حضور حاضری دیتا ہوں ۔ یہاں کچھ زیادہ بے تکلفی سے بات کرنے کا حوصلہ رہتا ہے۔
مرشدوں کے مرشدؑ کے حضور، بات کرتے ہوئے بھی ڈر تو نہیں لگتا مگر اپنی تہی دستی کا احساس دوچند ہوجاتا ہے۔
ویسے سچ یہی ہے کہ روزی روٹی کی مجبوریاں اور کچھ ذمہ داریاں نہ ہوں تو آدمی سفر کرتا رہے۔ بزرگوں کے حضور حاضری دے ، عالموں کی قدم بوسی کرے سوال کرے اور آگہی کی شمع روشن رکھنے کا سامان کرتا رہے۔
مگر کیا ضروری ہے کہ ہر خواہش پوری ہو۔ اے کاش ایسا انتظام ہوجائے کہ روبرو ہوکر ادب سے اپنے سوالات مرشدوں کے مرشدؑ کے حضور رکھ سکوں۔
جب کبھی یہ خواہش دامن گیر ہوتی ہے تہی دستی کے احساس سے آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔
ایسے مواقع یاد آتا ہے ایک بار استاد مکرم سید عالی رضویؒ نے کہا تھا
’’صاحبزادے، محبوب کے حضور رسائی سے بڑی نعمت اور کوئی نہیں‘‘۔ یہ رسائی کب ہوگی میں اکثر یہ سوال خود سے پوچھتا ہوں
پھر مرشدوں کے مرشدؑ کے شہر کی طرف منہ کرکے سوال ہوا کے دوش پر رکھ دیتا ہوں۔ آج بھی یہی صورت ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر