ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب کے اختتام پر تمت بالخیر یا تمام شد نہیں بلکہ 27 اگست 2020، 12 وج کے 21 منٹ درج ہے جیسے مصنف نے کوئی پراجیکٹ پورا کیا ہو یا کوئی فریضہ تمام کیا ہو۔ اس کتاب، جس کا عنوان وساخ ہے جس کا عرف عام میں معانی ڈیرہ یا دیہاتی گھر یا چلیں محض گھر بنتا ہے، کے بارے میں مصنف نذیر لغاری خود کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ یہ ناول ہے یا کچھ اور مگر اس کتاب کی تقریبات پذیرائی اور تعارف ناول کے نام سے ہی کرایا گیا ہے۔
میں نے اپنے دوست کی یہ کاوش کوئی سات ماہ میں پڑھی ہے۔ ایسا نہیں کہ اسے پڑھنا دشوار تھا یا یہ کہ تحریر بہت دقیق ہے جسے سمجھنا مشکل ہو۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ فروری کے اواخر میں مجھے یہ کتاب ملی اور میں نے اسے پڑھنا شروع کر دیا۔ تیسرے روز سے ہی یا میں لغاری کو فون کر کے کسی حصے کی تعریف کر دیتا یا خود نذیر لغاری فون کر کے پوچھ لیتے کہ کہاں تک پڑھ ڈالی ہے۔ میں اس کے چیدہ چیدہ حصے اپنی سابقہ کو بھی فون کر کے سناتا رہا کیونکہ وہ سرائیکی کی اہل زبان ہیں اور تونسہ سے تعلق رکھتی ہیں جبکہ لغاری جام پور سے ہیں چنانچہ ان علاقوں کی سرائیکی ملتی جلتی ہے تاکہ میمونہ چانڈیہ بھی کتاب کی زبان کا لطف لے سکے۔
کتاب پڑھتے پڑھتے پہلے میں تھر چلا گیا، اس دورہ کے بارے میں لکھا پھر علی پور چلا گیا اور پھر مسافر رہا۔ وساخ راولپنڈی میں ایک دوست کے گھر پڑی رہی جو انہوں نے چند روز پہلے مجھے بھجوائی اور میں نے دل لگا کے پوری پڑھ ڈالی۔ لغاری صاحب نے بہت پہلے مکہ مدینہ کا سفر نامہ بھی سرائیکی زبان میں ہی لکھا تھا جو مجھے اس لیے بے حد پسند آیا تھا کہ وہ نثر تو تھی ہی مگر ایسے جیسے منظوم ہو چنانچہ میں نے نذیر لغاری کو صاحب طرز مصنف قرار دے ڈالا تھا ویسے ہی جیسے میں نصرت جاوید کو صاحب طرز کالم نگار سمجھتا ہوں۔
یہ کتاب جو انہوں نے وساخ کے عنوان سے لکھی ہے وہ آدھی ناول ہے اور آدھی دستاویز بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ وہ سرائیکی زبان کی معنی لکھے بن الفاظ کے معانی سمجھاتی ہوئی لغت ہے تو یکسر غلط نہ ہو گا، میں نے اس کتاب کو اپنی سرائیکی زبان کا اعادہ کرنے کی خاطر بھی پڑھا ماسوائے ایک دو الفاظ کے مجھے پتہ چلا کہ میری سرائیکی ماشا اللہ اب تک قائم ہے۔ وساخ کو ہم چار حصوں میں بانٹ سکتے ہیں جن میں ملک میں جاگیردارانہ روش حیات، سرائیکی تحریک کی تاریخ، ملک اور ملک سے منسلک ملکوں ماسوائے ہندوستان کی سیاست اور سب سے بڑھ کر مضبوط حصہ ایک قبیح آمر کے دور حکومت کے علاوہ اس کی سیرت بلکہ سرشت کے ذکر پر مشتمل ہے۔
یہ چاروں حصے بہت مستحکم انداز میں لکھے گئے ہیں البتہ جب لغاری صاحب تلمیحات اور استعاروں کی تکرار پہ آتے ہیں تو جہاں وہ شروع میں لطف دیتے ہیں وہاں بعد کے حصوں میں قاری یہ سمجھ کر کہ اب ایک ہی بات کو بیس سے چالیس طرح سے بیان کیا جائے گا، اسے چھوڑ کے کہانی سے رجوع کرنے کی جانب راغب ہو جاتا ہے جیسے رقاصہ کے حسن اور بھاؤ بتانے سے متعلق ذکر یا موسیقی سے متعلق احساسات کا تذکرہ۔ بلاشبہ اس فنکاری میں لغاری صاحب کے علم کا پرتو ہوتا ہے مگر قاری کے لیے اکتاہٹ کا موجب بھی بن سکتا ہے۔
اس کے برعکس یورپی ملکوں کے شہروں اور قابل ذکر مقامات کی تفصیل قاری کو باندھے رکھتی ہے۔ ویسے تو کوئی شک نہیں کہ لغاری صاحب کی یادداشت بہت اچھی ہے یا ممکن ہے انہوں نے اپنے ادوار کے دوران نوٹ لیے ہوں یا شاید بعد میں انسائیکلوپیڈیا سے مدد لی ہو مگر ان کا سرائیکی زبان میں ذکر اہل سرائک میں ان قارئین کے لیے بہت دلچسپی کا موجب ہو گا جنہیں یورپ دیکھنے کی خواہش ہو مگر پوری نہ ہوتی ہو۔ ناول نگاری میں مبالغہ آرائی بھی ہوتی ہے اور مفروضات بھی ہوتے ہیں مگر ایسا مفروضہ یا مبالغہ نہیں ہونا چاہیے جو لوگوں کو ہضم نہ ہو جیسے سی ایم ایل اے کا شراب نوش ہونا جبکہ سی ایم ایل اے ضیا الحق ہی ہیں۔
یہ بھی سمجھ نہیں آیا کہ جب سرائیکی تحریک کے سبھی شرکا کے نام اصلی ہیں تو سی ایم ایل اے کا نام لکھنے میں کیا حرج تھا یا ان کے ساتھی امریکی زعما کے نام کیوں فرضی لکھے گئے؟ ناول یا دستاویز، وساخ کو آپ جو بھی کہہ لیں، میں الفاظ اور کچھ مقامات پر واقعات کی تکرار ہے جن سے گریز کر کے کتاب کی ضخامت کم سے کم ایک سو صفحات تک کم کی جا سکتی ہے جس سے قاری کی دلچسپی کم ہونے کی بجائے بڑھ جائے گی۔ اگر اس کا آئندہ کوئی ایڈیشن چھپا تو نذیر لغاری خود ہی اسے بہت اچھے طریقے سے ایڈیٹ کر سکتے ہیں۔
نذیر صاحب چونکہ بنیادی طور پر صحافی ہیں اور وہ بھی پائے کے چنانچہ وساخ لکھنے میں ان کے اس فن نے ان کی بہت مدد کی ہے اور وہ فن اکثر مقامات پر واضح دکھائی بھی دیتا ہے۔ جہاں تک اس دستاویز میں ناول والے حصے کا تعلق ہے وہ ڈائجسٹوں میں شائع شدہ سلسلوں کا سا انداز ہے جس میں تجسس برقرار رکھا جاتا ہے تاکہ پڑھنے والے اگلے پرچے کا انتظار کریں۔ ڈر ہے کہ اس کتاب میں بھی لوگ اس کے علمی، صحافتی اور ادبی پہلو چھوڑ کر بھگا بھگا کے فلم دیکھنے کی طرح کہیں شرمین اور دوسری بیبیوں کی کہانی کو ہی نہ پڑھنے لگیں۔ بہر طور یہ بہت اچھی کاوش ہے تبھی میں اس کو ناول کم اور دستاویز کے علاوہ سرائیکی الفاظ کی لغت ماننے کو بھی تیار ہوں۔ باقی لوگ خود پڑھ کر فیصلہ کر لیں گے کہ وہ اسے ناول مانتے ہیں یا دستاویز یا کچھ اور تاہم سرائیکی زبان کے فروغ میں نذیر لغاری کی ادبی حصہ داری سے اب انکار کیا جانا ممکن نہیں ہو گا۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ