اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دختر مشرق محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے 15 سال گزرنے کے بعد فضا پہلے دن کی طرح آج بھی سوگوار ہے ۔ محترمہ کی شہادت نے صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کو غمزدہ کیا ، وہ پاکستانی سیاست کی آبرو اور پاکستان کے غریب عوام کی آس امید اور تمنا تھیں ، ان کا قتل کروڑوں جمہوریت پسند غریب انسانوں کی آرزئوں کا قتل ہے ۔27 دسمبر لیاقت باغ راولپنڈی میں اپنی شہادت سے کچھ دیر پہلے محترمہ بینظیر نے کہا کہ پنڈی نے مجھے بہت دکھ دیئے ہیں اور کچھ خوشیاں بھی ، انہوں نے کہا کہ پی پی کی تاریخ جدوجہد سے بھری پڑی ہے ، میرے والد جابر قوتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہوئے اور تختہ دار پرر چڑھا دیئے گئے ۔ میرے دو بھائی قتل ہوئے۔ میری ماں کا لاٹھیوں سے سر پھاڑ دیا گیا۔ مجھے قدم قدم پر اذیتیں دی گئیں اور ٹارچر کیا گیا ۔ میں جیلوں کے اندر رہ کر بھی جمہوریت کیلئے لڑتی رہی۔ آمروں نے ہمیشہ جمہوریت کا راستہ روکا۔ میرے کراچی کے جلسے میں دھماکے کرائے گئے ، ہم نے اپنے سینکڑوں کارکنوں کے لاشے اٹھائے۔سیاسی یتیم کہتے تھے کہ بے نظیر بھٹو اب کبھی واپس نہیں آئیں گی لیکن میں تمام خطرات کو ایک طرف رکھ کے واپس آئی ہوں کہ میں موت سے نہیں ڈرتی اور اپنے وطن کے لوگوں کے ساتھ جینا مرنا چاہتی ہوں ۔محترمہ کو پاکستان کے دوسرے خطوں کی طرح سرائیکی وسیب سے بہت محبت تھی ۔ آج کی موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھیں تو قیادت کا جس قدر فقدان ہے ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو بہت یاد آ رہے ہیں۔ میں یہ بھی ذکر کروں گا کہ عمران خان کے چاہنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے مگر وہ بھٹو نہیں بن سکتے۔ اب ہم اگر ماضی کی بات کریں تو یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پی پی کی موجودہ قیادت نے وسیب کے لوگوں کو صوبہ اور سرائیکی بنک بنانے کے خوش کن خواب دکھائے اور دن رات صوبہ صوبہ کا ماحول اس طرح بنایا کہ لوگوںکی خوش فہمی آسمان پر پہنچ گئی ، مگر اٹھارہویں ترمیم کے موقع پر وسیب کی بات نہ سنی گئی اورصوبے کا راستہ روکنے کیلئے ضیا الحق کی ترمیم کو برقرار رکھا گیا، صوبہ تو کیا سرائیکی بنک بھی نہ بنایا اور سرائیکی قوم کو شناخت دینے کے بجائے صوبے کا نام ’’ جنوبی پنجاب‘‘ تجویز کیا اور بہت سے علاقے کاٹ دئیے تو اس پر وسیب کے کروڑوں انسانوں کے خواب چکنا چور ہوئے اور حوصلہ اور پرسہ دینے کی بجائے قوم کو مایوسی کے اندھے کنویں میں دھکا دیدیاگیا ۔ یہ اتنا بڑا صدمہ ہے جس سے قوم آج تک واپس نہیں آ سکی، آج اگر بی بی زندہ ہوتی تو پی پی کی موجودہ قیادت سے پوچھتی کہ کیا ایسے سیاست اور قوم کی رہنمائی کی جاتی ہے ؟۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہادت سے پہلے وسیب کے عوامی دورے پر تھیں، رحیم یار خان ، بہاولپور، لودھراں اور مظفر گڑھ میں انہوں نے عوامی اجتماعات سے خطاب کئے اور ان اجتماعات میں انہوں نے وسیب کی تاریخ ، ثقافت ، جغرافیہ ، آثار ، وسیب کی محرومی اور پسماندگی کا بھی تفصیل سے ذکر کیا۔ بہاولپور کے جلسہ عام میں محترمہ نے کہا کہ مجھے اورمیرے بزرگوں کو بہاولپور سے پیار ہے ، یہ حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی اور جلال الدین سرخ بخاری کی دھرتی ہے ، میرے دادا میر مرتضیٰ بھٹو کو انگریز دور میں یہاں پناہ ملی ،ہم بر سر اقتدار آ کر اس شہر میں زراعت کی ترقی ، بے روزگاری کے خاتمے اور اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کرنے کے لئے اقدامات کریں گے ۔ افسوس کہ محترمہ کی شہادت کے بعد ان کے فرمان کے بر عکس پیپلز پارٹی کی حکومت نے نہ تو بہاولپور میں کوئی تعلیمی ادارہ قائم کیانہ کوئی صنعت قائم اور نہ ہی زراعت کو ترقی ملی ، چولستان میں زمینوں کی بندر بانٹ بندہونے کی بجائے بڑھ گئی ۔ وسیب سمیت تمام پسماندہ علاقوں کو پسماندگی ختم کرنے کیلئے ترقی کے ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی ضرورت تھی جو نہیں کی گئی ۔ یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ بھٹو خاندان کو وسیب اور وسیب کو بھٹو خاندان سے محبت ہے، محترمہ کی شہادت پر سب سے زیادہ شاعری سرائیکی میں کی گئی۔ محترمہ نے ایک نظم طویل نظم لکھی۔ اس طویل نظم میں سے چار لائنوں کا مفہوم یہ ہے کہ اس جیون کا کوئی فائدہ نہیں جو ملتان ، کیچ مکران ، ملک مہران اور شہر مردان سے دور ہو ۔ یہ محض اتفاق ہے یا قدرتی طور پر ایساہوا ہے کہ نظم میں لاہور ،پنڈی ، پنجاب یا پوٹھوہار کا ذکر نہیں ہے۔ شاید اس وجہ سے کہ پنجاب سے محترمہ اور ان کے والد کی لاشیں گئیں۔ میں ایک اور بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پیپلز پارٹی کے جلسوں میں چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر ، بے نظیر ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد یہ زنجیر ٹوٹ گئی ۔ جس طرح سندھ اور وسیب کی تاریخ بہت قدیم ہے اسی طرح سندھ اور وسیب کی تہذیبی ، ثقافتی جغرافیائی سانجھ بھی بہت پرانی ہے ۔ سندھ اور وسیب کے لوگ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ رہے ، ان کی زبان ، ثقافت ایک رہی اور یہ بھی ایک حقیقت ہے سندھ اور وسیب میں بسنے والی قومیں اور ذاتیں نا صرف ایک ہیں بلکہ ان کے درمیان زمانہ قدیم سے رشتہ داریاں بھی ہیں ۔ دونوں خطوں کے لوگ ایک ہی طرح کے تہذیبی ، ثقافتی اور جغرافیائی مسائل کا شکار ہیں ، دونوں خطے زمانہ قدیم سے حملہ آوری کی زد میں رہے اب بھی دونوں خطوں کے لوگ غیر محفوظ حملہ آوری کی زد میں ہیں ۔اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ دونوں کے درمیان دکھ کی سانجھ قدرتی اور فطرتی طور پر موجود ہے ۔اسی سانجھ نے دونوں کو اپنائیت کے دھاگے میں میں پرو رکھا ہے، اسی بات کا سب سے زیادہ احساس دیدہ ور سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کو تھا۔ انہوں نے جس طرح اپنی ماں دھرتی سندھ سے محبت کی اُسی طرح وسیب سے بھی محبت کی، لیکن آج مہاجر صوبے کے خوف سے سندھ کی قیادت نے وسیب سے آنکھیں پھیر لیں ہیں لیکن میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سندھ اور وسیب کو جو بھی خطرات ہوں ان کا مقابلہ باہمی اتفاق سے کیا جا سکتا ہے۔

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: