وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان پر عظیم عسکری رہنما ایوب خان کے نزول کی تفصیلات خاصی عجیب و غریب ہیں۔ جنوری 1951 میں پاکستانی فوج کا کمانڈر انچیف مقرر ہونے سے قبل ایوب خان مزید پیشہ ورانہ ترقی کے لیے نا اہل سمجھے جاتے تھے کیونکہ انہیں برما کے محاذ پر 1945 میں ’میدان جنگ میں بزدلی‘ دکھانے پر کمان سے ہٹا کر معطل کیا جا چکا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد عبدالرب نشتر کی رپورٹ پر قائداعظم محمد علی جناح نے ایوب خان کے کورٹ مارشل کا حکم دیا تھا اور فائل پر اپنے قلم سے سخت تادیب رقم کی تھی۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ ایوب خان کے انکوائری افسر موسیٰ خان تھے جنہیں اکتوبر 1959 میں ایوب خان نے فوج کا سربراہ مقرر کیا۔ 12 دسمبر 1949 کو پاکستانی فوج کے نامزد سربراہ میجر جنرل افتخار خان کی جنگ شاہی کے قریب ہوائی حادثے میں پراسرار موت کی تفصیلات ہنوز پردہ راز میں ہیں۔ پاکستان بنا تو سنیارٹی کے اعتبار سے ایوب خان دسویں نمبر پر تھے۔ 15 جنوری 1951 کو فرینک میسروی نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر ایوب خان کو جنرل مقرر کر دیا اور اگلے روز ایوب خان کمانڈر انچیف بن گئے۔ 8 مارچ 1951 کو راولپنڈی سازش کیس کا انکشاف دراصل ایوب اور سکندر مرزا گٹھ جوڑ کی ابتدا تھی۔ فروری 1953 میں ایوب خان نے امریکی کونسل جنرل سے ملاقات میں کہا کہ پاکستانی فوج ملک کو’نا اہل‘ سیاست دانوں کے سپرد نہیں کرے گی۔ 24 اکتوبر 1954 کو ایوب خان ملک کے وزیر دفاع اور سکندر مرزا وزیر داخلہ بن گئے۔ اکتوبر 1954 میں لندن قیام کے دوران ایوب خان نے ون یونٹ کا منصوبہ تیار کیا جو وفاق پاکستان کی بنیادوں پر حملہ تھا۔ سازشی واقعات کا یہ طویل سلسلہ 7 اکتوبر 1958 کو ایوب خان کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بننے پر منتج ہوا۔ 24 اکتوبر 1958 کو ایوب خان وزیراعظم بھی بن گئے اور 27 اکتوبر کو سکندر مرزا سے زبردستی استعفیٰ لے کر صدر کا کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ استاذی افراسیاب خٹک نے 2011 ءکے سیاسی حالات کو ’رینگتے ہوئے مارشل لا‘ کا نام دیا تھا۔ استاد محترم کی عطا کردہ اصطلاح اب پایہ ثبوت کو پہنچ چکی لیکن یہ اصطلاح ایوب خانی مارشل لا پر کہیں زیادہ منطبق ہوتی ہے جس کے تانے بانے آٹھ برس تک بنے گئے تھے۔ اس تمہید سے ایوب خانی آمریت کا پس منظر بیان کرنا مقصد نہیں بلکہ آمرانہ نفسیات کے ایک دلچسپ پہلو کی وضاحت ہے۔
1951 سے ایوان صدر کے مقتدر ترین اہلکار قدرت اللہ شہاب محلاتی سازشوں کے بے تاج بادشاہ تھے۔ حفیظ جالندھری نے لکھا تھا۔ ’جب کہیں انقلاب ہوتا ہے / قدرت اللہ شہاب ہوتا ہے‘۔ اکتوبر 1958 میں ادیب اور صحافی کہلانے والے میجر ابن الحسن فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ تھے۔ قدرت اللہ شہاب اور ابن الحسن میں مسکوٹ ہوئی کہ وردی پوش انقلاب کے حق میں عوامی ذہن سازی کیسے کی جائے ۔ چنانچہ پاکستان رائٹرز گلڈ کی بنیاد رکھی گئی۔ جس کا پہلا اجلاس جنوری 1959 میں کراچی میں منعقد ہوا۔ مولوی عبدالحق، شاہد احمد دہلوی، مرزا محمد سعید جیسے حاضر باش ادیب گانٹھے گئے۔ ممتاز مفتی، اشفاق احمد، ممتاز شیریں، ابن انشا، محمد طفیل، قتیل شفائی اور قرة العین حیدر بھی زیر دام لائے گئے۔ ادیبوں کے لیے انعامات نیز سیاحتی دوروں کا اعلان ہوا۔ ذہن سازی کے اس ریاستی منصوبے کو مولانا صلاح الدین احمد کے ایک جملے نے خس و خاشاک کر دیا۔ فرمایا۔ ’کبھی پیغمبروں نے بھی گلڈ بنائے ہیں‘۔ میجر ابن الحسن دعوت نامہ لے کر محمد حسن عسکری کے پاس پہنچے تو اس مرد درویش نے کہا۔ ’پولیس بھیج کر بلوا لیجیے گا‘۔ لاہور سے کراچی جانے والوں میں انتظار حسین اور ناصر کاظمی بھی شامل تھے۔ دوران سفر ناصر کاظمی نے انتظار حسین سے کہا۔ ’انتظار، کیا ہم شام کے دربار میں جا رہے ہیں‘۔ فیض صاحب ملک سے باہر تھے لیکن احباب کے منع کرنے کے باوجود لوٹ آئے اور سیدھے جیل پہنچ گئے جہاں غزل لکھی، ’جمے گی کیسے بساط یاراں / کہ شیشہ و جام بجھ گئے ہیں‘۔ ن۔ م راشد نے بھی آوازہ لگایا۔’اے تمام لوگو، کہ میں جنہیں کبھی جانتا تھا، کہاں ہو تم۔ جو نہیں ہیں قید غنیم میں، وہ پکار دیں‘۔ انجم رومانی کا اپنا رنگ تھا، ’اس دور کی بساط پہ ہر شہ کو مات ہے / گھبرائیے نہ دیکھ کے پیدل گھرا ہوا‘۔
ادب کی جڑیں مزاحمت کی مٹی میں پیوست ہوتی ہیں۔ گل خان نصیر، شیخ ایاز اور حبیب جالب جیسے ادیبوں کی دھرتی پر رائٹرز گلڈ جیسی خود کاشتہ جڑی بوٹی کیا وقعت رکھتی تھی۔ قدرت اللہ شہاب کے بعد الطاف گوہر ٹولے نے بھی ایفروایشین رائٹرز کا ڈول ڈالا مگر وہ دس سالہ عشرہ ترقی کے ملبے تلے دب گئے۔
جنرل ضیا کے رائے عامہ سے متعلقہ نورتن لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمن اور کرنل صدیق سالک تھے۔ ایک بار پھر سے اہل قلم کانفرنس کی بنیاد رکھی گئی جس میں ضیا الحق ادیبوں کو صرف ’نمک حلالی‘ کا مشورہ ہی نہیں دیتے تھے، دانشوروں کو سیم اور تھور بھی قرار دیا کرتے تھے۔ پروفیسر وارث میر نے 9 جولائی 1987 کو اپنی جان کا تاوان دے کر سیم اور تھور کے طعنے کا جواب دیا تھا۔ اہل پاکستان کے جمہوری شعور کا کرشمہ ہے کہ ریاستی جبروت کی مسلسل سنگ زنی کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔ ادیب کا منصب اقتدار کا دفاع نہیں، انصاف کے لیے آواز اٹھانا ہے۔ کبھی غور کیجئے کہ سولزے نتسن کو ملک بدر کیوں کیا جاتا ہے۔ فرانز فینون جلاوطن کیوں ہوتا ہے۔ میلان کنڈیرا فرانس میں پناہ کیوں لیتا ہے۔ چین کے ادیب منحرف ہو کر یورپ جاتے ہیں، ایڈورڈ سعیداور ناﺅم چومسکی کو امریکا چھوڑنے کی کیوں ضرورت پیش نہیں آتی۔ اس لئے کہ ادیب کی انحرافی آواز سے جمہوریت نامیاتی قوت پاتی ہے۔ ادھر آمریت ادیب کی سچائی سے خوفزدہ ہوتی ہے۔ گزشتہ برسوں میں رائے سازی کے لیے ادیب اور صحافی کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اب یہ کام کھلاڑیوں اور فلمی شخصیات سے لیا جاتا ہے۔ ادب ایک فعال تمدنی ادارے کے طور پر اس ملک میں بے معنی ہو گیا ہے اور اس کا نتیجہ جسے دیکھنا ہو، وہ سوشل میڈیا پر استعمال ہونے والی زبان دیکھ لے۔
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر