مئی 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

التوائے معنی یا فنائے معنی؟||یاسر جواد

بہرحال تحریر کا مطلب اُس کے پڑھنے والے ہی اپنے حساب سے اخذ کرتے ہیں۔ شاید مصنف نے وہ کہنے کا تصور بھی نہ کیا ہو جو کوئی قاری یا تنقید نگار اُس میں ٹھونس دیتا ہے۔ اگر ہم حسیاتی سے نکل کر معقول سطح پر آئیں تو تبھی کوئی مفہوم متعین کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ دنیا حسیاتی لوگوں کی بنائی اور interpret کی ہوئی ہے۔

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے محترم آمر، پاک فوج کے پاک سابق سربراہ سید پرویز مشرف نے ایک مرتبہ فرمائش کر کے فیض کی ’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘ سنی تھی۔ پھر چرخِ فلک نے یہ بھی دن دیکھا کہ شہباز شریف حبیب جالب کے اشعار پڑھ رہا تھا۔ اب پی ٹی آئی والوں نے فیض احمد فیض کی ماں بہن ایک کرتے ہوئے اُسے ارشد شریف سے جوڑ دیا اور عمران کی ’’جدوجہد‘‘ کے بھی معنی نکالے۔
جھنگ میں بڑے فخر کے ساتھ ہیر رانجھا فلم کی نمائش کی گئی تو سنتے ہیں کہ لوگوں نے سکرین پر اینٹیں ماری تھیں اور سینما گھر بھی جلا دیا۔ اُنھیں پلی ہوئی فردوس کا ہر لحاظ سے مٹکتا اور پکارتا ہوا جسم اپنی مائی ہیر سے مطابقت کا حامل نہ لگا۔ شاید وہ فردوس کو بھی کسی نہ کسی چکر میں قبول کر لیتے، لیکن یہ رانجھا خواہ مخواہ مائی کے ساتھ بے تکلف ہو رہا تھا۔
کافی جگہوں پر لکھا ہے کہ دریدا نے différence کو قصداً différance لکھا۔ دونوں کو بولا ایک ہی طرح سے جاتا ہے۔ différer لفظ فرانسیسی میں التوا اور اختلاف دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن différence اور différance دونوں بولنے یعنی تلفظ میں ایک جیسے ہیں۔ سپیلنگ میں تبدیلی اِس امر کو اجاگر کرتی ہے کہ لکھے ہوئے حرف کو سنے ہوئے حرف پر ایک قسم کی برتری حاصل ہے۔ سننا ایک والہانہ پن پیدا کرتا ہے اور پڑھنا ایک متانت۔ یہ حسیاتی اور معقول کا فرق بھی ہے۔ لہٰذا فرق کو آپ محض سماعت تک محدود رکھیں تو وہ التوا کا معنی ہی /بھی دے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ تفہیم کی زبان حسیاتی استعاروں میں مقید ہے۔
تاریخ میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ یوتھیے چونکہ حسیاتی سطح پر زندہ ہیں، نہ کہ عقلی سطح پر، اس لیے وہ فرق اور التوائے معنی میں تمیز نہیں کر سکتے۔ بلکہ اِن کی تمیز کو ختم کرنے والے کارندے ہیں (خواہ نادانستہ سہی)۔ ایک پنجابی شاعر نے امرتا پریتم کی نقالی میں، کچھ بیرون ملک یا ’انٹرنیشنل‘ مشاعرے جیتنے اور حساس سکھوں کو راغب کرنے کے لیے ایک نظم جذبات میں ڈبو کر لکھی۔ امرتا نے تو چلو کوئی پچیس تیس سال کی عمر میں پنجاب کی تقسیم دیکھی تھی اور اُس کا دکھ تھا، اُس نے وارث شاہ کو مخاطب کیا۔ اج آکھاں وارث شاہ نوں…..۔ یہ اوجبک کس چکر میں (شاہ حسین کو مخاطب کر کے) اُسی قسم کے کے غم کی لسّی کرتا جا رہا ہے؟ اور اُوپر سے یوتھیے اپنے انقلاب کی ناکامی کے بعد اپنی حالت کو بیان کرنے کے لیے یہ بھیجیں تو آپ کیسی ذہنی اذیت سے گزریں گے؟ دریدا نے التوائے معنی کی بات کی تھی، فنائے معنی کی نہیں۔
بہرحال تحریر کا مطلب اُس کے پڑھنے والے ہی اپنے حساب سے اخذ کرتے ہیں۔ شاید مصنف نے وہ کہنے کا تصور بھی نہ کیا ہو جو کوئی قاری یا تنقید نگار اُس میں ٹھونس دیتا ہے۔ اگر ہم حسیاتی سے نکل کر معقول سطح پر آئیں تو تبھی کوئی مفہوم متعین کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ دنیا حسیاتی لوگوں کی بنائی اور interpret کی ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: