نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

16دسمبر: دو سرکاری کہانیاں۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

16دسمبر کو یا 16دسمبر کے لئے کیا لکھا جائے۔ کیا لکھنے والے اتنے آزاد ہیں کہ پوری بات لکھ سکیں۔ 16دسمبر 1971ء کو بٹوارے کا بٹوارہ کیوں ہوا یا یہ کہ ملک کے اس حصے کے لوگوں نے جو اکثریتی آبادی تھے، اقلیت کے ساتھ رہنے جینے سے کیوں انکار کرکے راستہ الگ کرلیا۔

16دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک سکول میں حقیقت میں ہوا کیا۔ کیا ہمیں صرف ’’ہولو کاسٹ‘‘ کی طرح کی کہانی آگے بڑھانی ہے اور جو اس سے مختلف بات کرے اس کی حب الوطنی و مسلمانی پر سوال اٹھانے ہیں۔

ایک طالب علم کے طور پر میں یہی "سمجھ پایا ہوں” کہ ہمیں صرف ریاستی بیانیہ کو آگے بڑھانا چاہیے۔ آخر انسانی حقوق ، آزادیوں اور جمہوریت کی علمبردار ریاست امریکہ میں بھی تو 9/11 کے بعد ریاستی بیانیہ ہی آگے بڑھایا گیا اس ریاستی بیانہ کو ’’سچ‘‘ منوانے کے لئے امریکہ نے پروپیگنڈے اور دراندازی پر کتنے کھرب ڈالر خرچ کئے۔

ہم بھی تو 16دسمبر کے حوالے سے یہی کچھ کررہے ہیں۔ ریاستی بیانیہ کی معروف شاہراہ پر چہل قدمی کیجئے۔ شاہراہ کے دونوں اور موجود ’’کھائیوں‘‘ کی دلکشی آپ کو لبھائے گی بس دیکھیں مت آگے بڑھتے جائیں۔

سوال کرنے کی بیماری اور غوروفکر کی دیمک سے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے بہتر ہوگا کہ کسی ’’اچھے‘‘ شاعر سے ایک نغمہ لگوائیں۔ ڈھولک کی تھاپ پر گویئے سے گوائیں اور پھر سر دھنیں۔

آپ اور ہم جب بھی 16دسمبر 1971ء اور 16دسمبر 2014ء پر بات کرنا چاہیں تو سوچ سمجھ کر کریں۔ کم از کم میں یہی کرتا ہوں۔ بس وہ صرف سابق مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تناسب سے زائد ہندو اساتذہ اور ان اساتذہ کی جانب سے بنگالیوں کی نئی نسل میں پاکستان و اسلام بیزاری ’’ٹھوکنے‘‘ والی رام لیلا نہیں چباتا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی کتابوں میں بنگالی کو قومی زبان قرار نہ دینے کی وجوہات اور اس حوالے سے جناب محمدعلی جناح کے فرمودات موجود ہیں۔ کبھی کبھی جی بہلانے کے لئے یہودوہنود کی اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے خلاف سازش والی ٹھمری سن لیتا ہوں تاکہ ایمان کا حقہ تازہ رہے۔

میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی اس بات سے سو نہیں بلکہ ایک ارب فیصد تک متفق ہوں کہ سقوط مشرقی پاکستان سیاسی شکست تھی۔

بالکل سیاسی شکست تھی کیونکہ اس وقت "پاکستان آرمی لیگ” کے سربراہ کمانڈر انچیف جنرل آغا محمد یحییٰ خان صدر مملکت تھے جس ایل ایف کے تحت الیکشن ہوئے وہ ان کا عطا کردہ تھا کیونکہ انہوں نے مارشل لاء لگاتے ہی فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان کا صدارتی آئین اٹھاکر مارگلہ کی کھائیوں میں پھینک دیا تھا۔

امور مملکت چلانا سیاسی عمل ہی تو ہے۔ ان دنوں جرنیل فوج کی طاقت سے امور مملکت چلارہے تھے اس لئے سقوط مشرقی پاکستان خالص سیاسی شکست تھی لیکن کیا کراڑی کا نام، غلام فاطمہ رکھ لینے سے ’’سب کچھ‘‘ تبدیل ہوجاتا ہے؟

جی ہوسکتا ہے اور صرف پاکستان میں یقین نہ ہو تو پچھتر برسوں کی تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے۔

ساعت بھر کے لئے رکئے، آج کل سوشل میڈیا پر ریاستیں کیوں ٹوٹتی ہیں کے عنوان سے پوسٹروں کی بہاریں ہیں۔ ان پوسٹروں کو شیئر کرنے والوں کا سماجی و سیاسی پس منظر کیا دیکھنا۔ ایک بات طے ہے کہ غیرفطری بنیادوں پر معرض وجود میں آنے والی ریاستیں ٹوٹتی ہیں اور تنکوں کی طرح بکھرتی بھی ہیں۔ قریب ترین تاریخ میں سوویت یونین اور یوگوسلواکیہ وغیرہ مثالیں موجود ہیں۔

16دسمبر 1971ء بھی اسی طرح کی ایک مثال ہے لیکن ابھی ہم اتنے بہادر اور حقیقت پسند نہیں ہوئے کہ اپنے گریبان میں جھانک سکیں ہمیں دوسروں کے گریبانوں اور گھروں میں تانک جھانک کی موروثی بیماری ہے۔

پسپائی اور پہلا بٹوارہ کبھی حرف آخر نہیں ہوئے۔ ایک کے بعد دوسری پسپائی اور ایک کے بعد دوسرا بٹوارہ۔

چلیں مشرقی پاکستان ایک ہزار میل دور تھا دشمن طاقتور اور ملت کفار متحد ہوکر عظیم اسلامی ریاست کو دولخت کرنے کے درپے تھے ۔

یہ گلگت بلتستان سے اوپر سیاچن، کارگل، لداخ وغیرہ کیسے ہاتھ سے نکلے؟

ایک بار پھر چیتاونی دے رہا ہوں غوروفکر کی دیمک اور سوال کرنے کی بیماری سے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے اچھے حاذق حکیم اور دانشور سے رجوع کیجئے۔

حکیم آپ خود تلاش کریں دانشوروں کے اسمائے گرامی بتائے دیتا ہوں۔ اوریا مقبول جان، جنرل امجد شعیب، مولوی امیر حمزہ، اپنے ڈاکٹر صفدر محمود، اب نہیں ہیں ورنہ ان کا نام بھی لکھتا وہ بھی تاریخ کے بڑے حکیموں اور دانشوروں میں شمار ہوئے۔

اللہ خوش رکھے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو جاتے جاتے اعلان کرگئے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔

اس ’’اعلان راولپنڈی‘‘ کے بعد ناانصافی ہی ہوگا حکماء کی تلاش میں راولپنڈی یا چھائونیوں کی طرف بٹر بٹر دیکھنا۔

اس لئے اب یہی تسلیم کرلیجئے کہ سقوط مشرقی پاکستان ایک سیاسی شکست تھی۔ فوجی شکست نہیں کیونکہ جب ہم اور آپ فوجی شکست کا ٹھٹھہ اڑاتے ہیں تو اس سے وطن کے محافظوں کا مورال کم ہوتا ہے اور خود ہماری آپ کی حب الوطنی بھی مشکوک ہوجاتی ہے۔

اب آیئے 16دسمبر 2014ء پر بات کرلیتے ہیں۔ اس المیہ بلکہ المیوں کے المیے کی تحقیقات کے لئے جس دن قانونی اور اخلاقی قوت سے مالامال آزاد تحقیقاتی کمیشن بن گیا تو سپانسروں، فیض یافتگان، سہولت کاروں اور بہت سارے دوسرے کرداروں میں سے جو زندہ ہوئے وہ دھرے جائیں گے اور مرجانے والوں کو بھی علامتی سزائیں دینا پڑیں گی۔

میں ذاتی طور پر دہشت گردی کا رزق بننے والے بچوں کے والدین کی اس رائے سے متفق ہوں کہ ہم نے بچے پڑھنے بھیجے تھے میدان جنگ میں نہیں۔

گزشتہ 8برسوں کے دوران اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا۔ نغمے بھی لکھوائے گوائے اور بھجوائے گئے۔ احسان اللہ احسان کا سرنڈر کرنا، پھر ٹی وی سکرینوں پر مسکراتے ہوئے شاعرودانشور کے طور پر انٹرویو دینا اور ایک دن آرام گاہ کے پچھلے دروازے سے بھاگ جانا سبھی کچھ کچھ اس کہانی کا حصہ ہے۔

فقیر راحموں نے صبح ہی خبر کردار کردیا تھا کہ ’’شاہ اگر تم نے 16دسمبر 2014ء پر کچھ لکھتا ہے تو اپنی مرضی اور زور بازو پر لکھنا ” ۔

نصف صدی سے کچھ اوپر کے ساتھ میں پہلی بار اس نے ’’خبردار‘‘ کیا ہے اللہ خیر کرے۔ میں اس کا کیا کروں کہ آرمی پبلک سکول کے سانحہ پر ریاستی بیانیہ روز اول سے ہضم نہیں ہورہا۔

مقتول بچوں کے والدین کا موقف حقیقت کے قریب لگتا ہے۔ یہ درست ہے کہ یہ المیہ بدترین درندگی کا لہو رنگ مظاہرہ تھا۔

انہی دہشت گردوں سے ہم پچھلے ایک برس کے دوران مذاکرات بھی کرتے رہے۔ بعض دِلوں میں مذاکرات کی محبت کا سمندر اب بھی ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔

مذاکرات کے ناقدین سے کہا جاتا ہے مذاکرات نہ کریں تو کیا کریں؟ مجھ تک یہ سوال عزیزم عقیل یوسفزئی کے توسط سے پہنچا میرا جی چاہا عقیل سے کہوں ان سے کہنا۔ شاہ کہتا ہے اسلحہ کے انبار ایٹم بم و میزائل وغیرہ بیچ کر سموسوں پکوڑوں کی دکانیں اور فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کھول لیجئے۔

پھر سوچا یہ جواب ’’انہیں‘‘ ناگوار گزرے گا۔

فقیر راحموں بھی دڑوٹے (خاموشی سے) کتاب پڑھ رہا ہے۔ جواب کے لئے اس سے مشورہ کیا جاسکتا ہے لیکن جب سے اس کے جی میں یہاں سے نکل جانے کی خواہش سمائی ہے وہ مشورے نہیں دیتا۔ شراکت داری سے بھی انکاری ہے حالانکہ یہی فقیر راحموں پہلے کہا کرتا تھا کہ

’’یہ سانحہ داخلی سیاست میں مرضی کے نتائج حاصل نہ کرپانے والوں کی منہ زوری کا نتیجہ تھا منہ زور قوتیں سازشوں کے طشت ازبام ہونے سے خوفزدہ تھیں انہوں نے اپنے لے پالکوں کے ذریعے محفوظ راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی اور کوشش الٹی پڑگئی‘‘۔

میں نے پوچھا یار فقیر الٹی کوشش؟؟ یہ کیا بات ہوئی۔ تب اس نے تفصیل سے سمجھایا تھا بدقسمتی سے اب یاد نہیں آرہا اور موصوف کہتے ہیں ’’میں بھڑوں کے چھتے میں تمہارے کالم کے لئے ہاتھ کیوں دوں‘‘۔

کڑوا سچ یہ ہے کہ میں نے سانحہ آرمی پبلک سکول کے مقتولین کی جگہ ایک سے زائد بار اپنی بیٹیوں کو رکھ کر سوال پر غور کیا۔ جب بھی اس طرح سوچا تو ایک اور سوال منہ چڑھانے لگا۔ ’’یہ جنت اور شہادتوں کے سرکاری و غیرسرکاری فرنچائزی اپنے بچوں اور بہن بھائیوں کو ان نعتموں سے محروم کیوں رکھتے ہیں‘‘۔

اس سوال نما جواب کے ساتھ مجھے حزب المجاہدین کا سربراہ یاد آجاتا ہے۔ اس سے ایک صحافی نے سوال کیا آپ دوسروں کے بچے جہاد و شہادت کے لئے تیار کرتے ہیں مگر آپ کے اپنے بچے اچھی ملازمتیں کررہے ہیں وہ جہاد و شہادت کے لئے آمادہ کیوں نہیں ہوتے یا آپ انہیں دعوت کیوں نہیں دیتے؟

امیر الجہاد کے چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ حالانکہ انٹرویو جس کمرے میں لیا گیا تھا وہاں دیوار پر ایک چارٹ لگا ہوا تھا اور اس پر لکھا تھا ’’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘۔

میں یہ کالم 16دسمبر کی دوپہر میں لکھ رہا ہوں۔ سچ پوچھیں تو آرمی پبلک سکول کے مقتول بچوں کے اصل مجرم ہم ہیں یعنی ہم اور آپ ۔ ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم نے سچ تلاش کرنے کی بجائے ریاستی بیانیہ پر دھمال ڈالی اور شہادتوں کی اقسام اور فضیلتوں پر سر دھنتے رہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author