حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برسوں سے لٹکے بلکہ افتخار چوہدری کی ہٹ دھرمی سے لٹکائے گئے ریکوڈک منصوبے کا نیا موڑ یہ ہے کہ گزشتہ سے پیوستہ روز قومی اسمبلی اور سینیٹ سے ریکوڈک منصوبے سے متعلق غیرملکی سرمایہ کاری کا بل منظور تو کرلیا گیا لیکن اس بل کی منظوری نے وفاق میں حکمران اتحاد کے اختلافات کو نہ صرف نمایاں کردیا بلکہ بعض اتحادیوں کے حکومت سے الگ ہونے کے امکانات بھی واضح ہوگئے ہیں۔
بی این پی کے سربراہ اختر مینگل نے غیرملکی سرمایہ کاری کے اس بل کو بلوچستان کے بنیادی حقوق اور وسائل پر ڈاکہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ
حکومت کسی کی بھی ہو وہ فیصلے اور قانون سازی کرتے وقت زمینی حقائق کو مدنظر نہیں رکھتی۔
پارلیمنٹ سے بل کی منظوری کے بعد وفاقی کابینہ میں بھی اس معاملے پر اختلافات دیکھنے میں آئے۔ بی این پی اور جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزراء نے اجلاس میں بل پر شدید اعتراضات کئے۔
بی این پی نے منظور شدہ ریکوڈک غیرملکی سرمایہ کاری بل کو اٹھارہویں ترمیم سے انحراف قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکمران اتحاد کے وزیر قانون اب جس ترمیم کی باتیں کررہے ہیں وہ اتحادیوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا کچھ نہیں یہ بھی کہا گیا کہ قانون سازی کے مرحلہ سے قبل اتحادیوں کو اعتماد میں لیا گیا نہ ہی ان کی بات سنی گئی۔
ریکوڈک کے معاملہ پر تنازع پیپلزپارٹی کے سابقہ دور میں اس وقت پیدا ہوا تھا جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے اس وقت کی حکومت کے معاہدہ کو منسوخ کردیا بعدازاں ریکوڈک کا ٹھیکہ لینے والی کمپنی کی عالمی سطح پر عدالتی کارروائیوں کے باعث پاکستان کو اس معاملہ پر 9ارب ڈالر کا جرمانہ ہوا۔ جرمانے کے وقت تحریک انصاف کی حکومت تھی اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی کوششوں اور بعض سنجیدہ اقدامات کے باعث ایک مرحلہ پر جرمانے کی رقم کم ہوئی اور دوسرے مرحلہ پر متعلقہ کمپنی معاہدہ کے لئے ازسرنو بات چیت کے لئے آمادہ ہوگئی۔
ریکوڈک کی ٹھیکیدار کمپنی اور حکومت میں معاملات تقریباً طے پاچکے تھے کہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو وزارت عظمیٰ نے محروم ہونا پڑا۔ ابتدائی طور پر طے شدہ معاملات میں فریقین اس امر پر تحریری طور پر متفق ہوچکے تھے کہ معاملہ 16دسمبر 2022ء سے قبل طے کرلیا جائے گا۔
چند دن قبل سپریم کورٹ نے اس حوالے سے بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس پر ریکوڈک منصوبے پر ہونے والے معاہدہ کے مسودہ کو درست قرار دیتے ہوئے اس کی منظوری دی جس کے بعد قانون سازی کے عمل میں کم وقت کے باعث حکومت نے تیزی کے ساتھ معاملہ نمٹانے کی حکمت عملی اپنائی تاکہ 16دسمبر سے قبل قانون سازی کرلی جائے۔
اصولی طور پر حکمران اتحاد کو اس حوالے سے ہنگامی مشاورت کرلینی چاہیے تھی بدقسمتی سے مشاورت پر قانون سازی کو ترجیح دیئے جانے کی وجہ سے ایک نئے بحران نے جنم لیا ہے۔
اس بحران میں وفاقی حکومت کے لئے مشکلات ہی مشکلات ہیں۔ محض تین ووٹوں پر کھڑی وفاقی حکومت سے اگر بی این پی کے ارکان کے علاوہ بلوچستان سے ایک آزاد رکن قومی اسمبلی بھی الگ ہوجاتے ہیں تو سنگین بحران پیدا ہوجائے گا۔
ریکوڈک منصوبے پر ہونے والی قانون سازی پر حکمران اتحاد کی تیسری بڑی جماعت جے یو آئی (ف) بھی بی این پی کی ہم خیال ہے۔ دونوں جماعتوں نے گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس کا احتجاجاً بائیکاٹ کیا۔ جے یو آئی، بی این پی اور بلوچستان سے پارلیمنٹ کے آزاد ارکان کا موقف ہے کہ وفاقی وزیر قانون نے وعدہ کیا تھا کہ مشاورت کے بغیر بل قانون سازی کے لئے دونوں ایوانوں میں نہیں لایا جائے گا مگر اس وعدے کے برعکس وزیر قانون نے بل کو ایجنڈے کا حصہ نہ ہونے کے باوجود دونوں ایوانوں میں پیش کرکے منظور کرالیا۔
سینیٹ میں بل کی منظوری کے مرحلہ میں تحریک انصاف کے سینیٹروں نے بھی اس کی مخالفت کی۔ گزشتہ روز بی این پی کے سربراہ سرداراختر مینگل نے کہا کہ وفاقی حکومت سے علیحدہ ہونے کے امکانات واضح ہیں۔
ریکوڈک غیرملکی سرمایہ کاری بل پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس قانون سے صوبوں کی خودمختاری پامال ہوئی بلکہ دستوری طور پر صوبوں کے ملکیتی امور پر وفاق کا حق ملکیت تسلیم کرلیا گیا۔
بل کے مخالف اتحادی اس معاملے میں اٹھارہویں ترمیم کی خالق پیپلزپارٹی کو بھی نہ صرف آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں بلکہ انہوں نے اس حوالے سے سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں سے منظور کی گئی قرارداد کو صوبائی حقوق سے دستبرداری کی طرف پہلا قدم قرار دیا جارہا ہے۔
کڑواسچ یہ ہے کہ ریکوڈ غیرملکی سرمایہ کاری بل کی منظوری سے یہ واضح ہوگیا کہ جمہوریت کی علمبردار کہلانے والی قوتیں فیصلہ سازی کی حیثیت نہیں رکھتیں گو اس معاملہ میں وقت بہت کم تھا خصوصاً 16دسمبر تک قانون سازی ضروری تھی پھر بھی 12دسمبر کو بل دونوں ایوانوں سے افراتفری میں منظور کراتے وقت وفاقی حکومت کے پاس تین دن کا وقت تھا۔
اس معاملہ میں کہیں سنجیدگی ہوتی تو بل 12کی بجائے 15دسمبرسے پہلے بھی منظور کرایا جاسکتا تھا۔
اس طور پر حکومت میں شامل اتحادیوں میں باہمی مشاورت ہوجاتی اور اختلاف رائے رکھنے والوں کو مطمئن کرنے کے ساتھ ان کی جانب سے دی جانے والی ترامیم کو بل کا حصہ بنایا جاسکتا تھا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اتحادیوں کو یہ یقین دہانی کراتے رہے کہ مشاورت کے بغیر بل ایوانوں میں نہیں لایا جائے گا مگر اس وعدے کے برعکس سپیکر قومی اور چیئرمین سینیٹ کے توسط سے ایجنڈے کا حصہ نہ ہونے کے باوجود بل کو دونوں ایوانوں سے منظور کرا لیا گیا بعدازاں جب 13دسمبر کو وفاقی کابینہ سے جے یو آئی اور بی این پی کے وزراء نے اس معاملہ پر احتجاج کرتے ہوئے بائیکاٹ کیا تب بھی اگر صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرلیا جاتا تو مناسب ہوتا۔
اسے بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ اس معاملے پر افتخار چودھری کے دور میں ہوئی بلاوجہ کی عدالتی مداخلت نے مسائل پیدا کئے تھے بعدازاں انتھک کوششوں سے ان مشکلات کا حل تلاش کر کے آگے بڑھنے کا راستہ اپنایا گیا لیکن اب حکمران اتحاد کے بڑوں نے 16دسمبر کی حتمی تاریخ کو تو سامنے رکھا لیکن اس امر کو نہیں کہ اتحاد میں شامل دیگر اتحادی اور خصوصاً بی این پی وغیرہ کا اطمینان بہت ضروری ہے
یہ وہ امر مسلمہ ہے جسے نہ صرف وفاقی اتحاد کے بڑوں اور وزیر قانون نے نظرانداز کیا بلکہ بی این پی اور جے یو آئی کے مطابق ان سے دھوکہ کیا گیا۔
یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم میں دیئے گئے صوبائی حقوق اور مقامی وسائل کے حوالے سے دستور کی واضح شقوں کی موجودگی میں ایسی قانون سازی کیوں کی گئی جس سے وفاق اور صوبوں کے درمیان پہلے سے موجود بداعتمادی مزید وسیع ہو؟
ستم ظریفی دیکھئے کہ وزیر قانون اگلے روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بائیکاٹ کرنے والے اتحادیوں کو یقین دہانی کرانے کے لئے ہاتھ پائوں مارتے رہے کہ مشاورت سے اس قانون میں ترامیم لے آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر مشاورت کے ساتھ بل 12کی بجائے 13یا 14 دسمبر کو منظور کرالیا جاتا تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑتی۔
جلد بازی اور اتحادیوں کا اعتماد مجروح کرنے کی وجہ سے حکمران اتحاد اور وفاقی حکومت کو اب جن خطرات کا سامنا ہے کم از کم ان سے تو محفوظ رہا جاسکتا تھا۔
یہ امر بھی دلچسپ ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے ذمہ داران ایوان میں کچھ اور ایوان سے باہر کچھ اور موقف اپنائے ہوئے ہیں۔ بہرطور بہتر ہوتا کہ اس بل کی منظوری سے قبل وزیراعظم چاروں وزرائے اعلیٰ سے مشاورت کرلیتے اور اسی طرح حکمران اتحاد کی قیادت بھی باہمی مشاورت کرلیتی تاکہ یہ نوبت نہ آتی۔ یہ کہنا درست ہے کہ اس بل کی منظوری سے صوبائی خودمختاری ہی پامال ہی نہیں ہوئی بلکہ اس سے فیڈریشن کی اکائیوں اور وفاق میں بداعتمادی کی خلیج وسیع ہوئی ہے۔
وزیراعظم اور وفاقی کابینہ اگر سنجیدہ ہے تو مشاورت کے ذریعے ایسی ترامیم لائی جائیں جن سے بلوچستان کے نمائندوں اور عوام کا اعتماد بحال ہو۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ