دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آرمی چیف سے امیدیں کیوں۔۔؟ ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیراعظم شہباز شریف نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سے نئے الیکشن پر مذاکرات کو مستزد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے سیاست قبل از وقت انتخابات کرانے کے لئے دائو پر نہیں لگائی بلکہ معیشت کو درست راستے پر لانا چاہتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان نے اپنے دور میں عالمی مالیاتی اداروں سے معاہدے کئے اور ان پر عمل کی بجائے سستی شہرت کے لئے معاہدوں سے انحراف کیا جس کی وجہ سے سنگین مالیاتی مسائل پیدا ہوئے۔ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے ایڑیاں رگڑیں اور انگوٹھے لگاکر آئی ایم ایف سے معاہدہ عوام پر مہنگائی کا بوجھ خوشی سے نہیں ڈالا یہ مجبوری تھی۔

گزشتہ روز وفاقی وزراء کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے عمران خان کو جھوٹا شخص قرار دیتے ہوئے کہا صبح کچھ اور شام میں کچھ کہنے والے شخص کی کس بات پر اعتبار کیا جائے اور کس چیز پر مذاکرات کئے جائیں۔

ادھر سابق وزیراعظم عمران خان کے مطابق پاکستان کے معاشی حالات بہت خراب ہیں ملک ہر گزرنے والے دن کے ساتھ نیچے جارہا ہے ان کا کہنا تھا کہ میں عوام سے نہیں اداروں سے مخاطب ہوں۔ معیشت کو نہ سنبھالا گیا تو حالات زیادہ خراب ہوں گے الیکشن ہی واحد حل ہے۔

حکمران سیاسی قیادت کے مختلف الخیال دھڑے دو انتہائوں پر کھڑے ہیں۔ عمران خان معیشت اور دوسرے مسائل کا حل فوری الیکشن کو قرار دیتے ہیں جبکہ پی ڈی ایم اور اتحادیوں کے خیال میں موجودہ صورتحال میں فوری انتخابات کا متحمل نہ ہوں جاسکتا نیز یہ کہ وفاق کے حکمران اتحادی عمران خان سے الیکشن پر مذاکرات نہیں کرنا چاہتے ان حالات میں تو بظاہر درمیانی راستہ نکلنے اور نکالے جانے کا کوئی امکان نہیں۔

اصولی طور پر تو سیاستدانوں کو اپنے اختلافات بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہئیں۔ عمران خان کبھی قبل از وقت انتخاب کے لئے پی ڈی ایم اور اتحادیوں کو مذاکرات کی مہلت دینے کا اعلان کرتے ہیں اور کبھی یہ کہتے ہیں کہ میں چوروں سے مذاکرات نہیں کروں گا۔

گزشتہ روز انہوں نے کہا کہ میں عوام سے نہیں اداروں سے مخاطب ہوں۔ گزشتہ سے پیوستہ روز ان کا کہنا تھا کہ میں نئے آرمی چیف کی طرف امید سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ امر بالمعروف کریں گے۔

ان سے یہ سوال بہرطور پوچھا جانا بنتا ہے کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ آرمی چیف کسی ایک سیاسی گروہ کے تفہیم کردہ امر بالمعروف کے مطابق اس کا ہم آواز ہو۔

آئین میں ریاست کے تمام محکموں کے فرائض اختیارات اور حدود کا تعین ہے۔ آرمی چیف یا کوئی دوسرا کیسے آئین سے بالاتر ہوکر کوئی قدم اٹھاسکتا ہے؟

ثانیاً یہ کہ ایک طرف تو وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ملک کے سب سے زیادہ مقبول رہنما ہیں عوام کی اکثریت ان کے ساتھ ہے تو پھر وہ عوام کی قوت پر بھروسہ کرنے کی بجائے بار بار اداروں کو غیرآئینی کردار کے لئے آواز کیوں دیتے ہیں ۔

عمران خان ملک کے تقریباً پونے چار برس وزیراعظم رہے اس وقت بھی فیڈریشن کے دو یونٹوں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ان کی جماعت برسراقتدار ہے جبکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی انہیں عوام کو بتانا چاہیے کہ پونے چار برسوں کی وزارت عظمیٰ میں انہوں نے عوام کے لئے ان دعوئوں کے سوا کیا کیا جو وہ کرتے رہے۔

انہیں اس سوال کا جواب بھی دینا چاہیے کہ انہوں نے اپنی حکومت کے آئی ایم ایف سے معاہدہ پر عمل کی بجائے اس سے انحراف کس برتے پر کیا۔ کیا ان کے ناقدین کا یہ الزام درست ہے کہ انہوں نے عالمی مالیاتی اداروں سے معاہدوں کوپامال ایک سازش کے تحت کیا؟

فی الوقت متحارب سیاسی قائدین کے بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ سیاست اور نظام جامدوساقط ہیں۔ آگے بڑھنے کی کوئی صورت بنتی دیکھائی نہیں دے رہی۔ کیا ان قائدین کے نزدیک عوام اور مملکت کی کوئی حیثیت نہیں۔

حیثیت ہے تو وہ شخصی انا کے خول سے باہر نکل کر ان مسائل کا حل کیوں تلاش نہیں کرتے جن کا اس وقت سامنا ہے اور یہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ گھمبیر ہوتے جارہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے وزیراعظم اور وفاقی وزراء کی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کے بعض جملوں پر اعتراض کیا۔

یہ اعتراض بجا ہے لیکن معاملات یہاں تک کیوں پہنچے۔ خود عمران خان اور ان کے رفقا اپنے سیاسی مخالفین کے لئے برسوں سے جو زبان استعمال کرتے آرہے ہیں وہ کیونکر شہد بیانی کے زمرے میں آئے گی۔

ستم بالائے ستم یہ ہے کہ عمران خان ماضی میں اور اب بھی اپنے مخالفین پر جو الزام لگاتے رہے ہیں ان کے حوالے سے وہ ایک سے زائد بار یہ اعتراف کرچکے کہ انہیں ان الزامات کی حقیقت سے ایجنسیوں نے آگاہ کیا تھا۔ کیا سیاسی عمل میں شریک کسی پارٹی کے سربراہ کو مخالفین کے حوالے سے ایجنسیوں کی فراہم کردہ معلومات پر سیاسی بیانیہ بنانا چاہیے؟

بہرطور یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ سیاسی قائدین بچوں کی طرح کُٹی کرکے بیٹھیں نہ ہی مذاکرات کے دروازے بند کریں اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سیاسی قائدین اداروں کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھیں نہ انہیں مدد کے لئے پکاریں۔ دستور میں جس کا جو کردار طے ہے اسے وہی کردار ادا کرنا چاہیے۔

عمران خان جب یہ کہتے ہیں کہ میں امید رکھتا ہوں کہ آرمی چیف امر بالمعروف کریں گے یا ملٹری اسٹیبلشمنٹ الیکشن کی تاریخ لے کر دے تو اس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ ان کی سیاست اور اقتدار دونوں اسٹیبلشمنٹ کی جمع و تفریق کے مرہون منت رہے۔

یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اگر ملٹری اسٹیبلشمنٹ یہ کہہ رہی ہے کہ سیاسی عمل میں ستر بہتر برسوں کی مداخلت غلط تھی اور آئندہ صرف اپنے حقیقی کردار پر توجہ دی جائے گی تو پھر سیدھے سبھائو اس کے عمل کو دیکھنا ہوگا۔ عمران خان کیوں چاہتے ہیں کہ آرمی چیف ان کی مدد کرے کیا دستور اس کی اجازت دیتا ہے؟

انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ امر بالمعروف کے نام پر ایک جنرل اس ملک پر گیارہ برس سے اوپر قابض رہے اور ان کے دور اقتدار کے بگاڑ آج تک سدھارے نہیں جاسکے۔

سیاسی قائدین اپنی غلطیوں کا بھی خود تجزیہ کریں اور اصلاح احوال کے لئے حکمت عملی بھی اپنے فہم کے مطابق وضع کریں۔ اس پر دو آراء نہیں کہ معیشت کی صورتحال بہتر ہرگز نہیں ہے اس حالت کا ذمہ دار کون ہے اور یہ کہ کیا اس صورتحال کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالتے رہنے سے کوئی بہتری آجائے گی، ایسا ہرگز نہیں۔

اس صورتحال کی بڑی حد تک ذمہ داری عمران خان پر بھی ہے جن کے دور میں آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوا اور پھر انہوں نے اس معاہدے سے انحراف کیا۔

عمران خان کی کابینہ میں وزیر داخلہ رہنے والے شیخ رشید جو اب بھی ان کے سیاسی رفیق ہیں، 9اپریل کے بعد ایک سے زائد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ

’’عمران خان کو اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کی سُن گن نومبر 2021ء میں ہی ہوگئی تھی اس پر انہوں نے معاشی حوالوں سے اپنے فیصلے کئے جو آنے والی حکومت کے لئے بارودی سرنگیں ثابت ہوں‘‘۔

عمران خان نے کبھی اپنے سیاسی رفیق کے اس موقف کی تردید نہیں کی عدم تردید کا سیدھا سادہ مطلب یہی ہے کہ معاشی ابتری کی ذمہ داری عمران خان پر ہے۔ ان حالات میں اگر عوام یہ پوچھتے ہیں کہ محض سیاسی مخافلین کی راہ کھوٹی کرنے کے لئے گڑھے کھودنے والے رہنما نے نے یہ سوچنے کی زحمت کیوں نہیں کی کہ اس کا خمیازہ تو عام لوگوں کو بھگتنا پڑے گا تو اس کا برا منانے کی بجائے جواب دیا جانا چاہیے۔

سیاستدانوں نے جب بھی اپنے اختلافات کو خود طے کرنے کی بجائے تیسری قوت سے مدد چاہی یا اس کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھا اس کا نتیجہ عشرے بھر کی شخصی حاکمیت کی صورت میں ہی نکلا یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر یہ عرض کرنا لازم ہے کہ سیاسی اختلافات کو خود طے کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے

ثانیاً یہ کہ آئندہ انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے درمیانی راستہ نکال لیا جائے تو بہتر رہے گا۔ امید ہے کہ سیاسی قائدین ’’ہم خرفِ آخر‘‘ ہیں کی سوچ سے نجات حاصل کرکے دستور نظام اور جمہوریت کو مقدم سمجھیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author