اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریاست ملتان کا برطانوی محاصرہ: ‘تاریخ کا ایک باب جس میں ڈرامائی بیانیے کی تمام خصوصیات ہیں’ (2)||امجد نذیر

امجد نذیر سرائیکی وسیب کے قدیم شہر ملتان سے تعلق رکھتے ہیں ،مصنف سماجی اور ترقیاتی تجزیہ کار ہیں ـ وہ اسلام آباد کے ادارہ برائے تحقیق و ترقی (ادراک) سے وابستہ ہیں

امجد نذیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(مآخذات : جاہن جونز کولے، مرزا ابن حنیف، احمد رضوان اور دوسرے ذرائع )

تعارف : ریاست ملتان کی قدامت، دریائے سندھ اور چناب کی عطا کردہ خوشحالی اور اہم ترین محل وقوع کیوجہ ریاست ملتان کے ایک نہیں کئی محاصرے ھوئے اور ھوئے ھونگے، کچھ معلوم اور کچھ نا معلوم ۔ مثلاً 325 قبل مسیح میں مقدونیہ کے سکندر کا محاصرہ، 1296 میں علاوالدین خلجی کا محاصرہ مگر تاریخ میں جسقدر جُزیاتی تفصیل برطانوی محا صرے کی موجود ھے کِسی اور محاصرے یا حملے کی موجود نہیں ھے ۔ کسی بھی ڈرامائی بیانیے میں واقعات، کردار اور تنازعات ڈرامائی ایکشن کی جان ھوتے ھیں، اور 1848 میں کئیے گئے برطانوی محاصرے میں یہ تمام خوبیاں موجود ہیں اِسی لئے برطانوی محاصرہ شاید واحد محاصرہ ھے جسے اپنی مکمل ڈرامائی خوبیوں سمیت دوبارہ بیان کیا جا سکتا ھے ۔ اور زیر نظر تحریر اسی نوعیت کی ایک کوشش ہے ـ

دوسرا درشن

ریاست ملتان کی قدامت، دریائے سندھ اور چناب کی عطا کردہ خوشحالی اور اہم ترین محل وقوع کیوجہ سے ریاست ملتان کے ایک نہیں کئی محاصرے ہوئے اور ہوئے ہونگے، کچھ معلوم اور کچھ نا معلوم ۔ مثلا 325 قبل مسیح میں سکندر مقدونی (جِسے ایران میں سکندر ملعون کے نام سے جانا جاتا ہے) کا محاصرہ، 1296 میں علاوالدین خلجی کا محاصرہ، 1818 میں رنجیت سنگھ کی جارحیت وغیرہ مگر تاریخ میں جسقدر جُزیاتی تفصیل برطانوی محا صرے کی موجود ہے شاید کِسی اور محاصرے یا حملے کی موجود نہیں ہے ۔ کسی بھی ڈرامائی بیانیے میں واقعات، کردار اور تنازعات ڈرامائی ایکشن کی جان ہوتے ہیں، اور 1848 میں کئیے گئے برطانوی محاصرے میں یہ تمام خوبیاں موجود ہیں؛ اِسی لئے برطانوی محاصرہ شاید واحد محاصرہ ہے جسے اپنی مکمل ڈرامائی خوبیوں سمیت دوبارہ بیان کیا جا سکتا ہے ۔ اور زیر ِنظر تحریر اِسی نوعیت کی ایک کوکوشش ہے ـ آخر میں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ راقم الحروف نے جاہن جوہنز کولے کے ‘پروٹاگونسٹ’ اور ‘اینٹاگونسٹ’ کو اَدل بَدل کرڈالا ہے تاکہ ملتان دھرتی کا دفاع کرنے والوں کو تاریخ میں اُن کا درُست ترین مقام دلوایا جا سکے ـ اور یہ عرض کر نا بھی ضروری ہے کہ پنجابی (سِکھ) حُکمران ہونے کے ناطے مُولراج کی سیاسی حیثیت سرائیکی اور ملتانی مورخین کے نزدیک زیادہ پسندیدہ نہی رہی ـ راقم الحروف نے زیر نظر تحریر جو تحقیق ، ترجمہ اور تخلیق کا مرکب ہے عروُس البلاد ملتان کی محبت اور اہمیت کے پیش نظر لِکھی ہے تاکہ برطانوی عسکری یلغار کیساتھ ساتھ تقریبا” پونے دو سو سال پہلے کے ملتان اوراُسکے گِردو نوح کا معاشرہ اور انگریزوں کے ساتھ مقابلے کا منظر تحریری پردہ ءسیمیں پر دِکھایا جا سکے۔اِس پورے منظر میں مُولراج کی جو بھی سیاسی اور تاریخی حیثیت بنتی ہے، اُسکا فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا گیا ہے ـ
۔۔۔
ریاست ملتان کے دفاع اور ِاستعماردُشمنی میں پیٹرک اَگینو اور ولئیم اینڈرسن کو جہنم واصل کرنے سے پہلے یا تو انگریز ملتان کی قوت و اِمتیاز کے بارے میں بہت کم آگاہ تھے یا پھر کِسی اورخیال میں تھے ۔یہ بھی مُمکن ہے کہ مَجموعی طور پر یورپئن لوگوں نے اِس قدیم و عظیم شہر کے بارے میں بہت کم سُنا ہو ۔ بہرحال درج بالا خبر کے بعد کم از کم ہندوستان کے طول و عرض میں مُلتان ایک بار پھر صفِ اول کے شہروں کی فہرست میں آن کھڑا ہوا ۔ جب لیفٹینینٹ آئی ۔ این۔کرسٹوفر نے 1848 کے اوائل میں مُلتان شہر کا دورہ کیا تھا تو اُسکی رائے میں "ملتان ایک اچھی خاصی آبادی والا، انتہائی مضبوط ومحفوظ اور خوشحال شہر تھا ۔ مُقامی لوگوں کی رائے میں قلعہء ملتان ناقابلِ شکست حد تک قوّی الجُسہ، پُختہ اور توانا تھا جسے زیر کرنا کوئی آسان بات نہ تھی” ۔ ہر چند کہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تقوّیت کیلئے 1818 میں رنجیت سنگھ نے شب خُون مارکے مُلتان شہر پر اپنے مزمُوم پنجے گاڑ لئیے تھے مگر ملتان کے داخلی معاملات میں اُسکا اثرؤ تصرف علامتی سا ہی رہا۔

ماضی قریب میں مُولراج نے تعمیراتی ترامیم و اضافوں سے قلعہء مُلتان کو ناقابلِ تسخیر بنانے میں کوئی کثر اٹھا نہ رکھی اور اپنی، اپنے آدمیوں اور قلعہ کی دفاعی صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے ہی اُس نے برصغیر میں اپنے متزلزل سامراجی پاؤں جماتی ہوئی انگریزحکومت سے مڈ بھڑ کرنے کا ارادہ باندھا۔چند روز پہلے ہی ملتان کے جیدار جوانوں نے انگریز کے کار پرداز سپاہیوں یعنی اگینو اور اَینڈرسن کو مُولراج کے ارادے اور خواہش یا حکم کے بغیر ہی مشتعل ہو کر بے حیل و حُجت توحین آمیز انداز میں مار ڈالا تھا ۔ اپنی زمین اور اَپنے لوگوں سے وفاداری کے اِسی جُر ات مندانہ اقدام کی پاداش میں ہی برطانوّی اِستعماری ایجنٹ، مُلتان کے شہریوں اورفرمانروائے ملتان کے وجود کے درپئے ھو گئے ۔ اب وہ ُمملکت ِمُلتان کے باسیوں کو گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روندنا اور اپنی توپوں کی گھنگرج سے دہلانا ور دبانا چاہتے تھے اور چاہتے تھے کہ مُلتان کی تاریخی عزت و تکریم کو اپنے نو آبادیاتی تسلط تلے نہوڑا کر جانثارانِ ملتان کو نشانِ عِبرت بنادیا جا ئے ، مگر انہیں عِلم نہیں تھا کہ ملتان کو زیر نگیں کرنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں تھا۔

یہ 20 اپریل 1848 کی ایک خوش مزاج و خوش رُو صبح تھی جب مُولراج نے عیدگاہ، یعنی اُسی مقام سے جس مُقام پر ملتانی سپاہیوں نے پیٹرک اور اَگینو کو ٹھکانے لگایاتھا، انگریزوں کے خلاف یکبارگی اپنی توپوں کے دَہانے کھول دیے ۔ اور یہی وہ مُقام تھا جِس مقام پر ایک روز قبل یعنی 19 اپریل 1848 کو انگریز سرکار کے بدنامِ زمانہ پٹِھو اپنے تئیں مُولراج سے حکمرانئ مُلتان کا پروانہ وصول کرنے آئے تھے ۔ وہ ناکام و نامراد لَوٹنے ہی لگے تھے کہ دونوں بدمعاشوں کی حرکت پر گھات لگا کر بیٹھے ہوئے ملتان کے وفادار جیالے اُن پر عُقابوں کیطرح جھپٹ پڑے ۔ ایک کے کندھے اور دوسرے کے سَر پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ وہ تڑپ کر رہ گئے ۔اگلے روز عید گاہ میں خیمہ زن ابھی وہ جانبر نہیں ہوئے تھے کہ ایک اور سِکھ نے اُنکے ٹھکانے پر جا کر دونوں کے دونوں مذخُوم طلبگارنِ وِلایَت کورُسوّا کر کے کر مار ڈالا ۔

اَگینو اور اینڈرسن کے یوں مارے جانے کے بعد اب مولراج کا ایک تو اپنے سپاہیوں پر اعتماد بڑھا اور دوسرا اُسکے پاس اب کوئی چارہ ہی نہیں تھا ، ما سوائے اپنی قوتِ ارادی اور حصار بند قلعہ کی استقامت میں مزید اضافہ کرنے کے ۔ بالآکر اُس نے ہمت مُجتمع کرتے ہوئے کُھلم کُھلا دشمن کے خلاف محاز آرائی کا آغاز کر دیا ۔ یہاں تک کہ اس نے پنجاب کے نام نہاد اور واجبی بلکہ فقط نامزد مہاراجہ دَلیپ سنگھ کی پنجاب کی سطح پر فرمانروائی کا طوق بھی اپنے گلے سے اُتار پھینکا اور خَم ٹھونک کر ملتان پر خالصہ دربار کے گٹھ جوڑ سے ناپاک قبضہ گری کا خواب دیکھنے والی انگریز سپاہ کی خلاف تن مَن اور دھن کی بازی لگا کر صف آراء ہو گیا ۔ یہاں یہ ذکر کر دینا بھی ضروری ہے کہ مہاراجہ دلیپ سنگھ ابھی نا با لغ تھا اور انگریزوں نے خالصہ دربار سے دلیپ سنگھ کی حکمرانی میں پنجاب کی راجدھانی واپس کرنے کا وعدہ کیا تھا ، اسی لئے دلیپ سنگھ کا راج پاٹ محض علامتی تھا ، لہٰذا مُولراج نے قلعہ کُہنہ ملتان کو ضروری ا ور اضافی تعمیر و ترامیم کے ذریعے مزید مضبوط کرنا شروع کر دیا ۔ اُس نے قلعہ کے اندر مُمکنہ حد تک اَسلحہ اور گولا بارود کا سامان ذخیرہ کرنا شروع کر دیا ۔ اور رفتہ رفتہ اپنے محاصل ، وسائل اور فوج میں بھی اضافہ کرلیا ۔ نہ صِرف یہ بلکہ قلعہ کے اندر مزید آباد کاری شروع کر دی ۔ اورپھر اپنے تازہ خون سے لبریز بے تاب جوانوں کو قلعہ کے اندر مجتمع کر کے حملے اور مزاحمتی مشقوں پر لگا دیا ۔

مجموعی طور پر کم و بیش تمام حالات مُزاحمت کا روں کے حق میں انتہائی موافق اور موذوں محسوس ہو رہے تھے ۔ اُنکے سامنے ایک کُھلا میدان تھا اور صورت حال نہایت واضح ۔ وہ بڑی آسانی سے اپنی پیش قدمی ، حملہ آوری اور متوقع فتح کے لئے نشاندہی اور منصوبہ سازی کر سکتے تھے ۔قلعہء مُلتان اور اسکے دفاع کاروں کی طاقت کا اندازہ کرتے ہوئے تاجِ برطانیہ اُنکے مقابل اپنی مُستعد اور تربیّت یافتہ فوج بھیجنے میں بھی بہت چوکنا تھی اور وہ بھی جُون جولائی کی چلچلاتی گرمیوں میں اور پھر ریگزارِ ملتان میں ، جہاں کی گرمی سے حیوان بھی پناہ مانگتے ہیں گوروں کی افواج کے لئے ملتانی تپش اورسرسراتی لوُ کو گوّارا کرنا اور اپنی جارحیت یا دِفاع کو طُول دینا انتہائی کٹھِن ہو سکتا تھا ۔ مگر سخت جان لیفٹینینٹ ایڈورڈ پہلے ہی سے میدان میں موجود تھا ۔ اور ایک غیر معمولی طاقت کی حامل فوج کا سامنا کرنے کے لئے نقشہ گری اور ریشہ دوانیاں شروع کر چُکا تھا ۔ اِس وقت وہ ڈیرہ فتح خان کے نزدیک دریائے سندھ کے مغربی کنارے ڈیرہ جات کے علاقوں میں رینگ رہا تھا ۔ دو بندوقیں اور مُشترکہ سِکھ افواج سے بغاوت کرکے ٹوٹنے والا ایک فوجی دستہ بھی اُسکی سالاری تسلیم کر چکُا تھا ۔ اپریل کے مہینے میں وہ دریائے سِندھ عبوُر کرکے مشرقی کنارے پر واقع لیّہ شہر میں داخل ہوا جو اس وقت مناسب آبادی والا ایک ضلع تھا ۔ وہاں اُس نے اپنے ہرکاروں کے ذریعے دھونس دھمکی سےغریب کسانوں، ہُنرمندوں اور دُکانداروں سے محاصل کے نام پر لوٹ کھسوٹ شروع کر دی تا کہ وہ طویل عرصے تک لڑنے کیلیے اپنے پاس مال اسباب اور اشیائے خورد و نوش جمع رکھ سکیں ۔

تاہم اُنہیں خبر نہیں تھی کہ مُولراج اپنے دَس ہزار چاک و چوبند لشکریوں اور دَس توپوں کے ساتھ وہاں بھی اُن پر دھاوا بول دے گا ۔ اور اسکی نڈر سپاہ کی دہشت اور دَبدبے سے گھبرا کر ایڈوّرڈ اور اُسکے سپاہی پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو جائیں گے اور انہیں دوبارہ اپنی بکھری ہوئی سپاہ کو جمع کرنے میں مزید وقت اور محنت دَرکار ہو گی ۔ 4 مئی 1948 کو شکست خوردہ اور مُضمحل ایڈورڈ اور اُسکے حواری اپنی کشتیوں پر سوار ہو کر واپسی ڈیرہ جات کیطرف دریا عبوُر کر گئے ۔ اگلے دِن مُولراج اپنے فوجی دستوں کے ساتھ فاتحانہ انداز میں لیْہ شہر داخل ھو گیا اور ایڈوّرڈ کی غا صب فوج کو مار بھگانے کی خوشی میں توپوں کے کئی ایک گولے ہوّا میں داغے ۔ لیکن لیفٹینینٹ ایڈورڈ، سِکھ سروسز پر مبعوث لیفٹینینٹ کارٹلینڈ کو، جو اُس وقت ضلع بنوں (موجودہ خیبر پختونخواہ) میں موجود تھا ، پہلے ہی اپنی مدد کے لئے چِٹھی لِکھ چُکا تھا ۔ 4 مئی کی ایک مایوس و مغیرّ رات کو اُسکی متوقع آمد کو خیال میں لاتے ہوئے اُسنے بطور سگنل فضا میں دو گولیاں فائر کیں ۔ جواب میں لیفٹینینٹ کارٹلینڈ نے بھی دو گولیاں ہوا کے سینے میں پیوّست کر دیں ۔کیونکہ وہ ڈیرہ اسماعیل خان سے اپنی کشتیاں دریائے سندھ میں ڈال چکا تھا ۔جوابی فائرنگ سُن کر لیفٹینینٹ ایڈوّرڈ کی جان میں جان آئی اور وہ ایک بار پھر مُلتاں پَر یلغار کرنے کے خواب دیکھنے لگا ۔

اَگلے روز صبح سویرے لیفٹینینٹ کارٹلینڈ ایک پیادہ رجمنٹ، کچھ گھوڑوں اور چار ٹھیک ٹھیک نشانہ باندھنے والی بندوقوں کیساتھ جنوب مشرق کی طرف رواں دواں ہوا ۔ ایک آدھ روز میں وہ تونسہ شریف کے پہلوُ سے گزرتی ھوئی سنگھڑ روُد کوہی کے قریب آن پہنچا ، جہاں برطانوی فوج کی 6 اور تربیت یافتہ یونٹوں نے اُسکے مختصر دستے میں شمولئت اختیار کی جبکہ لیفٹینینٹ ایڈوّرڈ ایک بار پِھر ہمت جَمع کرکے مولراج اوراُسکی بہادر سپاہ کی نقل و حرکت پر مسلسل نظر رکھنے لگا ۔اور ساتھ ہی ساتھ اُسنے ملتانی سپاہ کے دریا پار کرنے کے راستے کو بھی مسدود کئے رکھا ۔ دوسری جانب ملتان کے کچھ کایاں سپاہی اور کارندے چوری چُھپے لیفٹینینٹ کارٹلینڈ کی نقل و حرکت اور جنوب کیطرف اُنکے سٓفر اور کا مشاہدہ بھی کرتے رہے اور اُنکی مُمکنہ طاقت کا تخمینہ بھی لگاتے رہے ۔ اور وہ بھی دریا پار کرنے کی خواہش مند انگریز فوج کا وہاں وہاں سے راستہ مسدود کرتے رہے جہاں جہاں کارٹلینڈ پڑاو ڈالتا رہا اور دریا عبور کرنے کی کوشش کرتا رہا ، نہایت عقلمندی سے وہ ایسے تمام مقامات پر عین مخالف اپنے ڈیرے ڈالتے رہے جہاں سے اُنہیں عسکری گمک ملنے کا امکان تھا ۔ اُنکی اصل کوشش اور خواہش یہ تھی کہ کسی بھی وقت موقع ملتے ہی ایڈوّرڈ کی فوج کا قلعہ قمع کر دیا جا ئے مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا ورنہ ملتان کی تاریخ میں فتح و نصرت کے ایک اور روشن باب کا اضافہ ہو جاتا۔

راستے میں ایک دن آرام کے بعد، یفٹینینٹ کارٹلینڈ کا دستہ دوبارہ عازم ِسفر ہوا ۔ مگر مُولتان کے چوکنَا مُخبر اور سپاہی وقتا”فوّقتا” اُسکی سَمت اور قوت کا جائزہ لیتے رہے ۔ اِسی انداز میں ایک دِن آرام اور ایک دن سفر کرتے ہوئے لیفٹینینٹ کارٹلینڈ ہر منزل اور ہر پڑاؤ پر اپنے سپاہیوں، اسلحے اور اپنی قوت میں اضافہ کرتا رہا ، جس میں غداروں اور کاسہ لیسوں کی بڑی تعداتد شاملی تھی ۔ وہ نہایت ہو شیاری سے اپنی ساری کی ساری کشتیاں بچا کر دریائے سندھ کے غربی کنارے پر واقع قدیم ڈیرہ غازیخان کے دہانے پر پہنچ گیا ۔ اُس وقت ڈیرہ غازیخان، ڈیرہ جات کا سب سے بڑا شہر تھا ۔ یہاں لیفٹینینٹ کارٹلینڈ نے اپنے دستے میں مزید فوجی سپاہی شامل کئیے اور صرف پانچ سے چِھ دن کے اندر اندر تقریبا” 9 ہزار سپاہیوں کا دستہ تیار کر لیا ۔ مُلتان کے کچھ سپا ہیوں اور کارندوں نے بھی پہلے کیطرح دریا کی مخالف سمت میں لیفٹینینٹ کارٹلینڈ کے کیمپس کے عین مُخالف اپنا پڑاؤ ڈال لیا ۔ اور جہاں جہاں مُمکن ہوا، راستے میں اور پڑاؤ کے مقامات پر، اُنہوں نے کارٹلینڈ اور اُسکے بڑھتے ہوئے دستے کے لئے بِساط بَھر مشکلات پیدا کیں لیکن پھر بھی وہ (کارٹلینڈ اور اُسکے سپاہی) کبھی خشکی اور کبھی دریا کے راستے تمام رکاوٹوں اور مُشکلات سے بچتے بچاتے ڈیرہ غازیخان پہنچ ہی گئے ۔

اِسی دوران مُلتانی فوج کے لئے ایک اور خطرناک کام ہوا، وہ یہ کہ ریاست بہاولپور کے نواب نے، جسے تاج برطانیہ (دہلی) سے ایڈوّرڈ اور کارٹلینڈ کو کُمک ارسال کرنے کی درخواست کی گئی تھی، دس ہزار آدمی گوروں کی مدد کے لئے ملتان روانہ کیے ۔ جِن میں سے دو ہزار نے اُچ شریف کے نزدیک پنجند کراس کر کے مُلتان کے مَیمنہ دستوں کے لئے جنگی حکمتِ عملی اور اپنوں کے خلاف وار کرنے کا ایک اور سوال کھڑا کر دیا ۔ آٹھ ہزار آدمیوں نے دریائے ستلُج عبور کر کے ملتان شہر کی جانب رخ کیا ۔ اب مُقامی سپاہ کے لئے ملتان کا تحفظ ایک چیلنج بن گیا ۔ کچھ سوچ کر مولراج نے بغیر کسی تاخیر کے اپنی افواج کو واپس بلالیا جو کہ اب بڑی حد تک دریائے چناب اور نواب بہاولپور کے بھیجے گئے سپاہیوں کے درمیان پھنس چکی تھیں ۔ مُلتانی افواج کے پیچھے ہٹنے سے ایڈوّرڈ نے فی الفور اپنی سپاہ کو آگے بڑھنے کا حکم دیا اور اُنہیں چناب کی دوسری جانب ڈال دیا تاکہ نواب بہاولپور کے روانہ کردہ آدمیوں کا تعاون حاصل کیا جاسکے، کیونکہ وہ دونوں الگ الگ انتہائی کمزور تھے اور نواب کے کمزوراورغیر تربیت یافتہ آدمیوں پر تو کسی بھی وقت اچانک حملہ کر کے انہیں تِتر بِتر کیا جا سکتا تھا ۔ اس لئے ایڈوّرڈ نے اُنکو تعاون فراہم کرنا ضوری سمجھا ۔

17 جُون کی ایک خُوں آشام شام کو لیفٹینینٹ ایڈوّرڈز کم سے کم کشتیاں ہونے کے با وجود بھی تقریبا” تین ہزار ہدایت یا فتہ فوجی اور کُچھ لحیم شحیم گھوڑے دریاٖئے چناب کے مشرق میں مُلتان کی جانب آنکنے میں کامیاب ہو گیا ۔ اور 18 جُون کی صبح کو وہ خود دریائے چناب کے پار اُترا ۔ جبکہ طالع آزماء کارٹلینڈ کئی ایک بڑی بندوقوں (آرٹلری) کو اپنی نگرانی ہی میں باری باری دریا پار بھیجنے کی نگرانی کرتا رہا ۔ ابھی خُود اُس نے دریا کراس بھی نہیں کیا تھا کہ اُسے بہت زوردار فائرنگ، جوابی فائرنگ اور املاک و نواح کی بربادی کا شور سنائی دینے لگا ۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ اپنے ملتان کی سیماب صفت فوج نے جان ہتھلی پر رکھتے ھوئے ایڈورڈز کے نیم مُستعد اور تھکے ماندے دستوں پر تاک تاک کے نشانے باندھنا شروع کر دیے تھے ۔ اَبھی تک برطانوی سامراج کے بھیجے گئے بدقماشوں کی ایک بھی ہَیوی گَن دریا پار نہیں اُتر سکی تھی ۔اور قریب قریب پہنچنے کا اِمکان بھی نہیں تھا۔کیونکہ ایسی تمام کشتیاں جن پر ہیوّی گَنیں یا دوسرا اَسلحہ لوڈ کیا جا سکے ، ہوشمند اور مُعاملہ فہم ملتانی سپاہ نے اپنے قبضے میں کر لی تھیں۔دوسری جانب کارٹلینڈ اپنی طور پر ذیادہ سے ذیادہ اسلحہ، کشتیاں اور بھاڑے پر لڑنے والے مقامی غداروں کو اِکھٹا کرنے کی سر توڑ کوششیں کر رہ تھا اور بھر پور مشقت سے ہی وہ اچھی حالت والی کُچھ کشتیاں ، کُچھ اسلحہ اور کچھ فوجی لییفٹینینٹ ایڈورڈز کی مدد کے لئے روانہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا جو کہ دھیرے دھیرے محاز کیطرف رواں دواں تھے۔

                                           

***

اے وی پڑھو:

تریجھا (سرائیکی افسانہ)۔۔۔امجد نذیر

چِتکَبرا ( نَنڈھی کتھا )۔۔۔امجد نذیر

گاندھی جی اتیں ٹیگور دا فکری موازنہ ۔۔۔امجد نذیر

گامݨ ماشکی (لُنڈی کتھا) ۔۔۔امجد نذیر

سرائیکی وسیع تر ایکے اتیں ڈائنامکس دی اڄوکی بحث ۔۔۔امجد نذیر

امجد نذیر کی دیگر تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: