مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیو نیوز میں پہلے "پنگا” کے عنوان سے ان ہاوس پروڈکشن کی روایت تھی جو شاید تنخواہوں میں اضافے کے موقع پر کی جاتی تھی۔ یہ ففٹی ففٹی جیسے دلچسپ اسکٹس ہوتے تھے جن کا آئیڈیا مختلف لوگ دیتے اور پھر ان کی عکس بندی کی جاتی۔ ایک زمانے میں جیونیوز میں گاڑیاں کم تھیں اور رپورٹر شکایت کرتے رہتے تھے کہ انھیں رپورٹنگ کے لیے جانا ہے اور گاڑی اور ڈرائیور دستیاب نہیں۔ مجھے ایک اسکٹ یاد ہے جس میں رپورٹر پریشان پھر رہا تھا کہ ڈرائیور نہیں مل رہا۔ باس نے کہا کہ ادارے کا جو سب سے فارغ آدمی ملے، اسے کہو کہ وہ ڈراِئیور بن جائے۔ آخری منظر یہ تھا کہ رپورٹر ڈرائیور سے کہتا ہے، "صدر چلو۔” ڈرائیور پیچھے مڑ کے اچھا کہتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ وہ ڈرائیور جیو کے صدر یعنی عمران اسلم ہیں۔ "صدر چلو” کا ڈائیلاگ ذومعنی تھا۔
کیسی عجیب بات ہے کہ عمران اسلم نے اپنا مضحکہ اڑانے والے خاکے میں اپنا کردار خود ادا کیا۔
وہ ایسے ہی آدمی تھے۔ سر سے پیر تک کری ایٹو۔ ہر نئے اور اچھے آئیڈیا پر خوش ہونے والے۔ وہ خاموش بیٹھے ہوتے، چل پھر رہے ہوتے، سیڑھیاں چڑھتے نظر آتے یا گفتگو بھی کررہے ہوتے تو اس وقت بھی کچھ سوچتے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ میرا ان سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا لیکن سچ یہ ہے کہ ان کو دیکھنے سے بھی انسپائپریشن ملتی تھی۔
میں سمجھتا ہوں کہ عمران اسلم نے صحافت میں جو وقت گزارا، وہ ضائع کیا۔ انھیں صرف تخلیقی سرگرمیوں میں مصروف رہنا چاہیے تھا۔ لیکن بھائی نصرت امین کی یہ بات بھی درست ہے کہ عمران اسلم جیسے لوگ اتنے باصلاحیت ہوتے ہیں کہ ایک زندگی ان کے لیے کم ہوتی ہے۔ اس میں ان کے مکمل جوہر سامنے نہیں آتے۔
میں عمران اسلم سے پہلی بار تب واقف ہوا جب 11 فروری 1991 کو دی نیوز کا پہلا شمارہ چھپا اور میں نے ان کی تصویر اس میں دیکھی۔ میرے پاس آج بھی وہ شمارہ محفوظ ہے۔ وہ اس کے پہلے نیوز ایڈیٹر تھے۔ جب دی نیوز میں میرے مضامین شائع ہونا شروع ہوئے اور میں اسپورٹس ایڈیٹر گل حمید بھٹی صاحب اور مرحوم خالد ایچ خان سے ملنے دفتر جاتا تو عمران اسلم اس شیشے کے کمرے میں بیٹھے نظر آتے جو ایڈیٹر کا تھا۔ اس وقت تک عمران اسلم اور فرشتے گیتی کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ فرشتے اس وقت دی نیوز اسپورٹس میں تھیں۔ بعد میں انھوں نے لکس اسٹائل ایوارڈ کا اجرا کیا۔
پی ٹی وی پر ڈراما روزی ملک بھر میں عمران اسلم کی شہرت کا سبب بنا۔ اس میں معین اختر نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ ڈراما ہالی ووڈ کی فلم ٹوٹسی سے متاثر ہوکر بنایا گیا تھا۔ لیکن اس سے روزی کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ وہ ہمارے معاشرے کا درست عکاس تھا۔ سچ یہ ہے کہ ہمارا ملک انگریزی اور اردو بولنے والوں میں تقسیم ہے۔ دونوں الگ طبقے بنے ہوئے ہیں اور ان کا مطالعہ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ دونوں اپنا مطالعہ شئیر کریں اور اچھی تخلیقات کا ایک دوسرے سے متعارف کروائیں۔
عمران اسلم کو اس بات کا احساس تھا۔ انھوں نے روزی کے علاوہ البرٹ گرنی کے ڈرامے لو لیٹر کو بھی اسٹیج پر پیش کیا جس میں ریحانہ سہگل نے ان کا ساتھ نبھایا۔ یہ موہتہ پیلس کراچی کے علاوہ 2018 کے لاہور لٹریچر فیسٹول میں بھی پیش کیا گیا۔ اس تحریر کے ساتھ تصویر اسی موقع کی ہے۔
ایک بار عمران اسلم نے بتایا تھا کہ انھوں نے 1972 میں بطور رپورٹر میونخ اولمپکس کور کیے تھے۔ میری ولادت انھیں اولمپک گیمز کے درمیان ستمبر میں ہوئی تھی۔ میں نے دل میں سوچا تھا کہ یہ کتنے پرانے آدمی ہیں۔ لیکن وہ اتنے پرانے بھی نہیں تھے۔ اس وقت بیس سال کے ہوں گے۔ کرئیر شروع کیا ہوگا۔ کیا شاندار کرئیر تھا۔ ضیا کے سیاہ دور میں مشکلات اور شاید بیروزگاری بھی سہی لیکن اسے بھی بہادری کا تمغہ سمجھنا چاہیے۔
تین سال پہلے عمران اسلم کو کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔ کل ان کا انتقال ہوگیا۔ آج جنگ اور دی نیوز میں انتقال کی خبر چھپی ہے۔ انتقال کتنا اچھا لفظ ہے۔ اسے موت نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ ایک شخص کے ملاقاتوں سے یادوں میں منتقل ہوجانے کا نام ہے۔
مارگریٹ ایٹ ووڈ کا یہ جملہ ہزار کہانیوں پر بھاری ہے کہ آخر میں ہم سب کہانیاں بن جاتے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر